شاہ ویر آج صبح سے اپنی سیکریٹری کے لئے انٹرویوز کررہا تھا۔ابھی لنچ بریک میں وہ اٹھ کر باہر گیا تھا کہ احد جو کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلا ہوا تھاوہ اینٹر ہوا۔اسکا رخ شاہ ویر کے روم کی طرف تھا کہ باہر بیٹھی نک سک سی اس لڑکی نے اسکی توجہ کھینچ لی۔ایک لمحے کو وہ اسکو دیکھتا رہ گیا،پھر سر جھٹک کر آفس میں اینٹر ہوگیا۔
شاہ ویر کو وہاں نہ پا کر اس نے ریسیپشنسٹ کو کال ملائ۔جس سے پتہ لگاکے شاہ ویر لنچ پر گیا ہواہے۔اور باہر بیٹھی دونوں لڑکیاں اپنے انٹرویو کا ویٹ کر رہی ہیں۔اس نے ریسیپشنسٹ سے کہا کہ وہ رائٹ سائیڈ پر بیٹھی منٹ بلیو سوٹ والی لڑکی کو اندر بھیجے۔
تھوڑی دیر بعد دروازے پر ناک ہوئ اور وہ ماہ جبین اپنے حسن کے ہتھیاروں سے لیس اندر داخل ہوئی۔
وہ ایک درمیانے قد کی دبلی پتلی لڑکی تھی۔منٹ بلیو کلر میں اسکی گوری رنگت اور دمک رہی تھی۔اور سلکی ایش بلونڈ بال اس پر بہت جچ رہے تھے۔غالبًا انکو ڈائی کروایا گیا تھا۔مغرور کھڑی ناک اور ناک میں دمکتی لونگ،میک اپ کے نام پر اس نےبس لپ گلوس لگایا ہوا تھا۔احد نے اسکو نظر بھر کے دیکھا۔اس کے کھنکھارنے پر احد نے گڑبڑا کر اسکو بیٹھنے کو کہا،اور اسکی فائل کھول کر پڑھنے لگا۔
“ہوں ۔۔میرم رضوان۔۔۔نائس نیم۔۔کیا مطلب ہے آپ کے نام کا؟”
اس نے لہجے کو سرسری بناتے ہوے پوچھا۔
“جی ۔۔فلاور بوکے۔”
میرم نے تھوڑا حیران ہوتے ہوۓ کہا۔
“بٹ آپ کے لئے تو پورا باغیچہ بھی کم ہے”۔
اس نے پر اشتیاق نظریں میرم پر جمائیں۔
میرم نے تھوڑی ناگواری سے اسکو دیکھا اور اپنی فائل کھینچتے ہوۓ کھڑی ہوگئی۔
“آئی تھنک میں غلط جگہ آگئ ہوں۔آپ یہاں لڑکیوں سے فلرٹ کرنے بیٹھے ہیں۔آپ کے بارے میں جو سنا تھا آپ ویسے بلکل بھی نہیں ہیں۔”
وہ غصے سے کہتی باہر نکلنے کے لئے پلٹی۔۔احد جلدی سے گھبرا کرسیٹ سے اٹھا۔
“ارے رکئے،سوری اگر آپ ہرٹ ہوئیں،میرا ارادہ ایسا کوئی نہیں تھا۔یو مس انڈرسٹوڈ می۔رئیلی سوری۔۔میں تو بس آپکے نام کے تعریف کر رہا تھا مگر شاید مجھے آتی نہیں ہے کرنی۔۔”
احد نے معصومیت سے سر کھجاتے ہوۓ کہا۔اسکا لہجہ اسکی سچائی کی گواہی دے رہا تھا۔میرم اسکو گھورتی واپس سیٹ پر بیٹھ گئ۔
“جی تو مسٹر شاہ ویر عالم آپ نے میری پروفائل دیکھ لی۔”
احد ایک لمحے کو گڑبڑا گیا کہ واقعی سیکریٹری تو شاہ ویر کو رکھنی ہے،مگر اب کچھ کہنے کی صورت میں یہ لڑکی اسکو پیٹ ڈالے گی۔
“آں ں ں۔۔۔۔آپ کی جاب پکی،آپ میری۔ ریکوئرمنٹس پر پوری اترتی ہیں۔”
احد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
“آپ سچ کہ رہے ہیں”۔؟
خوشی سے اسکی آنکھیں چمکنے لگیں۔
“مگر میرے پاس تو ایکسپیرینس بھی نہیں ہے،اور میں نے سنا آپ اب تک ۱۵/۲۔لڑکیوں کو ریجیکٹ کر چکے ہیں۔”
اس نے مشکوک نظروں سے احد کو دیکھا۔
“کیونکہ یہ جاب آپ کے نصیب کی تھی۔”
احد نے اسکی فائل اسکو تھماتے ہوۓ کہا۔
“پھر میں کب سے جوائن کروں؟؟”
میرم کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اسکو یہ جاب اتنی آسانی سےمل گئ ہے۔
“آپ کل صبح سے جوائن کرلیں۔میں آپ کااپائنٹمنٹ لیٹر بنوا دیتا ہوں۔”
احد نے خوشدلی سے کہا۔میرم اسکا شکریہ ادا کرتی روم سے نکل گئ۔احد کو لگاجیسے کمرہ ایکدم ویران ہو گیا ہو۔اس نے ریسیپشنسٹ کو دوسری لڑکی کو جانے کا کہ دیا اور خود بھی گنگناتا روم سے نکل گیا۔۔۔۔۔
“میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شاہ ویر آفس میں اینٹر ہوا تھا کہ ڈور پر ناک ہوا،اور ایک انجانا چہرہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔یس؟؟
شاہ ویر نے گردن اٹھا کر دیکھا۔
“آئی ایم پی اے آف مسٹر شاہویر عالم، وئیر ہی از؟؟”
اس نے گردن ادھر ادھر گھما کر اسکو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
شاہ ویر کا تو دماغ گھوم گیا کہ منہ اٹھا کہ اندر آگئ اور اسکے ہی آفس میں اس سے ہی جھوٹی کہانی گھڑ رہی ہے۔
“ہیلو ہو آر یو؟؟”
شاہ ویر نے سختی سے سوال کیا۔سامنے بھی میرم رضوان تھی،اسکا بھی تنتنا عود آیا۔
“ایکسکیوز می ہو دا ہیل آر یو ٹو آسک می،وہیر از شاہویر؟؟”
“تم ہوتے کون ہو مجھ سے پوچھنے والے،شاہویر کہاں ہے؟”
احد کے ساتھ ہوئ پچھلی ملاقات سے اسکو لگ رہا تھا کہ وہ دونوں باس سیکریٹری کے بجاۓ دوست بننے جا رہے ہیں۔تب ہی دروازہ کھلا اور احد اندر داخل ہوا۔وہ شاہ ویر کو میرم کے بارے میں بتانے ہی آیا تھا،اسکو اندازہ بھی نہیں تھا میرم اتنی صبح پہنچ جاۓ گی۔اسکو معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہو چکا تھا۔
“میرم ایک منٹ سوری تم باہر بیٹھو میں تم کو ابھی بلاتا ہوں۔”
میرم شاہویر کو گھورتی ہوئ باہر نکل گئ۔
“شاہویر میں تم کو سب سمجھاتا ہوں”۔
شاہ ویر جو میرم کی طبعیت صاف کرنے جا رہا تھا ،مٹھیاں بھینچتا ہوا بیٹھ گیا۔اور پھر احد نے اسکو پورا قصہ سنادیا۔شاہ ویر نے پوری بات سننے کے بعد ہاتھ اٹھا کر صاف کہ دیا۔
“نو نیور،جتنی بر تمیز وہ محترمہ ہیں میں اسکو اپنے ساتھ رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔”
شاہ ویر نے قطعیت سے کہا۔
“یار وہ ایسی نہیں ہے،وہ تو تم کوکوئی اور سجھ کر اتنابول گئی۔”
احد نے صفائ پیش کی۔
“تم اسکو کب سے جانتے ہو،جو تم کو پتہ ہے کہ وہ کیسی ہے؟”
شاہویر نے طنز سے پوچھا۔
“کل سے”۔
احد نےسر کھجاتے ہوۓ کہا۔
بلآخر پندرہ منٹ کی بحث کےبعد وہ شاہویر کو منانے میں راضی ہوگیا۔
“اوکے اسکا ریزیوم مجھے بھجواؤ۔”
شاہ ویر نےاسکو گھورتے ہوۓ کہا۔
“یار وہ چھوٹی سی ایک پرابلم اوربھی ہے”۔
احد نےڈسپنسر سے پانی کا گلاس بھرتے ہوے کن اکھیوں سے شاہ ویر کو دیکھا۔
“احد”۔۔۔
شاہ ویر نے دانت پیستے ہوۓ اسکو دیکھا۔
“دیکھو ایشو کوئ بڑا نہیں ہے،تھوڑے دن میں وہ سب سیکھ لے گی۔بہت شارپ ہے۔”
احد نے جلدی جلدی صفائی پیش کی۔
“احد ڈونٹ ٹیل می۔اسکے پاس کوئ ایکسپیرینس نہیں ہے؟؟”
شاہ ویر نے شاک سے احد کو دیکھا۔
“یار میں نے یہاں انٹرن شپ کی آفر نہیں دی ہے۔تم کوپتہ ہے،آج کل میں ویسے ہی بہت ڈسٹرب ہوں،مجھ کو ایک ایکسپیرنسڈ،میچور،سمجھدار لڑکی کی ضرورت ہے۔تم خود کیوں نہیں رکھ لیتے اپنی سیکریٹری اسکو۔”
شاہ ویر نے عاجز آکر کہا۔
“بھائی اسکو شاہ ویر عالم کے انڈر کام کرنے کا شوق ہے،مجھ کو کل بتا کر گئ ہے۔تم بس دو منتھ کے لیے اسکو رکھ لو،نہ سمجھ آے تو منع کردینا۔”
احد نے بے چارگی سے کہا۔
“یہ تم کو کو نسا سڑک چھاپ قسم کا عشق ہوگیا ہے اس سے؟”
شاہ ویر نے ناک چڑھاتے ہوۓ کہا۔احد کا زور دار قہقہ بلند ہوا۔
“بس کیوپڈ کا تیر چل گیا”۔
اس نے آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔
“لاحول ولا قوتہ،حرکتیں بھی سڑک چھاپ قسم کے عاشقوں والی کر رہے ہو۔”
شاہ ویر نے سلگتے ہوۓ کہا۔
“اچھا چلو چھوڑو ،یہ بتاؤ بھیجوں اسکو اندر۔”
احد نے دانت نکالتے ہوۓ پوچھا۔
“اسکو اچھے سے سمجھا دینا،میرے مزاج کا۔”
شاہ ویر نے انگلی اٹھا تےہوۓ کہا۔
“تھینکس بڈی۔۔”
احد اسکو فلائنگ کس اچھالتا ہوا پلٹا۔
“استغفراللہ،یہ اس کو کیا ہوگیا ہے”۔
شاہ ویر نے جھرجھری لی۔
احد باہر آیا،تو میرم کا پارہ کافی ہائ تھا۔احد نے میرم کو یہی بتایا کہ شاہویر نے لنچ پر جاتے ہوۓ باقی انٹرویوز اسکولینے کو کہے تھے۔اور ان دونوں کے درمیان تھوڑی غلط فہمی ہوگئ ،اسلئے وہ اسکو اپنی اصلیت نہیں بتا پایا کہ میرم اسکو غلط سمجھے گی۔ساری بات سن کر میرم کے اوسان خطا ہوگئے،کہ جس بندے سے وہ بدتمیزی کرکے آرہی ہے دراصل وہی اسکا باس ہے۔اسکو اب سمجھ آرہا تھا کہ شاہ ویر نام کا ہوّا کیا ہے،وہ کل یہی سوچ رہی تھی اتنے سیدھے سے بندے کو لوگوں نے ہوّا کیوں بنایا ہوا ہے۔وہ اپنا بیگ اٹھاتی کھڑی ہوئ،اور ایک نظر احد کو گھور کے بولی۔
“تم سے تومیں واپس آکر نمٹتی ہوں۔”
اور کھٹ کھٹ کرتی شاہویر کےروم کی طرف بڑھ گئی۔احد بھی مسکراتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء میڈیا اینڈ کلچر کی بک لیکر بیٹھی تھی،مگر دھیاں اسکا بک میں نہیں تھا۔کلثوم بیگم روم میں داخل ہوئیں تو اسکو پڑھتا دیکھ کر انکو خوشی ہوئ۔وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئیں۔نساء نے انکے کندھے سے اپنا سر ٹکا لیا۔
“اللہ پاک تم کو بہت خوشیاں دے ،تم میری ہمیشہ سے فرمانبردار بیٹی رہی ہو،تمھارے لئے اللہّ پاک نے بہتری کی ہوگی۔”
انہوں نے اسکو دل سے دعا دی۔نساء خاموشی سے انکے کندھے سے سر ٹکاۓ لیٹی رہی۔
“نساء تمھارے پاپا بہت گلٹی فیل کر رہے ہیں انکو لگ رہاہے جیسے وہ تمھارے مجرم ہوں،کل سے روم سے باہر بھی نہیں نکلے۔”
کلثوم بیگم نے اسکا سر سہلاتے ہوۓ کہا۔
“بیٹا والدین اولاد کے لئے کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے۔اور تمھاری جیسی اولاد تو بڑے نصیب والوں کو ملتی ہے،اللّہ پاک نے تمھارا نصیب بہت بہترین لکھا ہوگا۔اسکا مجھے پورا یقین ہے۔تم اپنے والدین کی جتنی دعائیں لیتی ہو تمھارے ساتھ کچھ برا نہیں ہوسکتا۔”
انہوں نے اسکے بالوں پر پیارکیا۔
“نساء تم کوپتہ ہے تمھارے آنے کے بعد میری زندگی آسان ہوگئ تھی۔تم میرے لئے اللّہ کا خاص تحفہ ہو۔تو جو دوسروں کے لئے آسانیاں لاۓ،اسکی زندگی کیسے مشکل ہوسکتی ہے ؟؟”
کلثوم بیگم نے اسکو اپنےسے الگ کرکے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا۔نساء نظریں چرا گئ۔
“تم اپنے پاپا کے پاس جاکر بیٹھو،اور انکو اس گلٹ سے نکالو۔مجھے پتہ ہے تم ابھی پریشان ہو،مگر ہم سب کو ایک دوسرے کی ہمت بننا ہے۔”
انہوں نے اسکی پیشانی چومتے ہوۓ کہا۔نساء گردن ہلا کر کھڑی ہوگئ۔آئینے میں دیکھ کر اسُ نے اپنا دوپٹہ درست کیا اور بال باندھے،اور وقار صاحب کے کمرے کی طرف چل دی۔
کلثوم بیگم اسکے جاتے ہی پھٹ پھوٹ کر رودیں۔وہ سب کو ہمت بندھا رہی تھیں،مگر دل تو انکا بھی کٹ رہا تھا۔وہ سب کے سامنے رو کر سب کو کمزور نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء کمرے میں آئی تو وقار صاحب آنکھوں پر آنکھ رکھ کر لیٹےتھے۔آہٹ پر انہوں نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹاۓ،اور نساء کو دیکھ کر اسکے لئۓ بیڈ پر جگہ بناتے ہوۓ بولے۔
“آؤ بیٹا بیٹھو،کیسی ہو؟”
“آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے پاپا؟”
نساء نے انکے برابر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
“ہاں بیٹا ٹھیک ہوں”۔
انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوۓ کہا۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وقار صاحب نساء کو دیکھتے ہوۓ گویا ہوۓ۔
“بیٹا مجھے نہیں پتہ اللہّ پاک کی کیا مصلحت ہے،جو تم اتنے سال اسکے نام سے منسوب رہیں۔مگر یقین کرو بیٹا یہ رشتہ ابھی ختم ہوگیا،اسمیں ہم سب کی بہتری ہے۔میں نے ایقان کی نظروں میں تمھاری اہمیت دیکھنے کے لئے ہی اسکو یہ آپشن دیا تھا”۔
ایقان کے نام پر نساء کے دل کو کچھ ہوا۔آنسو پلکوں کی باڑ توڑنے کو بےقرار ہوگئے۔مگر اس نے انکو پلکیں جھپک کے اندر اتار لیا۔
“اور نساء اس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ تم کو ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔کیونکہ بیٹا جو لوگ آسانی سے رشتے ختم کردیتے ہیں انکی نیت کبھی بھی رشتے نبھانے کی نہیں ہوتی۔وہ موقع ملتے ہی دھوکہ دیتے ہیں۔آج نہیں تو کل وہ تم کو اس وجہ سے نہ صحیع کسی اور وجہ پر چھوڑ دیتا۔بیٹا رشتے نبھانے والے بیچ میں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتے۔اور نساء یہ رشتے یکطرفہ نہیں نبھاۓ جاتے،کیونکہ پھر وہ رشتے نہیں بوجھ بن جاتے ہیں۔”۔
انہوں نے غور سے نساء کو دیکھا جو گردن جھکاۓ بیڈ کور کے ڈیزئن پر انگلی پھیر رہئ تھی۔
“تمکو پتہ ہے اگر آپ کسی آئرش لڑکی سے شادی کرلیتے ہیں تو آپ کو 3 سال کے اندر سیٹیزن شپ مل جاتی ہے۔اور یہ پیپر میرج نہیں ہوتی ،آپ کو ساتھ رہنا ہوتا ہے۔تو نساء جو شخص ابھی بزنس شروع کرنے کے لئے تم کو چھوڑ سکتا ہے وہ اپنے کرئیر کو آگے بڑھانے کے لئےتم کو دھوکہ بھی دے سکتا تھا۔کونکہ اسکے لئے اسکا کرئیر اہم ہے اور میرے لئے میری اولاد۔”
وقار صاحب نے نساء کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔نساء کہنا چاہتی تھی پاپا آپ نے جو کیا ،وہ ٹھیک تھا،مگر الفاظ اسکے منہ سے نہیں نکل پا رہے تھے۔آنسوؤں کا ایک گولہ اسکے حلق میں پھنس گیا تھا۔اور وہ وقار احمد کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔اس نے وقار احمد کے ہاتھ پر پیار کیا اور جلدی سے کمرے سے نکل گئی۔وقار احمد گہری سانس لیکر رہ گئے۔ایک بار پھر وہ ماضی کے پچھتاوں میں کھو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کلثوم کلثوم کہاں ہو؟”
وقار صاحب زوردار آواز میں گرجتے ہوۓ روم میں داخل ہوۓ۔وہ جو دن بھر کے بعد تھوڑی دیر کو کمر ٹکانے لیٹی تھی،ایکدم ہڑبڑا کر اٹھ گئ۔
“اسلام و علیکم”۔
کلثوم نے انکو دیکھ کر جلدی سے سلام کیا۔
“تم نے اماں کو پورے دن کھانا نہیں دیا۔اس عمر میں وہ پورا دن بھوکی گزاریں گی۔تم کو اپنے آرام کے علاوہ کسی چیز کی فکر ہے۔”
انہوں نے ایک ہی سانس میں اسکو لتاڑا۔
“مگر میں نے تو اماں کو کھانابھی دیا ہے،اور ابھی بس چاۓ کےبرتن رکھ کر آئی ہوں۔”
کلثوم نے حیرت سے کہا۔
“تو کیا اماں جھوٹ بول رہی ہیں؟”
وقار احمدنے آنکھیں نکالتے ہوۓ پوچھا۔تب ہی دھڑ سے کمرے کا دروازہ کھلا،اور شاکرہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔
“ارے میرا بچہ کیوں اپناگھر خراب کرتے ہو،مجھ بوڑھی کے لئے،میں تو آج ہوں کل نہیں۔رہنا تو تم نے اپنی بیوی کے ساتھ ہے”۔
انہوں نے اپنے لہجے میں زمانے بھر کی مسکینیت طاری کرلی۔
“ارے اماں ایسے کیوں کہتی ہیں آپ،اور آئندہ اماں کے کاموں میں کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔”
وقار احمد نے انگلی اٹھا کر کلثوم کو تنبیہ کی۔کلثوم ایک لفظ کی صفائی دیۓ بغیر روم سے نکل گئ۔
“ارے تھی سچی تو میرے سامنے بولتی نہ جومیرے پیٹھ پیچھے میرے بچے کو بھر رہی تھی۔”
وہ رونا دھونابھول کر چمک کے بولیں۔کلثوم کی خاموشی نے انکو اور شیر بنادیا تھا۔اور وقار احمد کو بھی ماں کی بات میں وزن لگا کہ واقعی کلثوم سچی تھی تو ماں کے سامنے کیوں نہیں دی صفائ؟؟
وہ سمجھ کے اس معیار سے کوسوں دور تھے جہاں کلثوم کھڑی تھی۔اسکاماننا تھا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے پر آنکھ بند کرکے اعتبار ہوناچاہیے۔ایک دوسرے کو صفائ دینے کی ضرورت پڑ جاۓ،تو ایسے رشتے بس ساری زندگی صفائ دینے میں ہی گزر جاتے ہیں۔اسکو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ پچھلے ۲مہیںے میں اس نے شاکرہ بیگم کی خدمت میں کوئ کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ،اور خود وقار احمد اس بات کے گواہ تھے،مگر پھر بھی آج وہ اس سے سوال کرنے آگئے،اور بغیر صفائ کا موقع دئے اسکو مجرم گردان دیا۔
مگر وقت سچ جھوٹ کا پردہ فاش کردیتا ہے،اور کلثوم کے کیس میں اس بار وقت نے ہاتھ کے ہاتھ اسکو سرخرو کردیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وقار بیٹا یہ اتنا کم سالن کیوں ڈالا ہے؟اور لو نہ”۔
شاکرہ بیگم نےوقار احمد کو پچکارا۔دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کی آؤ بھگت میں لگے تھے۔کلثوم بس پلیٹ میں تھوڑے سے چاول لیےبےدلی سے چمچہ چلا رہی تھی۔اسکا کھانے کا بلکلُ موڈ نہیں تھا۔اسکی ساری توجہ اپنے آنسوؤں کو روکنے پر تھی۔
“اری زینت اور روٹی لا،یہاں تو کوئ ہلے گا نہیں”۔
انہوں نے طنز سے کلثوم کو دیکھا۔جو جلدی سے کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئ تھی کہ زینت بوا روٹی لئے آگئیں۔
“بی بی جی ،نمک ٹھیک ہوگیا سالن میں؟دن میں آپ کو کم لگ رہا تھا نہ؟”
زینت بوانے دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ پوچھا۔
“ہائیں ہائیں زینت پاگل تو نہیں ہوگئ ہے؟؟میں نے کب دن میں کھانا کھایا۔چل بھاگ یہاں سے،اور وقار کےلئے میٹھالیکرآ۔”
شاکرہ بیگم نے جلدی جلدی دہائی دی۔وقار احمد نے ایک نظر کلثوم کو دیکھا اور ایک نظر ماں پر ڈالتے کرسی چھوڑ کر اٹھ گئے۔کلثوم بھی جلدی جلدی برتن سمیٹنے لگی،کیونکہ شاکرہ بیگم کا سارا نزلہ اب کلثوم پر ہی گرناتھا۔مگر اس وقت اسکا دل زینت بوا کو چومنے کوچاہ رہا تھا۔وہ اپنی مسکراہٹ دباتی کچن کی طرف چل دی۔
یہ دوسری دفعہ ہوا تھا جب وقار احمد کو کلثوم پر لگاۓ گۓ الزام کا پتہ لگ گیا تھا۔مگر وہ ماں لی محبت میں اس قدر اندھے تھے کہ وہ کلثوم کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوۓ تھے،ویسے بھی کلثوم کی دلجوئ کرکے انکو ماں کے زیر عتاب نہیں آنا تھا۔انکو اپنی بھابھیوں کی خطاؤں کی لسٹ شاکرہ بیگم کی زبانی سن سن کر ازبر تھی،اور اپنے بھائیوں کی طرح انکو بقول شاکرہ بیگم ماں کا نا فرمان اور جہنمی نہیں بننا تھا