“سجل اٹھو اسجد آیا ہے۔”
کلثوم بیگم نے اسکے اوپر سے کمبل اٹھایا۔
“اسکو کہہ دیں میں سو رہی ہوں”۔
سجل نے واپس کمبل منہ تک کھینچ لیا۔
“سجل تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے،اٹھو اور دس منٹ میں فریش ہوکر نیچے آجاو”۔
کلثوم بیگم نے اسکو لتاڑا۔
“مما میں نے کہ دیا نہ میں نہیں آرہی”۔
سجل نے کمبل کے اندر سے جواب دیا۔میں تمھارا نیچے انتظار کرہی ہوں۔
کلثوم بیگم اسکو گھورتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔
“میں نہیں آ رہی”۔
سجل نے بیزاری سے کہتے ہوۓ موبائیل اٹھالیا۔
فیس بک کھولی تو پہلی ہی پوسٹ کسی دوست نے شوہر کے حقوق پر کی ہوئ تھی۔
حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“دنیا میں جب کوئی عورت اپنے شوہر کو ستاتی ہے تو جنت میں موجود اسکی حور بیوی کہتی ہے کہ تیرا ستیاناس ہو،اسکو مت ستاؤ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے اور تجھ سے جدا ہو کر جلد ہی ہمارے پاس آجاۓ گا”
سجل کے دل کو ایک پل کو کچھ ہوا،مگر اگلے ہی لمحے اسکا غصہ عود آیا۔اس نے بیزاری سے موبائیل بند کرکے رکھ دیا۔اس وقت اسکو کوئی نصیحت ،کوئی واقعہ،کوئ بات ،کچھ بھی پراثرنہیں لگ رہی تھی۔
کلثوم بیگم نیچے آئیں تو اسجد بچوں کو گود میں بٹھاۓ ان سے بات کر رہا تھا.2 سالہ عنایا اس سے آئسکریم کی فرمائش کر رہی تھی ۔پاپا آئی وانٹ آئسکریم…(“پاپا مجھے آئسکریم کھانی ہے”)
جس پر 5سالہ آذر نے بہت ہی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اسکو سمجھایا۔
عنایا کانٹ یو سی پاپا از گوئنگ ٹو آفس۔۔
(“عنایا تم کو نظر نہیں آرہا ہے پاپا آفس جا رہے ہیں”)
اسجد نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا اور عنایا سے کہا ۔
(یس عنایا رائٹ ناؤ پاپا از گوئنگ ٹو آفس بٹ آئی ول ٹیک یو بوتھ ان دا ایوننگ)
“ہاں عنایا پاپا ابھی آفس جا رہے ہیں مگر شام کو آپ دونوں کو آئسکریم کے لئے لے جاؤں گا۔”
عنایا نے فورا اپنا ہاتھ آگے پھیلایا” پرامس؟”
اسجد نے اسکے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر پرامس کیا اور کلثوم بیگم کو آتا دیکھ کر بچوں کو اتار کر کھڑا ہوگیا
۔کلثوم بیگم نے اسکو دیکھکر نظریں چرائیں اوربولیں،
“ابھی آ رہی ہے سجل ،سو رہی تھی۔”
مگر اسجدجانتا تھا سجل نہیں آۓ گی۔
“پھپھو کیا میں خودمل لوں اگر سجل اٹھ گئی ہے تو”؟
اسجدنے آہستگی سے پوچھا۔
“ہاں بیٹا ضرور میں جب تک بچوں کو کپڑے چینج کروالوں”۔
کلثوم بیگم بچوں کو لے کر اندر کی طرف چلی گئیں،آسجدبھی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
دو بار ناک کرنے پر بھی جب کوئ جواب نہیں آیا تو اس نے دروازے کا ناب گھمایا،دروازہ ان لاک تھا،کھل گیا۔سجل اب تک بیڈپر تھی وہ دوبارہ نیند میں جارہی تھی۔
جب اسجد روم میں داخل ہوا،اور اسکے مخصوص کلون کی خوشبو سجل کے نتھنوں سے ٹکرائی،اسکی موجودگی کا احساس ہو نے پر سجل کا دل الگ ہی اندازمیں دھڑکنے لگا مگر اسکو اسجد کو ناراضگی بھی تو دکھانی تھی،اس نے منہ سے کمبل نہیں ہٹایا۔اسجد آہستگی سے اس کے سرہانے جگہ بنا کر بیٹھ گیا اور کمبل ہٹا کے اسکے گھنگریالے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلانے لگا۔
“تو کب تک ارادہ ہے جناب کا ناراض رہنے کا؟”
پیار سے پوچھا گیا۔
سجل نے اسکا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹا دیا اور کوئ جواب نہیں دیا۔
“ہوں ں ں۔۔۔۔”
اسجد گہری سانس خارج کرتے ہوۓ کہا۔
“سجل یار اب بس بھی کر دو کب تک ستاؤ گی؟تمھارے اور بچوں کے بغیر گھر بلکل سونا ہوگیا ہے،کب تک یہ سب چلے گا”
اسجد نے بے چارگی سے بولا۔
“کب تک ،تم کو اچھےسے پتہ ہے اسجد کہ،کب تک”
۔۔۔سجل نے غصے سے کمبل ہٹاتے ہوۓ کہا۔
“اور تم کیوں نہیں سمجھ رہے اسجد ،میں اب نہیں رہ سکتی ممانی جان کے ساتھ۔”
اس نے بے بسی سے بولا۔
“سجل تم اپنی جگہ صحیح ہو،تمہارے ساتھ زیادتی ہوئ ہے،میں کب کہ رہا ہوں امی ٹھیک ہیں،میں بھی آجکل بس گھر میں سونے جاتا ہوں،کھانا بھی باہر ہی کھا رہا ہوں۔مگر میں فی الحال تمہاری ضد بھی پوری نہیں کر سکتا ہوں۔”
اس نے دلگرفتگی سے کہا۔
“ضد۔۔۔اسجد یہ تم کو ضد لگ رہی ہے؟”
سجل نے آنکھیں نکالتے ہوۓ پوچھا۔
“ممم مم میرا مطلب وہ نہیں تھا”۔
اسجد گڑبڑا گیا۔
“میں کہنا چاہ رہا تھا کہ فی الحال میں تمہاری بات پوری نہیں کر سکتا ہوں،فاریہ کی شادی پر جو لون لیا تھا کمپنی سے اسکی بھی ابھی 7اقساط بچی ہیں،وہ ختم ہونے پر ہی میں دوبارہ اپلائ کر سکتا ہوں لون کے لۓ۔ویسے میں نے سوچا ہے جو پلاٹ ہم نے ۲سال پہلے لیا تھا وہ بیچ دوں،ایک دو جگہ بات بھی کی ہے،اچھے پیسے مل جائیں تو وہ بیچ کر ایڈوانس وغیرہ کا بندوبست ہو جاۓ گا،بس تم اتنے دن تک رہ لو چل کر گھر پر۔”
اسجداپنا لائحہ عمل بتایا۔
“نہیں اسجد تم وہ پلاٹ نہیں بیچو گے وہ ہم نے بہت ارمانوں سے خریدا تھا کہ وہاں اپنی پسند کا گھر بنائیں گے”۔
سجل نے قطعیت سے کہا۔
“سجل پلاٹ ہم دوبارہ خرید لیں گےفی الحال تمھارا ایک مسئلہ تو حل ہو۔”
اسجد نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوۓ ہوۓ کہا۔
“مگر اسجدپاپا بھی تو ہم کو گھر سیٹ کرکے دینے کو تیار ہیں تم کو اس میں بھی مسئلہ ہے”۔
سجل نے تھوڑا ناراضگی سے کہا۔
“سجل پھوپھا تو کیا میں خاندان میں میں کسی سے بھی ایک روپے کی مدد لوں یہ میری خود داری کو گوارا نہیں ہے”۔
اسجد نے سنجیدگی سے کہا۔
“مگر اسجد پاپا ‘کوئ’تھوڑی ہیں،ویسے بھی وہ اپنی بیٹی اور نواسا نواسی کو گھر سیٹ کرکے دے رہے ہیں”۔
سجل نے منت سے کہا۔
“تو ٹھیک ہے سجل تم لوگ رہ لو جا کر میں نہیں جاسکتا سوری”۔اسجد نے آہستگی سےاسکے ہاتھوں سے ہاتھ نکالتے ہوئے کہا۔
“اسجد تم ہر مشورہ رد کر دیتے ہو،تم مجھ کو الگ گھر لے کر دینا ہی نہیں چاہتے ہو۔”
سجل نے منہ بنایا۔
“سجل میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ تم کو خوش رکھ سکوں،مگر اس کی قیمت میری خود داری ہو یہ مجھ کو گوارا نہیں ہے،اور کم از کم تمکو اس معاملے میں میرا ساتھ دینا چاہئے۔”
وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔
اسکو لال چہرے کے ساتھ نیچے اترتا دیکھ کے کلثوم بیگم کو اوپر ہونے والی گفتگو کا اندازہ کرنا ذرا مشکل نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویر ابھی ابھی گھر پہنچا تھا،گاڑی لاک کررہا تھا جب اسکرین پر ممی کالنگ بلنک کرنے لگا۔اس نے آئ پوڈز کانوں میں لگاۓ اور کال ریسیو کی،ڈرائیو وے سے ہوتا وہ لاؤنج میں آیا۔
“اسلام وعلیکم ممی،کیسی ہیں آپ؟”
ٹیبل پر والٹ،کی چین رکھتے ہوۓ اس نے ماں کو سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام “۔
شاہ ویر کل سے کہاں غائب ہو؟نہ کال ریسیو کر رہے ہو نہ کوئ میسیج دیکھ رہے ہو،وہ تو احد سے مجھ کو تمھاری خیریت ملی۔”۔
رابعہ عالم نے ایک ہی جملے میں اسکی خیریت اور اپنی خفگی کا اظہار کیا۔
“اچھا تو احد کو آپنے بھیجا تھا میری مخبری کے لئے؟”
شاہ ویر ناراضگی سے بولا۔
“ہاں تو جب تم کو خود ماں کی پریشانی کا احساس نہیں ہے تو مجھے خود ہی خیال رکھنا ہوگا نہ”۔
انہوں نے مصنوعی ناراضگی سے بولا۔
“بس ممی موبائیل سائلنٹ پر تھا،پتہ نہیں چلا،آپ پاکستان کب واپس آرہی ہیں؟”
شاہ ویر نے موضوع بدل دیا۔
“بس نیکسٹ ویک ارحم کا سوا مہینہ پورا ہورہا ہے،پھر بس میں بھی نکلوںگی یہاں سے”۔
انہوں نے اپنا پلان بتایا۔
“ ارحم اور اذلان کیسا ہے؟”
شاہ ویر نے بہن اور نو مولود بھانجے کا پوچھا۔
“ہاں الحمد للہ ٹھیک ہیں دونوں،بس میرا دل تو تم میں لگا ہوا ہے،تم اپنا خیال رکھو اور جو ہوا اسکو بھول جاؤ۔”
انہوں نے محبت اور فکرمندی سے کہا۔
“جی ممی،اچھا میں بس ابھی گھر پہنچا ہوں،فریش ہونے جا رہا تھا”۔
شاہ ویر نے بات سمیٹی۔
“اوکے بیٹا اللہ حافظ ہمیشہ خوش رہو۔”
انہوں نے دعائیں دے کر فون بند کیا۔شاہ ویر فریش ہونے کی غرض سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویر نے stanford graduate school of buisness سے MBA کیا تھا۔وہیں اسکی ملاقات جینیفر سے ہوئ تھی۔وہ ایک کیتھولک تھی۔شاہ ویر زیادہ سوشل قسم کا بندہ نہیں تھا۔جینیفر سے دوستی میں بھی زیادہ ہاتھ خود جینیفر کاتھا۔
شاہ ویر ویسے تو کوئ بہت پریکٹیکل مسلمان نہیں تھا،مگر پھر بھی عورت مرد کی دوستی میں وہ ایک لمٹ کا قائل تھا۔اسکو کبھی بھی لڑکیوں میں انٹرسٹ نہیں رہا تھا،مگر وہ خود اتنا جاذب نظر اور مردانہ وجاہت کا مجموعہ تھا کہ صنف نازک کی نظروں کا مرکز رہتا تھا اور اس بات کا اسکو اندازہ بھی تھا۔
مگر اس دفعہ بات کچھ الگ تھی اسکو لگ رہا وہ بھی جینیفر کو پسند کرنے لگا ہے وجہ شاید یہی تھی کہ جینیفر نے کبھی بھی اپنی لمٹ کراس کرنے کی کوشش نہیں کی تھی،کیونکہ شاہ ویر کا تعلق جس کلاس سے تھا وہاں عورتوں کا مردوں سے بے تکلف ہونا ایک عام سی بات تھی،اور سب سے بڑھ کر اسکو انکے لباس قابل اعتراض لگتے تھے۔
جینیفر نے ہمیشہ لانگ اسکرٹ پہنا تھا،یا وہ جو بھی لباس پہنتی تھی وہ تہذیب کے دائرے میں آتا تھا،وہ پابندی سے چرچ جاتی تھی،اس نے کبھی ڈرنک کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔شاہ ویر کو لگتا تھا کہ وہ ان مسلمان عورتوں سے بہت اچھی ہے جو خوش قسمتی سے مسلمان گھرانے میں پیدا تو ہو گئ ہیں مگر عملا انہوں نے مسلمان عورت کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی ہے اور اسکا کھلا مظاہرہ وہ اپنی سوسائٹی کی پارٹیز میں دیکھا کرتا تھا،اور اسکی اور جینیفر کی سوچ کی یہی مماثلت اسکو جینیفر سے قریب لے آئ تھی۔
وہ جانتا اسکی شادی میں اسکی ممی کو بھی کوئ اعتراض نہیں ہوگا،اور وہی ہوا جب اس نے رابعہ عالم کو جینیفر کے متعلق بتایا تو انہوں نے بس اس سے یہی پوچھا کہ تم سیریس ہو شاہ ویر؟جی ممی ،میں اور جینیفر شادی کرنا چاہتے ہیں اور اسکی مام کو بھی کوئ اعتراض نہیں ہے، شادی کے بعد ہم اپنا اپنا مذہب فالو کریں گے۔رابعہ عالم نے اسکو بخوشی اجازت دے دی تھی۔
ان ہی دنوں اسکی بہن کی شادی ہوئ تھی،اور وہ سیمسٹر کے باعث جانہیں سکا تھا،فی الحال رابعہ عالم کے لۓ US جانا مشکل تھا،کیونکہ ارحم کےکینیڈا جانے کے لۓ ڈاکومینٹس بننے تھے اور وہ رابعہ عالم کے پاس تھی۔انہوںنے شاہ ویر سے کہ دیا تھا کہ وہ اپنی بہو سے پاکستان میں ہی ملیں گی،اور ایک شاندار reception دیں گی۔ویسے بھی اب شاہ ویر کا MBA مکمل ہو گیا تھااور اسکو واپس آکر اپنے پاپا کا بزنس سنبھالنا تھا۔
انوار عالم کی ڈیتھ کو ۳سال ہو گۓ تھے،اسوقت شاہ ویر اپنی اسٹڈیز کر رہا تھا،اسلئے رابعہ عالم نے اسکی پڑھائ کا حرج نہیں ہونے دیا،کہ وہ پورا دھیان پڑھائ کو دے،بزنس وہ خود دیکھ لیں گی۔رابعہ عالم ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔بزنس کی بہت سمجھ بوجھ تو نہیں تھی مگر احد کے والد محمد بشیر( جو انوار عالم کے بزنس میں 40% کے پارٹنر تھے)کی سپورٹ کی وجہ سے انکو زیادہ پرابلم نہیں ہوئ۔محمد بشیر ایک دیانت دار اور نیک صفت انسان تھے اور انوار عالم کے ساتھ پچھلے ۲۵سال سے MNA grp of industries چلا رہے تھے،جس کا نیا CEO اب شاہ ویر عالم بننے جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائننگ ٹیبل پر سب کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔سوئیٹ ڈش میں چمچہ چلاتی نساء جو کافی دیر سے کسی گہری سوچ میں تھی ہچکچا تے ہوۓ ایقان کا مطالبہ بتانے لگی۔جس کو سن کر کلثوم بیگم تو سناٹے میں آگئیں۔وقار صاحب نے پوری بات سن کر نساء سے کہا کہ
“اسکو بولو کہ گھر والوں کے ساتھ آکر بات ایک طرف کرے”۔
اور نیپکین سے منہ صاف کرتے ہوۓ اٹھ گۓ۔
نساء کو معاملہ ایک طرف کرے سن کر اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا،اس نے مدد طلب نظروں سے کلثوم بیگم کو دیکھا جو خود ازحد پریشان تھیں،ان لوگوں کے حساب سے تو نساء کے سیمسٹر ختم ہوتے ہی شادی ہونی تھی مگر ادھر ایقان نے یہ مطالبہ کرکہ انکو ٹینشن میں ڈال دیا تھا۔
سجل نے نساء کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر اسکو تسلی دی،کہ تم پریشان نہیں ہو،ایقان اتنی آسانی سے تم سے دستبردار نہیں ہوگا،اس نے تم سے اپنی پسند سے منگنی کی ہے۔
مگر نساء اس سے یہ نہیں کہ پائ کہ جس طرح اس نے یکطرفہ پسند سے منگنی کی ہے اسی طرح زندگی کے ہر کام یں اسکو یکطرفہ فیصلوں کی عادت ہے۔اور وہ تو بس اسکی محبت میں آنکھ بند کرکے سب کرتی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایقان کی ہر بات کو حکم کا درجہ دینا نساء کا اولین فرض تھا۔نساء نے انٹر پری میڈیکل سے کیا تھا،آگے اسکو میڈیکل کالج میں میں ایڈمیشن لینا تھا،مگر ایقان کاکہناتھاکہ آج کل Mass communication کا بہت اسکوپ ہے،اسکو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔اور ایقان سے منگنی کے بعد تو نساء نے جیسے اپنی سوچ اور ذہن پر تالا لگا لیا تھا،اسکو بس وہی کرنا ہوتا تھا جو ایقان کے منہ سے نکل جاۓ۔ایقان کو اب اس فرمانبرداری کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ وہ اب ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنا چاہتا تھا۔
مساء کےایڈمیشن کے وقت ایقان نے کہا تھا کہ ایم بی بی ایس کرنے کا فائدہ نہیں ہے،اور اگر وہ اسپیشلائزیشن کرتی ہے تو بہت ٹائم لگ جاۓ گا اور وہ اتنا انتظار نہیں کر سکتا ہے اور نساء نے بغیر چوں چراں کے Mas comminication کا فارم فل کردیا تھا،حالانکہ نساء کو جرنلزم،میڈیا سے دور دور تک کوئ لگاؤ نہیں تھا۔
ویسے بھی وہ بہت interovert قسم کی لڑکی تھی،یہ اسکی فیلڈ نہیں تھی،مگر وہی کہ نساء کے لئے”قولِ ایقان” “حکمِ ایقان” تھا۔اور اب جب شادی کا وقت قریب آگیا تھا تو اسکو اور ٹائم چاہئے تھا،نساء سخت ڈیپریشن کا شکار تھی۔اسکا رواں رواں دعا گو تھا کہ پاپا ایقان کی بات مان جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویر نے پہلے جینیفر اور اسکی ممی کی خواہش پر چرچ میں شادی کی تھی۔پھر انکا نکاح مسجد میں ہوا۔شادی کے بعد وہ ایک ہفتے کے ٹور پر وینس چلے گۓ۔واپسی انکی پاکستان ہوئ تھی،جہاں رابعہ عالم نے انکا بہت پر جوش استقبال کیا۔
گوری رنگت،شہد رنگ بال و آنکھیں ،اور دراز قد کی جینیفر انکو اپنے شہزادے جیسے بیٹے کے ساتھ بہت بھائ۔جینیفر نے آج بلیک لانگ اسکرٹ پہنا تھا،ساتھ ہی بلیو ڈینم شرٹ تھی،گلے میں چھوٹا سا پرنٹڈ اسٹول بندھا تھا۔رابعہ عالم نے دونوں کی نظر اتاری۔
اگلے دن دونوں کا ریسیپشن تھا،جس میں شہر کی ایلیٹ کلاس نے شرکت کی تھی۔
رابعہ عالم نے جینیفر کے لئے گرے نیٹ کی لانگ میکسی بنوائ تھی،جس پر کورے اور دبکے کا نفیس،بھاری کام تھا۔جیولری کے لئے انہوں نے وائٹ گولڈ اور ڈائمنڈ کا نازک سا سیٹ پسند کیا تھا۔وہ shamain سے تیار ہوئ تھی،جس نے اسکے حسن کو چار چاند لگا دئے تھے۔
شاہ ویر نے نیوی بلیو تھری پیس سوٹ پہنا تھا،ساتھ ہی گرے سلک شرٹ اور ٹائ لگائ تھی۔بالوں کو جیل سے پیچھے کئے وہ بہت ہی جاذب نظر لگ رہا تھا۔ایک دوسرے کی بانہوں میں ہاتھ ڈالے مہمانوں سے مسکرا کر ملتے وہ ایک پرفیکٹ کپل کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
بہت سی رشک و حسد کی نگاہیں مسلسل انکا طواف کر رہی تھیں،بہت سی مائیں جو اپنی بیٹیوں کے لئے شاہ ویر پرنظر رکھ کر بیٹھیں تھیں،انکو جینیفر میں ہزاروں نقص ،تو ماضی میں شاہ ویر کی بد دماغی کے سارے مظاہرے آج ہی یاد آرہے تھے۔بہرحال جتنے منہ اتنی باتوں کے ساتھ ایک بہترین ضیافت پر اس فنکشن کااختتام ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح جینیفر کی آنکھ کھلی تو شاہ ویر فریش ہو کر مرر کے آگے کھڑا بال برش کر رہا تھا۔اس نے بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ پہنی تھی،ساتھ ہی بلیک اینڈ وائٹ سٹرائپ کی ٹائ لگائ تھی۔جینیفر کو اٹھتا دیکھ کر وہ مسکرا کر اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔
(“گڈ مارننگ مسز شاہ ویر عالم)”
“صبح بخیر مسز شاہ ویر عالم”
اس نے اس کی ناک کو ہلکے دباتے ہوۓ کہا۔
“گڈ مارننگ شاہ”
جینیفر نےبھی جمائ روکتے ہوۓ کہا۔
(“واۓ ڈڈنٹ یو ویک می اپ؟؟)
“ تم نے مجھکو اٹھایا کیوں نہیں”؟؟
جینیفر نے بالوں کو کیچر میں قید کرتے ہوۓکہا۔
(“مائی ڈئیر وائف،یو ور سو ٹائیرڈ یسٹرڈے دیٹس وائے آئی ڈدنٹ ویک یو اپ”)
“میری پیاری بیگم،کل تم بہت تھک گئ تھیں سو میں نے سوچا تم کو آرام کرنے دوں۔”
شاہ ویر نے اسکا ہاتھ اپنا ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔
“(بٹ وئیر آر یو گوئنگ”)
“مگر تم جا کہاں رہے ہو؟”
جینیفر نے اسکی تیاری دیکھتے ہوۓ کہا۔
“(ایکچوئلی آئی ایم گوئنگ ٹو آفس،ممی شڈ ریسٹ ایٹ ہوم۔آئی وانٹ ٹو ٹیک مائی ریسپانسبلٹی۔ بٹ بی فور دیٹ آئی ول ٹیک بریک فاسٹ ود ممی”).
“میں دراصل آفس جا رہا ہوں،اب ممی کو گھر پر آرام کرنا چاہئیے،میں اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانا چاہتا ہوں،مگر اس سے پہلے میں ممی کے ساتھ بریک فاسٹ کروں گا،وہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی”
شاہ ویر نے گھڑی کا اسٹریپ بند کرتے ہوۓ کہا۔
“(گیٹ ریڈی اینڈ کم فار بریک فاسٹ”)
“ تیار ہوکر ناشتے کے لئے آجاؤ”
شاہ ویر اسکا گال تھپتھپا تا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
جینیفر کو یہ بات بلکل پسند نہیں آئ کہ بجاۓ اسکے ساتھ ناشتہ کرنے کے شاہ ویر اپنی ممی کے ساتھ ناشتہ کرنے چلا گیا۔
شاہ ویر نےویسے تو جینیفر کو کافی اردو سکھادی تھی،مگر پھر بھی وہ آپس میں انگلش میں ہی بات کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم بیگم کچن میں ملازمہ کو کچھ ہدایت دے رہی تھیں جب سجل سو کر اٹھی۔وہ ناشتہ لینے کچن میں آئ تھی۔
“اسلام و علیکم مما”۔
اس نے کلثوم بیگم کو سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام”۔
انہوں نے اسکو بغیر دیکھے جواب دیا۔آجکل وہ سجل سے کھنچی کھنچی رہتی تھیں۔
“کیا لوگی ناشتے میں؟”
انہوں نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔
“بس ایک گلاس جوس بنوادیں”۔
سجل نے وہیں کاؤنٹر پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
“ناہید باجی کو جوس دےدو،میں نے ابھی فرج میں رکھا ہے۔”
انہوں نےملازمہ کو ہدایت دی۔اور خود کچن سے جانے لگیں،انکو جاتا دیکھ کے سجل جلدی سے ان سے مخاطب ہوئی۔
“مما وہ کل بچے اسجد کے ساتھ گۓ تھے”۔
اس نے ناخن کو کھرچتے ہوۓ کہا۔
“ہاں،تو؟”
کلثوم بیگم نے آئی برو اٹھا کر استفسار کیا۔
“نہیں کچھ نہیں بس بچے کل سے خوش ہیں اسلۓ پوچھ رہی تھی۔”
اس نے سلیب پر انگلیوں سے دائرے بناتے ہوئے کہا۔
“ ظاہر ہے بچے باپ کے ساتھ خوش ہی ہونگے”۔
کلثوم بیگم اسکو جواب دیتیں کچن سے نکل گئیں۔
سجل کو اندر سے دکھ تھا کہ اسجد اس سے مل کر یا اسکو ساتھ چلنے کا کہنے نہیں آیا تھا۔وہ یہ بھول گئ تھی کہ اس نے صبح اسجد کہ ساتھ کیا کیا تھا۔
“باجی جوس”۔
ناہید کی آواز پر وہ چونکی۔
اس سے جوس لےکر وہ لاؤنج میں آکر بیٹھ گئ تھی۔یہاں سے لان نظر آرہا تھا جہاں دونوں بچے کھیل میں مصروف تھے اور کلثوم بیگم چیئر پر بیٹھی کسی میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھیں۔
اس نے لاشعوری انداز میں ٹی وی آن کردیا۔کوئی اسلامی چینل لگا ہوا تھا،مگر اس نے دھیان نہیں دیا،وہ گہری سوچ میں تھی۔اس کے دل اور دماغ کے بیچ جنگ جاری تھی۔دل کہ رہا تھا کہ اسکو واپس چلے جانا چاہیے ،مگر دماغ کہتا وہ جائز ہے اسکے ساتھ زیادتی ہوئ ہے،اور جب تک اسجد اسکو گھر لے کر نہیں دیتا وہ نہیں جاۓ گی۔اور وہ جھکے بھی کیوں،جب وہ اپنے فرائض پورے کر رہی ہے تو اسجد کو بھی اسکے حقوق دینے چاہیے۔ویسے بھی ابھی اسکو اسجد پر بہت غصہ آرہا تھا کہ وہ اسکو نظر انداز کرکے چلا گیا۔میں بھی بدلہ لوں گی اب،اس نے دل میں تہیہ کیا اور مطمئن ہو کر جوس کا گلاس اٹھا کر پینے لگی۔
جب ہی اسکا دھیان ٹی وی کی طرف گیا جہاں مولانا کسی کے سوال کاجواب دے رہے تھے۔
“خلاصہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر اللہّ تعالی نے نگراں حال بنایا ہے،جس کی دو بڑی وجہ ہے۔ایک تو یہ کہ اللّہ پاک نے مردوں کو عورتوں پر علم و عمل میں بڑائ اور فضیلت عطا کی ہے۔جس کی تشریح احادیث میں موجود ہے۔دوم یہ کہ وہ عورتوں پر اپنامال خرچ کرتے ہیں۔مہر،خوراک،پوشاک کا تکفل کرتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ عورتوں کو مردوں کی حکم برداری کرنی چاہیے۔ایک واقعہ سناتا ہوں،ایک دفعہ ایک صحابیہ نے اپنے خاوند کی نا فرمانی کی تو خاوند نے انکو ایک تھپڑ مار دیا۔عورت نے اپنے باپ سے فریاد کی ،تو باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ماجرا سنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند سے بدلہ لیوے۔اتنے میں سورۂ نساء کی آیت اتری۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہم نے کچھ چاہا اور اللہ نے کچھ چاہا تو جو کچھ اللہ نے چاہا وہ ہی خیر ہے.تو میری پیاری بہن۔۔۔۔”
سجل نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آف کردیا۔جوس کا گلاس ٹیبل پر چھوڑ کروہ بیڈروم میں چلی گئ۔