“مم٘ا (دیکھیں عنایہ نے میرا ٹواۓ توڑدیا ہے)”
“ Mamma look, Anaya broke my toy ۔”
آزر روتا ہوا سجل کے پاس آیا. پھولے پھولے گالوں پر آنسووُں کی لڑی بہہ رہی تھی۔
“آزر نانو کے پاس، میرا دماغ خراب نہ کرو۔ میرے سر میں درد ہورہا ہے۔”
سجل نے اسکو بے زاری سےجواب دیا۔ “
ہاں یہ سر کا درد ختم بھی نہیں ہو سکتا، جب تک تمہارا دماغ ٹھیک نہیں ہوگا۔”
کلثوم بیگم نےکمرے میں داخل ہوتے ہوےُ کہا۔انہوں نے آزر کو گود میں اٹھا کر اس کے آنسو پونچھےاور بولیں “
چلو جب شام کو نانا آئیں گے وہ ھمارے بیٹے کو نیا ٹواۓ دلا دیں گے۔”
“ناہید ۔۔۔ناہید”
انہوں نے ملازمہ کو آواز دی۔
“ یہ آزر بابا کو باہر لے جاوُ اور منہ ھاتھ دھلاوُ اور پھر کھانا کھلاوُ۔ “
انہوں نے ملازمہ کو ھدایت دی۔
“جی بی بی جی،”
ناہید آزر کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔
“کیوں خود کو اور بچوں کو اذیت دے رہی ہو؟ جانتی ہو نہیں رہ سکتی ہو اسکے بغیر،ختم کرو یہ ضد اور چلی جاوُ واپس۔”
کلثوم بیگم نے اسکو ناراضگی سے دیکھتے ہوۓ کہا۔
“مما آپکو یہ ضد لگ رہی ہے۔آپ کو لگ رہا ہے کہ میری غلطی ہے۔”
سجل نے سینے پر انگلی رکھتے ہوےُکہا۔
“نہیں میری جان غلطی تمہاری نہیں ہے۔مگر تم اور اسجد کیوں بھگتو کسی اور کے کیُے کی سزا۔”
کلثوم بیگم نے اسے رسانیت سے سمجھایا۔ “
مم٘ا نہیں، اس بار نہیں،میں تب تک نہیں جاوُں گی جب تک اسجد مجھے الگ گھر لے کر نہیں دے دے گا”۔
سجل نے قطیعت سے جواب دیا۔
“سجل تم نے کبھی اپنے آگے سنی ہےکسی کی، بلاوجہ میں اسجد کو تنگ کر رہی ہو۔اسکا کیا قصور؟”
کلثوم بیگم نےبیچارگی سے کہا۔
“ہاں مما آپ کو یہ تو پتا ہے کہ اسجد کی غلطی نہیں ہے،مگر میں کس طرح جھیل رہی ہوں یہ سب آپ کو نظر نہیں آتا۔آپ کو میرا آنا بوجھ لگتا ہے۔”
سجل نے اب کی بار دکھ سے بولا۔ “
دیکھو سجل تم اچھے سے جانتی ہوں خوشی خوشی سو بار آؤ مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اس طرح گھر چھوڑ کر میکے آکر بیٹھ جانا یہ بات مجھ کو پسند نہیں ہے اور یہ سب شہ تمہارے باپ کی دی ہوئی ہے “
کلثوم بیگم کو کہتے کہتے غصہ آگیا۔
“آپ پاپا کو بیچ میں نا گھسیٹیں ویسے بھی وہی تو ہیں جو مجھ کو سمجھتے ہیں۔”
آج سجل دوبدو بحث پر اتری ہوئی تھی ویسے بھی وہ غصے میں کسی کی نہیں سنتی تھی پھر چاہے اس کا جان نچھاور کرنے والا باپ ہو یا عزیز ازجان شوہر۔
“جو دل میں آئے کرو تم باپ بیٹی “
کلثوم بیگم بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسجد سجل کا ماموں زاد تھا۔بچپن میں لوڈو کیرم اور پکڑم پکڑائی کھیلتے ہوئے وہ کب بڑے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا۔
بچپن سے ہی اسجد نے سجل کو چھوٹا سمجھ کر اس کےلاڈ اٹھائے تھے۔سجل کو ہر گیم میں جیتنے کی عادت تھی۔اسجداس سے جان بوجھ کرہار جایا کرتا تھا۔اسکو سجل کی خوشی میں خوشی ملتی تھی کب یہ معصوم سی محبت پروان چڑھی اس کوخود پتہ نہ لگا۔
کلثوم بیگم کو تو یہ رشتہ دل سے پسند تھا مگر اسجد کی والدہ جہاں آرا اپنی بھانجی کو لانا چاہتی تھیں مگر اسجد کی ضد کے آگے مجبور ہوکر انہوں نے یہ شادی کر دی تھی۔سجل پہلے سے ہی انکی نا پسندیدہ بہو رہی مگر اسجد کی سنگت میں اس نے شروع شروع اس بات کو محسوس نہیں کیا مگر آگے چل کر اب یہی وجہ،اس کی ازدواجی زندگی میں مسائل کھڑی کرنے لگی۔
اب بھی وہ ناراض ہوکر میکہ میں آئی بیٹھی تھی۔ اور ضد یہی تھی کہ اسجد اسکو گھر لے کر دے گا توہی وہ اسجد کے ساتھ جائیگی۔اسجد ان سات دنوں میں کتنے ہی چکر لگا چکا تھا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
------------
“نساء تم کیوں نہہں بتا رہی اپنی امی کو”۔
فرحین جو پچھلے آدھے گھنٹے سے "ایقان نامہ" سن سن کر بور ہو رہی تھی تنگ آکر بولی۔
“یار فرحین آجکل آپی گھر آکر بیٹھی ہوئی ہیں۔ان کی ممانی جان سے ٹینشن چل رہی ہے مم٘ا ویسے ہی بہت پریشان ہیں،ایسے میں میں بھی ان کو ٹینشن دے دوں۔”
نساء نے بیچارگی سے کہا۔
“مگر نساء ایک دن تو تم کو آنٹی کو بتانا ہی ہے ناں”؟
فرحین نے عاجزآ کے کہا۔ویسے بھی اسکو پبلک ریلیشن کی کلاس چھوڑنے کا غصہ تھا، نہ کہ نساءکو اس کا کوئی مشورہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔
وہ دونوں اس وقت کیفیٹیریا میں بیٹھی ہوئی تھی۔ نساء کے یو سے ماس کمیونیکیشن میں آنرزکر رہی تھی، آج کل اسکی ٹینشن کا مرکز اس کا منگیتر ایقان تھا۔انکی منگنی کو چار سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔
ایقان نے نساء کو ایک شادی کی تقریب میں دیکھا تھا۔ گوری دمکتی رنگت پر نیوی بلو شفون کی شرٹ اور جامہ وار کا ٹراؤزر پہنے اپنے کالے سیاہ بال پشت پر پھیلائے وہ سادگی میں بھی قیامت ڈھا رہی تھی۔ایقان کو پہلی ہی نظر میں اس کا سادہ حسن بھا گیا اور اگلے ہی ہفتے ان دونوں کی منگنی ہوگئی تھی۔
نساء جبکہ اس وقت فرسٹ ائیر پری میڈیکل میں تھی۔وقار صاحب نساء کے والد اتنی جلدی منگنی کے حق میں نہیں تھے مگر کلثوم بیگم نے سمجھایا کہ اتنا اچھا رشتہ ہے اور روز روز ایسے رشتے نہیں آتے اور پھر وہ کونسا فوراَ شادی کو کہہ رہے ہیں نساء کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہی شادی کریں گے۔وقار صاحب ان کی دلیل سن کررضامند ہو گئے اور یوں ان کی منگنی ہو گئی۔
ایقان اپنا ایم سی ایس مکمل کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔ والد کا اپنا کاروبار تھا مگر ایقان کو اپنے بل بوتے پر کچھ بننا تھا۔اب ایقان اپنی قسمت باہر آزمانا چاہتا تھا اور اس کا موقُف تھا کہ نساء کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔اس نے نساء سے کہا تھا کہ وہ اپنے والدین سے بات کرے کہ ابھی شادی میں کم از کم دو سال کا ٹائم اور ہونا چاہیے۔
ادھر نساء کے گھر والےاس کے فائنل ائیر کے پیپر ختم ہونے کا انتظار کر رہےتھے کہ پڑھائی کے فوراَ بعد نساء کی شادی کر دی جائے۔ ویسے بھی ان کے حساب سے یہ منگنی بہت لمبی ہو گئی تھی۔ نساء جانتی تھی کہ وقار صاحب اور کلثوم بیگم کبھی بھی شادی آگے بڑھانے کو نہیں مانیں گے۔۔اس لیے وہ اتنی پریشان تھی کیونکہ اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ ایقان کوجو دھن ایک بار سوار ہوجائے وہ پورا کرکے ہی دم لیتا ہے۔ان دونوں کے درمیان، نساء ایک دم پھنس گئی تھی۔
ایقان کی والدہ بھی اس کے حق میں نہیں تھیں،ان کا کہنا تھا کہ اتنا انتظار کروا کر اب عین شادی کے دن قریب آنے پر پیچھے ہٹنا ٹھیک نہیں ہے۔مگر ایقان کا کہنا تھا کہ وہ کونسا پیچھے ہٹ رہا ہے بس تھوڑا ٹائم چاہیے اسکو۔شادی کے بعد بہت ذمہ داریاں آ جاتی ہیں وہ پہلے سیٹل ہونا چاہتا ہے۔
شاہدہ خاتون نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ وہ خود نساء، کے والدین سے بات کر لے وہ یہ بات نہیں کر سکتیں اور ایقان نے یہ ذمہ داری نساء کے سر پر ڈال دی تھی وہ جانتا تھا کےنساء اس کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے یہ تو پھر صرف اپنے والدین سے شادی تھوڑا آگے بڑھانے کی بات تھی۔مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا یہ فیصلہ ان دونوں کی زندگی میں کونسا موڑ لانے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے کمرے میں سگریٹ کی بو پھیلی ہوئی تھی، کمرہ کثیف دھویں سے بھرا ہوا تھا،سگریٹ کا ادھ جلا ٹکڑا اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا،بھوری آنکھیں سرخ ہو کر رت جگے کی غمازی کر رہی تھیں،گھنگریالے بال بےترتیب ہو رہے تھے اور چہرے کی شیو بڑھی ہوئی تھی وہ کسی گہری سوچ میں گم لگتا تھا۔پاس پڑے موبائل کی سکرین کتنی بار جل چکی تھی مگررنگر سائلنٹ پر تھا۔وہ اس وقت کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ آنے والے نے کھڑکی سے پردے ہٹائے اور کھڑکی کھولی۔ایک دم روشنی پڑنے سے اسکی آنکھیں چندھیا گیئں۔اس نے ہاتھ آگے کر کے روشنی کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
“یار احد بند کرویہ لائٹ، اور کیوں آئے ہو تم؟”
شاہ ویر نے ناگواری سے کہا۔” تمہاری یہ ڈرامے بازی بند کروانے۔ “
احد تڑخ کر بولا۔
“کتنی کالز کیں ہیں تم کو؟ آنٹی بھی اتنا پریشان ہیں اور موصوف یہاں سگریٹ سے شغل فرمارہے ہیں۔”
اس نے طنز سے ایش ٹرے کی طرف اشارہ کیا۔
“ویسے یہ سگریٹ کب سے پینی شروع کردی ہے تم نے”؟
احد نے حیرت سے ایش ٹرے کو دیکھا جو پوری رات سگریٹ نوشی کے باعث بھر چکا تھا۔
“ تم میری ماں بننے کی کوشش نہ کرو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ “
شاہ ویرنے بےزاری سے کہا۔
“ ہاں میں بیٹھ بھی نہیں سکتا یہاں۔”
احد نے ناگواری سے کمرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں نیچے لاوُنج میں ہوں۔ریڈی ہوکر آجاؤ۔”
اسکو باتھ روم میں تقریبا دکھیلتے ہوئے احد کمرے سے باہر آ گیا۔
آدھے گھنٹے شاور لینے کے بعد اسکو طبیعت میں کچھ بہتری محسوس ہوئی۔وہ جس کشمکش میں تھا،اس کا فیصلہ وہ کر چکا تھا۔شیو اس نے ابھی بھی نہیں بنائی تھی۔مگر سیاہ شلوار سوٹ میں اس کا دراز قد گورا رنگ نمایاں ہو رہا تھا۔
سلیوس کو کہنیوں تک موڑتا جب وہ نیچے اترا تو احد ناشتے سے انصاف فرما رہا تھا۔شاہ ویرکو دیکھ کے اس کو بھی دعوت دی مگر شاہ ویر نے بسں ایک جوس کا گلاس پیا۔اس کی آنکھیں ابھی بھی لال تھیں اور وہ ہنوز خاموش تھا۔
“یار پھرچل رہے ہونا ابھی آفس میرے ساتھ۔”
احد نے خاموشی توڑی۔
“آں ں ں۔۔۔”
شاہ ویر نے چونکتے ہوئے کہا
“نہیں یار آج میرا موڈ نہیں ہے تم تو جا رہے ہو ناں اگر کوئی کام ہو تو مجھے کال کر دینا۔”
شاہ ویر نے موبائیل پر میسیجز چیک کرتے ہوۓ کہا۔
“ہاں جیسے تم تو کال ریسیوکرلو گے۔”
احد جل کر بولا۔
“بس رات دل نہیں تھا بات کرنے کا۔”
شاہ ویر نے نظریں چراتے ہوئے صفائی پیش کی۔
“ویسے یہ تیاری کہاں کی ہے؟”
احد نے اس کے کی چین والٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“بس کچھ کام تھا۔تم کو راستے میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔”
شاہ ویر نے پیشکش کی۔
“نہیں تم اپنا احسان رہنے دو میں اپنی گاڑی میں ہی یہاں تک پہنچا ہوں،بلکہ تم کو کہاں تک جانا ہے میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔تمہاری کنڈیشن ڈرائیونگ والی نہیں لگ رہی۔”
احد نے کپ میں چاۓ انڈیلتے ہوۓ کہا۔
“نہیں یار چلا جاؤں گا،بلکہ میں نکل رہا ہوں،اوکے پھر اللہ حافظ۔ “
شاہ ویر نے والٹ کی چین اور موبائل اٹھایا۔
“ارے بے مروت آدمی دوست کو گھر چھوڑ کر نکل رہے ہو۔رکو میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔ا”
احد نے ٹشو سےہاتھ صاف کرتے ہوۓ کہا۔باتیں کرتے دونوں پورچ تک آگئے۔
“کریم”۔
شاہ ویر نے ڈرائیور کو آواز دی
“۔جی صاحب”۔
کریم دوڑا ہوا آیا۔
“یہ احد صاحب کی گاڑی آفس پہنچا دینا۔وہ میرے ساتھ جا رہے ہیں۔”
اس نے احد کی گاڑی کی چابی ڈرائیور کو دی۔
“جی اچھا صاحب۔”
کریم فوراّ چابی لے کر احد کی گاڑی کھولنے لگا۔
وہ دونوں بھی شاہ ویر کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔
“ہاں تو اب بولو کس خوشی میں یہ غم منایا جا رہا ہے۔”
احد نے چوٹ کی۔
“غمی میں غم منایا جاتا ہے خوشی میں نہیں۔”
شاہ ویر نے تصحیح کی۔
“اچھا بابا، تو کس غمی میں غم منایا جا رہا ہے۔”
احد نےشاہ ویر کے مسلسل ٹال مٹول سے کام لینے پر جھلَا کے پوچھا۔
“جیسے تم تو جانتے نہیں ہو۔”
شاہ ویر نے ناگواری سے اس کو دیکھا۔
“جہاں تک مجھے پتہ ہے تمہیں اس معاملے میں خوش ہونا چاہیے.وہ تمہارے قابل نہیں تھی۔تم نے اس کو سچے دل سے چاہا مگر وہ سنسئیر نہیں تھی تم سے۔”
احد نے افسوس سے شاہ ویر کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
“آئی ڈونٹ وانٹ ٹو ڈسکس اٹ اینی مور(اس معاملے پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا ہوں۔)
شاہ ویر نے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا۔
“اوکے ریلیکس”۔
احد نے محتاط انداز میں کہا۔
“میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ خود کو ہلکان مت کرو۔”
احد نے اس کو ہمدردی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“ہوں۔۔۔۔” شاہ ویر نےہنکارا بھرتے ہوۓ سی ڈی پلئیر آن کیا۔
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ مزید اس بات کو ڈسکس نہیں کرنا چاہتا ہے۔گاڑی میں استاد نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز گونجنے لگی….
ایس تو ڈاڈا دکھ نہ کوئی پیار نہ وچھڑے
کسے دا یار نہ وچھڑے
روگ ہجھر دامار مُکاوے
سُکھ دا کویُ ساہ نہ آوے
دُکھ لاندے نے دل وچ ڑھیڑے
چارے پاسے دِسن ہنیرے
دنیا وچھڑے نی پرواہ پر دلدار نہ وچھڑے
کسے دا یار نہ وچھڑے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔