ہے گلوبل وارمنگ عہد رواں میں اک عذاب
جانے کب ہو گا جہا ں سے اس بلا کا سد باب
گرین ہاؤس گیس سے محشر بپا ہے آج کل
جس کی زد میں آج ہے ’’اوزون‘‘ کا فطری حجاب
لرزہ بر اندام ہے نوع بشر اس خوف سے
اس کے مستقبل میں نقصانات ہونگے بے حساب
ہو نہ جائے منتشر شیرازۂ ہستی کہیں
IPCC نے کر دی یہ حقیقت بے نقاب
باز آئیں گے نہ ہم ریشہ دوانی سے اگر
بر ف کے تودے پگھلنے سے بڑھے گی سطح آب
اس سے فطرت کے توازن میں خلل ہے ناگزیر
عرش سے فرش زمیں پر ہو گا نازل اک عتاب
ذہن میں محفوظ ہے اب تک سنامی کا اثر
ساحلی ملکوں میں ہے جس کی وجہ سے اضطراب
ایسا طوفان حوادث الامان و الحفیظ
نوع انساں کھا رہی ہے جس سے اب تک پیچ و تاب
ہو سکا اب تک نہ ’’پیمان کیوٹو‘‘ کا نفاذ
ہے ضرورت وقت کی اپنا کریں سب احتساب
آیئے احمد علی برقی کریں تجدید عہد
ہم کریں گے مل کے برپا ایک ذہنی انقلاب