وہ اب اس کے ایک دم سامنے کھڑا تھا۔ سمارا نظریں جھکا کر اپنا سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
میری طرف دیکھو۔
عون کے کہنے پر پہلے تو اس نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لی پھر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
وہ اب سپاٹ چہرہ لیے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ بےحد تحمل سے کہنے لگا۔
وقت جانتی ہو کیا ہوا ہے جبکہ 3 بجے کے بعد تمہارا باہر جانا منع ہے۔
جج جی وہ
ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ عون نے اسے زوردار تھپڑ رسید کیا۔ اس نے چیخ مار کر اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا اور انتہائی ضبط کے باوجود رونے لگی۔
اب تک کہاں تھی تم ؟
دوبارہ پھر تحمل مزاجی کا مظاہرہ کر کے پوچھا گیا۔
سمارا کو سمجھ نہ آیا کیا کہے اس لیے جھوٹ میں عافیت جانی۔
سائٹ سائٹ سیئنگ۔
ایک اور بار زوردار طمانچہ اس کے دوسرے گال پر مارا گیا۔
اس بار وہ اپنے پیروں پر لڑکھڑا گئی لیکن جلد ہی سنبھل گئی۔
اب دونوں طرف ہاتھ رکھے اس نے اونچی اونچی رونا شروع کر دیا۔
مجھے معاف کر دیں پلیز۔ ایم سوری۔
ہاتھ نیچے کرو۔
نہیں پلیز پلیز سوری۔
ہاتھ نیچے کرو۔ اب کی بار غصہ سے کہا گیا تو اس نے فورأ ہاتھ نیچے کر لیے۔
روتے ہوئے دھندھلی نظروں سے اس سے معافی مانگتی رہی۔
ڈیےگو کے بغیر مجھ سے اجازت مانگے بنا تم تفریح کرنے نکل گئی۔ جانتے ہوئے بھی کہ میں برداشت نہیں کروں گا۔
عون عون ایم سوری۔
جو پوچھا اس کا جواب دو۔
جی پر آئندہ۔۔۔
اب کی بار اس کا ہاتھ ہوا کاٹتا ہوا آیا اور پہلےسے کہیں گنا زیادہ زور سے اس کے منہ پر مارا۔
سمارا خود کو سنبھال نہ پائی اور دیوار کے ساتھ ٹکرا کر گرنے لگی۔
وہ گرتی اس سے پہلے عون نے اسے تھام لیا۔
اس کی سسکیاں اب ہچکیوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ وہ کسی بچے کی طرح اونچی اونچی رو رہی تھی۔ اور عون کو خود سے دور دھکیلنے لگی۔
عون نے اسے اٹھایا اور کمرے میں لے گیا۔
۔۔۔
وہ اب بھی ویسے ہی رو رہی تھی لگاتار رونے سے اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔
عون اسے کسی بچے کی طرح بال سہلاتے ہوئے چپ کروا رہا تھا۔
شش Mon Amour
سب ٹھیک ہے تمہاری سزا پوری ہوئی اب کچھ نہیں ہو گا۔
کچھ دیر بعد وہ تھک کر خود ہی سو گئی۔
۔۔۔
اگلی صبح جب جاگی تو عون بھی ساتھ ہی تھا۔ اس کی آنکھ اور رخسار میں درد تھا۔ نظریں چراتے ہوئے وہ اٹھنے لگی تو عون نے اسے پکڑ کر دبارہ بیڈ پر پھینک دیا اور خود اس پر جھک گیا۔
______
کل رات جو ہوا وہ تم آخری وارننگ سمجھو آئندہ تمہاری سزا اتنی کم نہیں ہو گی۔ تم جو بھی کرتی ہو وہ مجھ پر رفلیکٹ کرتا ہے۔
تمہاری اصلاح کے لیے میں کچھ رولز بنا رہا ہوں جو تمہیں ہر حال میں فولو کرنے ہوں گے۔
یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے سے اس کے رخسار کی چوٹ کو مسلنا شروع کر دیا تکلیف اس کے رخسار سے پورے چہرے میں پھیلنے لگی۔ درد سے آنکھوں میں پانی بھر آیا اور سسکیاں روکنے کے لیے اپنا ہونٹ دانتوں تلے چبا لیا۔
دس منٹ میں تیار ہو جاؤ ہم ہوسپٹل جا رہے ہیں۔ دس منٹ۔
یہ کہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سمارا باتھروم بھاگ گئی۔
۔۔۔
خود کو شیشہ میں دیکھ کر اس کی چیخ بمشکل رکی لیکن آنسو نہ روک پائی۔ اس کی آنکھیں سوج چکی تھی۔
اور عون کے آخری تھپڑ نے اس کے رخسار پہ گہرے نیلے رنگ گا نشان چھوڑا تھا جو درد کر رہا تھا۔
وہ اس حالت میں کہیں نہیں جا سکتی تھی پر عون کو منع بھی نہیں کر سکتی تھی۔
اس لیے ٹھنڈے پانی سے منہ دھو کر چہرے پہ میک اپ کی تہہ لگائی تاکہ ٹھیک دکھ سکے اور تیار ہو کر کچن میں آ گئی۔
مارتھا عون کو ناشتہ دے کر سمارا کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے نظروں سے ہی سوال کرنے لگی جس پر وہ مسکرا کے رہ گئی۔
۔۔۔
وہ ہوسپٹل میں فلاحی کام سے آئے تھے اور وہ سمجھی تھی اس کے لیے آئے ہیں۔
سمارا کو ایک نیا خوف تھا کہ کہیں میکس سے ٹکر نہ ہو جائے اور وہ پارٹی کا زکر نہ کر دے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ دل میں شکر ادا کرنے لگی۔
میکس ابھی اپنی شفٹ پر آیا ہی تھا جب اس کی نظر سمارا اور عون پر پڑی وہ ان کی طرف جا رہا تھا جب ایک ایمرجنسی کال پر اسے اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔
۔۔۔
اس دن کے بعد سے عون نے اس پہ سختی بڑھا دی۔
ڈیےگو اب اسی بلڈنگ میں رہنے لگا۔ سمارا کو جہاں بھی جانا ہوتا وہ تب تک وہیں انتظار کرتا۔
عون نے 7 بجے واپس آنا شروع کر دیا اور آفس روم میں کام کرتا جبکہ سمارا اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر فلاحی کاموں کی فائلز دیکھتی۔
عون کی موجودگی میں وہ اس پر کوئی دروازہ بند نہیں کر سکتی تھی چاہے وہ کمرے کا ہو سٹڈی۔ باتھروم یا وارڈروب۔
اس کی رہی سہی پرائیویسی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ وہ صرف موبائل آزادانہ استعمال کر سکتی تھی۔
۔۔۔
اس کا چہرہ دیکھ کر صفیہ بیگم کو اسے سب بتانا پڑا بدلے میں اسے ہی ڈانٹ سنی کہ اس نے شوہر سے چھپا کر یہ کام کیا۔
_______
عون ادھر آؤ مجھے تم سے ایک کام ہے۔ فریحہ نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔
یس ماما۔
تم اپنی ماما سے بہت پیار کرتے ہو نا۔
یس ماما آئی ڈو لو یو۔
تو تمہیں اب اسے ثابت کرنا ہوگا۔ میں تمہیں تمہارے پاپا کے پاس بھیج رہی ہوں تمہیں انہیں ہمارے پاس لانا ہو گا۔ تم کر لو گے نا۔
آئی آئی ول ٹرائے۔
کوشش نہیں چاہئیے لانا ہو گا تمہیں۔مت بھولو یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اب اس کا منہ دبوچ کر کہا تو وہ خوف سے سر ہلانے لگا۔
بہت خوب مائی بوائے۔
اگلے دن اسے اس کے باپ کے پاس روانہ کر دیا گیا۔
وہ ایک عالیشان جگہ تھی بہت پیاری گھر کے اندر سے ایک ہینڈسم آدمی باہر نکلا۔ اسے دیکھ کر خوشی سے جلدی جلدی اس کے پاس آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کر کے اسے گلے لگا لیا۔ پہلے تو عون ڈر گیا اسے عادت نہیں تھی انجان لوگوں کی۔ وہ تو اپنی ماں کے علاوہ بہت کم لوگوں سے ملا تھا۔
عون میں تمہارا والد ہوں۔ دیکھو تو کتنے ہینڈسم ینگ بوائے بن گئے ہو تم۔
عون اس سے سہم کر دور ہونے کی کوشش کر رہا تھا جسے ڈاریون نے اپنی خوشی میں محسوس ہی نہ کیا۔
آؤ میں تمہیں تمہاری بہن سے ملواتا ہوں۔
بہن ؟
عون نے تب سے پہلا لفظ ادا کیا۔
ہاں تمہاری ایک چھوٹی بہن ہے اور وہ تمہارا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔
وہ عون کا ہاتھ پکڑے اسے اندر لے گئے۔
۔۔۔
فریحہ اور ڈاریون کی محبت کی شادی تھی لیکن کچھ عرصے بعد ہی ڈاریون کو سمجھ آ گیا کہ وہ ذہنی اعتبار سے نارمل نہیں تھی۔
ان کو الله نے بیٹے سے نوازا تھا لیکن اس کی حالت مزید بگڑ گئی۔ ڈاریون نے اسے پاگلوں کے ہوسپٹل ایڈمٹ کروا دیا۔
کچھ عرصے بعدانہیں لگا وہ ٹھیک ہو گئی ہے وہ ہوسپٹل سے چھٹی لے کر ڈاریون کے ساتھ گھر آ گئی۔ لیکن دورے پھر سے پڑنے لگے۔
وہ اسے دوبارہ ہوسپٹل بھیجنا چاہتے تھے جب ایک رات فریحہ عون اور پیسے لے کر بھاگ گئی۔
بہت کوشش کی اسے ڈھونڈنے کی پر نہیں ملی۔ 7 سال بعد جب ہار مان لی تو ان کی ملاقات ایک کینیڈین لڑکی سے ہوئی اور انہوں نے اس سے شادی کر لی۔
دو سال پہلے انہیں عون اور فریحہ کے بارے میں پتا لگا۔ انہوں نے اپنا بیٹا لینا چاہا پر فریحہ کی حالت کی وجہ سے نہیں کر پائے نہ ہی وہ ایک بچے کو اس کی ماں سے الگ کر سکتے تھے۔
فریحہ سے عون کو ملنے کی گزارش کی پر وہ چاہتی تھی کہ ڈایون سب چھوڑ کر اس کے پاس رہے۔
_______
آخر کار جب صبر جواب دے گیا تو عون کو کورٹ کے ذریعے حاصل کرنے کی دھمکی دی۔ جس کے زیراثر آج وہ عون سے مل پائے تھے۔
ادھر فریحہ کی جب کسی بھی بات سے ڈاریون نہیں مانا تو اس نے یہ سوچ کر عون کو جانے دیا کہ وہ جب ایک بار عون سے مل لے گا تو اور الگ نہیں رہ پائے گا اور واپس آ جائے گا۔ اسے یہ قبول نہیں تھا کہ وہ کسی ہوسپٹل رہے۔
مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ ڈاریون کی زندگی میں کوئی اور عورت آ چکی تھی۔
۔۔۔
گلابی رنگ کے فراک میں وہ اسے گڑیا ہی لگی تھی اور وہ واحد انسان جسے دیکھ کر اسے خوف نہیں آیا تھا بلکہ انسیت محسوس ہوئی تھی۔ وہ اپنی آنکھیں بڑی بڑی کھولے عون کو دیکھ رہی تھی۔ عون نے بے اختیار اس کی طرف قدم بڑھائے اور اس کے گال کو چھو کر دیکھا۔ روئی کی طرح نرم وہ اسے بہت پسند آئی۔
کیا تمہیں پسند آئی اپنی بہن۔
ایک عورت نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔ عون کو لگا وہ اس کی گڑیا کو نقصان پہنچائے گی اس لیے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
اس کی حرکت دیکھ کر وہ عورت اور ڈاریون ہسنے لگے۔
آہ لگتا ہے بہت پسند آئی۔
آخر بیٹا کس کا ہے۔
کتنے عجیب تھے وہ ہنستے بھی تھے۔
۔۔۔
سمارا نے لوفین سے اس عرصے میں کئی بار بات کی۔ وہ ہوسپٹل تو جاتی تھی پر ڈیےگو ہوسپٹل کے باہر اس کا انتظار کرتا تھا اس لیے لوفین سے مل نہیں پائی۔
البتہ میکس سے کئی بار بات ہو جاتی تھی۔
۔۔۔
سمارا کا کچھ لوگ یتیم بچوں کے لیے فنڈ ریز کر رہے ہیں اسی سلسلے میں گالا (Gala) کی تقریب ہے۔ ہماری کمپنی نے کئی پاس خریدے ہیں۔ پر وہ چاہتے ہیں کہ ہم ضرور آئیں۔
مجھے بھی لگتا ہے کہ یہ تمہارے لیے سوسائٹی میں انٹر ہونے کا اچھا موقع ہے تو ہم چلیں گے۔
ٹھیک ہے عون جیسا آپ کہیں۔
گھبراؤ نہیں تم سب سمبھال لو گی۔
اس کا رخسار سہلاتے ہوئے عون نے کہا۔
اگر آپ ساتھ ہوں گے تو مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں۔
میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ۔
۔۔۔
عون کو وہاں رہتے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔
وہاں اسے کوئ مارتا نہیں تھا۔ وہ کھیل سکتا تھا۔ جب چاہے کھا سکتا تھا۔ اس کے بابا اسے فٹبال سکھا رہے تھے۔ عون کے لیے یہ جنت تھی۔ وہ ابھی بھی کم بات کرتا تھا۔ لیکن اپنی بہن سے محبت کرتا تھا۔
۔۔۔
تمہیں نہیں لگتا عون کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔
کیسا مسئلہ۔
وہ بات نہیں کرتا ہر کسی سے ڈرتا ہے بس صلایہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتا۔
________
وہ ٹھیک ہے پہلی بار ملا ہے تو بس ذرا شرمیلا ہے۔
اوہ پلیز ڈاریون۔ وہ 11 سال کا ہے اس عمر کے بچے شرمیلے نہیں شریر ہوتے ہیں۔
سونیا یہ تمہارا وہم ہے۔
وہم کیا تم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس کی کلائی پر عجیب سا نشان ہے۔ اس دن میں اس کی زبردستی شرٹ چینج کی ۔ اس کی کمر زخموں کے نشان سے بھری پڑی ہے۔
زخم کیسے زخم۔
زخم کے نشان ہیں جیسے کہ کوڑے یا بیلٹ سے مارنے کے ہوں۔
ڈاریون غصہ میں عون کے پاس گئے اسے پکڑ کر اس کی شرٹ اتار کر دیکھا تو اس کی کمر پہ جگہ جگہ ابھرے ہوئے نشان تھے۔
وہ عون سے غصہ میں پوچھنے لگے کہ کس نے کیا ایسا تو اس نے ڈر کے مارے صلایہ کو اٹھایا اور کرسی کے پیچھے بیٹھ گیا۔
۔۔۔
سمارا تیار تھی عون نے اس کے لیے پرپل کلر کا خوبصورت گاؤن لیا تھا۔ اسے یقین تھا عون کو پیاری لگے گی۔
عون نے جب اسے دیکھا تو وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر سمارا کے گلے میں خوبصورت ڈائمنڈ نیکلس پہنایا۔ جس سے اس کی خوبصورتی اور بڑھ گئی سمارا نے مسکراتے ہوئے عون کی طرف دیکھا۔
بہت پیارا ہے پر میرا برتھڈے تو کل ہے نا۔
ہمم۔۔۔ پر ہم آج سے ہی اسے منانا شروع کرے گے۔ یہ کہہ کر اس نے سمارا کا ہاتھ تھاما اس کی انگلیوں کو چوما اور پھر سمارا کے لبوں پہ رکھ دیں۔
اب چلیں مسز عون۔
۔۔۔
سونیا کا شک درست تھا۔ عون کو نارمل زندگی نہیں مل رہی تھی۔
آنے والے دنوں پر ڈاریون پر مزید انکشاف ہوئے۔
وہ اب اسے فریحہ سے چھین لینا چاہتا تھا۔
وکیل نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کیس کرے لیکن فلحال بچے کو واپس بھیج دے۔ انہیں یہ بات پسند نہیں آئی۔
پھر سونیا سے مشورے کے بعدانہوں نے اپنے وفادار ڈیےگو کو عون کے ساتھ روانہ کیا۔
فریحہ نے پہلے ڈیےگو کی موجودگی برداشت نہ کی پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گئی کہ ڈاریون بھی آ جائے گا۔
اس نے عون سے پوچھنا چاہا کہ وہ کب آئے گا لیکن عون اب ایک نئی دنیا دیکھ کر آیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے محفوظ محسوس کیا تھا خود کو۔ وہ فریحہ کو کہنے لگا کہ اسے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔
یہ کیا بکواس ہے اس نے عون کو طمانچہ لگایا تھا۔
عون نے آنسو پیتے ہوئے جواب دیا۔
آپ بری ہیں بہت بری مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔ مجھے اپنی بہن کے پاس جانا ہے۔
بہن کیسی بہن؟ فریحہ کو صدمہ لگا تھا۔
ہاں اپنی بہن اور اصلی ماما کے پاس جانا ہے مجھے۔
کیا کیا ماما؟
ڈیےگو اس وقت کسی کام سے مصروف تھا جب اسے پتا لگا کہ ڈاریون اس کی بیوی اور بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وجہ گاڑی کے بریک فیل ہونا تھی۔ تینوں ہی موقع پر جان سے ہار گئے تھے اسے سمجھ نہ آئی وہ کہاں جائے ۔ ڈاریون نے ڈیےگو کو تب زندگی کا موقع دیا تھا جب اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور وہ کوڑے کے ڈھیر سے کھانا چن کر کھاتا تھا۔
ڈاریون کے جانے کے بعد وہ پھر سے لاوارث ہو گیا تھا۔
۔۔۔
ماما ایم سوری ایم سوری۔
تمہیں تو میں بری لگتی تھی نا عون۔
نہیں ماما سوری۔
اس چھوٹے سے پنجرے میں بند اسے آج پانچواں دن تھا۔ اسے دن میں ایک بار کھانا ملتا۔
وہ پنجرے میں صرف بیٹھ سکتا تھا۔
جس پنجرے میں کتوں کو قید کیا جاتا تھا اس نے اپنے بیٹے کو کر رکھا تھا۔
جانوروں کی طرح اس کے سامنے کھانا پھینک دیاجاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔
ماما پلیز مجھے مت چھوڑیں یہاں پلیز میں کہیں نہیں جاؤں گا پلیز۔
تم جا بھی نہیں سکو گے کیوں کہ تمہاری بہن باپ اور اس کی وہ بیوی مر گئے ہیں۔
وہ ہنستے ہوئے اسے بتاتی بیسمنٹ کا دروازہ بند کر کے چلی گئی۔
جب کہ وہ اندھیرے سے خوفزدہ خود میں سمٹ گیا۔
اتنے دنوں میں یہاں پنجرے میں قید رہ کر وہ یہاں کہ چوہوں سے دوستی کر بیٹھا تھا۔ اسے ڈر تھا اگر اس کی ماں کو پتا لگا تو وہ ان سے بھی دور کر دے گی۔
۔۔۔
سردیوں کا موسم تھا سمارا کو کار سے نکلتے ہی سردی لگنے لگی آنے والے دنوں میں برفباری کا امکان تھا۔
وہ جلدی سے بلڈنگ میں چلے گئے۔
اپنے کوٹ اور پھر سمارا کی شال باہر کھڑے آدمی کو پکڑا کر وہ ہال میں داخل ہوئے۔
سب ہی انکی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
عون کی پرسنیلٹی تھی ہی ایسی کوئی بھی بغیر متوجہ ہوئے نہیں رہ پاتا تھا۔
ایسا لگتا تھا جیسے وہ اردگرد موجود ہوا کو اپنے قابو میں کر کے لوگوں کو اپنا محتاج بنا لیتا ہو۔
لوگ آگے بڑھ کر ان سے ملنے لگے۔
ہر طرح کے لوگ موجود تھے خوبصورت کپڑوں میں ملبوس عورتیں ایک بار ہی عون سے بات کرنے کے لیے تڑپ رہی تھیں۔
۔۔۔
سمارا بہت سے لوگوں سے ملی عون نے ان کا نام اور پیشہ اسے بتایا۔
مختلف اقسام کے کھانا اور شراب ہال میں گردش کر رہی تھیں۔
عون نے ایک بیرے سے کہ کر پانی منگوایا آدھا گلاس خود پی کر باقی سمارا کو پینے کے لئے دیا۔ اسے عون کی ایسی عادات بہت پسند تھیں۔
ڈونیشن پروسس شروع ہوا تو ان کی ملاقات ڈآکٹر کارلا سے ہوئی۔
_______
جانے پہچانے چہرے کو دیکھ کر سمارا بہت خوش ہو گئی۔
ڈاکٹر کارلا آپ یہاں۔
مسز عون کیسی ہیں آپ۔ اور میں یہاں مسٹر عون کی کمپنی کی طرف سے انوائیٹڈ ہوں۔
مسٹر عون آپ کا بہت شکریہ۔
اٹس مائی پلیزر۔
جب کارلا واپس چلی گئی تو عون نے سمارا کو بتایا کہ اس کی کمپنی نے پاسز بانٹ دیے تھے۔
ڈونیشنز کا پروسس شروع ہوا تو عون نے مختلف حلقوں میں اپنے نام سے تیس ہزار ڈالر اور سمارا کی طرف سے پچاس ہزار ڈالر دیے۔
جب ریفریشمنٹ سٹارٹ ہوئی تو عون سمارا کو لے کر واپس چلنے لگا کیوں کہ اس نے سمارا کے لیے سرپرائز ڈنر پلین کر رکھا تھا۔
۔۔۔
وہ دونوں ہال کے بیرونی دروازے کے قریب تھے جب کسی نے سمارا کو پکارا اور وہ دونوں رک گئے۔
لوفین اور میکس ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔
لوفین نے سمارا کو گلے لگا لیا۔
سمارا کہاں تھی تم ملی ہی نہیں کب سے۔
اس کے بعد وہ عون سے بات کرنے لگی۔
ہیلو مسٹر عون کیسے ہیں آپ۔ ہم سمارا کے فرینڈ ہیں۔ آپ کے بارے میں بہت باتیں کرتی ہے وہ۔
فرینڈز؟ کاش کہ میں بھی یہ کہ سکتا پر سمارا مجھ سے بہت کم باتیں کرتی ہے اپنے فرینڈز کے بارے میں۔
اس نے سمارا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
جو اپنی نظریں بچا رہی تھی۔
عون نے سمارا کے گرد حمائل بازو سے اسے جکڑ لیا۔
سمارا نے اس کی پکڑ سے ہوتی تکلیف کو کم کرنے کے لیے اپنی کمر اکڑا لی۔
مسٹر عون میں میکس مکینکجی ہوں آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
سیم ہیئر۔
آپ کا شکریہ آپ نے سمارا کو پارٹی میں آنے کی اجازت دی۔
پارٹی ؟
عون اب حیرانگی سے پوچھ رہا تھا۔
جبکہ سمارا نے آنکھیں بند کر لیں کہ سب ایک خواب ہے۔
کون کہتا تھا عون مرزا کو حیران کرنا ناممکن ہے کوئی اب اس کی حالت دیکھتا۔
جی میری برتھڈے پارٹی۔ لوفین نے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا۔
اوہ یس یس۔ ہیپی بی لیٹڈ برتھڈے۔ ویسے کس دن تھی میں بھول گیا ہوں۔
میکس سمارا کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا لیکن معاملہ سمجھ نہیں پایا۔
________
سمارا کی جیسے کوئی جان نکال رہا ہو اسے ہوا بھاری ہوتی محسوس ہونے لگی۔ اور لگا کہ وہ بےہوش ہو جائے گی۔
جب عون کی گمبھیر آواز نے اسے واپس کھینچا۔
اپنے دوستوں سے بائے کہو ہمیں واپس جانا ہے ۔
سمارا نے دبی آواز میں ان بائے کہا اور پلٹ گئی۔
میکس کو کچھ عجیب لگ رہا تھا جب سمارا بائے کہ کر مڑی تو اس نے بنا کچھ سوچے اسے روکنے کے لیے اس کا بازو پکڑ لیا۔
عون اور سمارا ایک دم اس کی سمت مڑے۔
اس کی حرکت سے سمارا کی آنکھوں میں اترا خوف وہ فورأ پہچان گیا۔ وہ روز یہ خوف ہوسپٹل کے بچوں میں دیکھتا تھا۔
لیکن عون کے تاثرات دیکھ کر اس نے یکدم سمارا کا بازو چھوڑ کر دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر دیے جیسے سلنڈر کر رہا ہو۔
عون کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے زمین میں گاڑ دے۔
اور ادھر سمارا سوچ سے ہی کانپنے لگی۔
۔۔۔
لفٹ ان کے پینٹ ہاؤس پہنچ کے رک گئی۔ سمارا کا سانس اکھڑ رہا تھا۔
عون اسے وہیں چھوڑ کر اندر چلا گیا۔
سمارا کچھ دیر بعد ہال میں داخل ہوئی تو ہال کا منظر ہی الگ تھا۔
ہال کو بہت اچھے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ ٹیبل پر ایک خوبصورت کیک پڑا کاٹے جانے کے انتظار میں تھا۔
یہ سب عون نے کیا ہوگا یہ سب سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ کمرے میں گئی تو کمرہ بھی پھولوں اور موم بتیوں سے سجایا گیا تھا۔
عون کمرے سے باہر ٹیرس پہ کھڑا سیٹل شہر کو دیکھ رہا تھا۔
سمارا کو شدت سے افسوس تھا۔
بہت ہمت جمع کر کے اسے پکارا۔
عون۔۔۔
عون نے فورأ اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
صاف ظاہر تھا وہ غصہ قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سمارا کا دل کہ رہا تھا وہ معافی مانگے۔ وہ تو بس عون کے لئے دھڑکتا تھا۔
جبکہ دماغ کہ رہا تھا کہ یہاں سے جانے میں عافیت ہے۔
کچھ دیر وہ وہیں کھڑی رہی۔
پھر پلٹ کر جانے لگی جب ایک دم اس کے بالوں سے پکڑ کر اسے روک لیا گیا۔
_______
ایک دم بال کھینچنے پر اس کے سر میں بہت تکلیف ہوئی اور پیچھے کی طرف گرنے لگی پر عون سے ٹکرا گئی۔
عون۔۔۔
تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم میری بیوی ہو یا کوئی فحاشہ جو کوئی بھی غیر مرد تمہیں چھو سکتا ہے۔
اس کے لفطوں نے سمارا کے دل پہ وار کیا تھا۔
اس کا لہجہ خوفناک تھا۔ غصہ کی شدت سے اس کی گردن میں شریانیں تنی ہوئی تھیں۔
اس نے سمارا کو بالوں سے جکڑ رکھا تھا اسے بالوں سے ہی گھوما کر چہرہ اپنی جانب کر لیا۔
سمارا کو لگ رہا تھا کہ وہ اس کے جڑوں سےکھینچ لے گا۔
عون کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کے خودکو چھوڑانے لگی۔
عون پلیز مجھے چھوڑ دیں۔
چھوڑ دوں تم نے مجھ سے جھوٹ کہا جبکہ تم اس دن پارٹی پر گئی تھی۔میری غیر موجودگی میں کیا کرتی پھرتی ہو تم۔
عون پلیز ۔ رونے سےاس سے بات کرنے میں مشکل ہونے لگی۔
مجھے معاف کر دیں میں نے جھوٹ کہا پلیز۔
میں نے تمہیں ہر آسائش دی تمہارے گھر والوں کی ہر مالی مددکی تم پر یقین کیا اور یہ ہے تمہارا جواب۔
عون آئی ایم سوری سوری۔
اسے تو مانو سمارا کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔
نہیں میں نے تمہیں کہا تھا آئندہ تمہاری سزا اتنی کم نہیں ہوگی۔
اس نے اپنی ٹائی اتاری اور سمارا کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں باندھنا شروع کر دیا۔
اسے اب معاملے کی سنگینی سمجھ آ رہی تھی۔اس بار اسے کچھ تھپڑوں پر معافی نہیں ملنی تھی۔
وہ خود کو چھڑانے لگی۔
عون رک جائیں یہ آپ کیا کر رہیں ہیں۔
اس کے ہاتھ بندھ چکے تھے۔ وہ بے بس تھی۔
اب خوف کے مارے چلانے لگی۔
نہیں عون چھوڑ دیں مجھے عون۔
اس نے سمارا کا منہ دوسری طرف کر دیا اور اسے دھکا دے کر بیڈ پر دھکیلا۔ وہ ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے سنبھل نہ پائی اور اوندھے منہ بیڈ پر گری۔
خود کو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب کسی چیز کی آواز آئی۔کچھ دیر بعد ہوا کاٹتی ہوئی کوئی چیز زور سے آ کر اس کے کندھوں کے درمیان لگی۔
تکلیف کی شدت سے اس کا سانس اکھڑ گیا۔ اسے لگا اسے اگلا سانس نہیں آئے گا۔
جب دوسری بار پھر سے اسی شدت سے حملہ ہوا۔ اسے سب دکھائی دینا بند ہو گیا۔ اور وہ اب زور سے چیخنے لگی۔
بیلٹ وہ اسے اپنی بیلٹ سے مار رہا تھا۔
سمارا نے دبارہ اٹھنے کی کوشش کی تو عون نے اسے گردن کے پیچھے سے پکڑ کر بیڈ پہ دبا دیا۔
ہر بار وہ الگ جگہ پہ وار کرتا۔ اس کے کندھے کمر ٹانگیں ہر جگہ مارا
اس کی چیخوں کا کوئی اثر نہیں تھا عون پر
_______
زخموں سے رستے خون کو وہ محسوس کر رہی تھی۔ چیخنے سے اس کا گلا سوج گیا تھا۔ اس کا جسم سن پڑنے لگا اور عون رک گیا۔ اسے لگا کہ اس پہ ستم کی یہ کہانی ختمِ ہوئی پر ایسا نہیں تھا عون نے اس کا پاؤں پکڑا اور بیلٹ سے اس کے پاؤں تلے زور سے مارا۔ سمارا کو لگا تھا جو تکلیف اس کی کمر میں ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں پر وہ غلط تھی جو تکلیف اس کے پاؤں میں اٹھی وہ کہیں زیادہ تھی۔
تکلیف سے اسے اک دم جھٹکا لگا تھا نئے سرے سے اس کی چیخیں نکلی تھیں۔
تیسری ضرب پہ اس کی ہوش نے جواب دے دیا اور وہ بےہوش ہو گئی۔
۔۔۔
سمارا جیسے ہی بےہوش ہوئی عون کو پتا لگ گیا اس نے بیلٹ زمین پر پھینک دی۔
اس میں ابھی بھی غصہ باقی تھا اسے بےہوش چھوڑ کر وہ ہال میں گیا وہاں پڑا کیک ڈیکوریشن سے تباہ کر دیا اور پھر گرنے کے انداز میں وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
۔۔۔
سمارا کو رات کے کسی پہر ہوش آئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے لگ جلا کر اس کے بدن پہ رکھ دی ہو۔ تکلیف برداشت سے باہر تھی گلا چلانے سے زخمی تھا۔ اسے اس کی انیسویں برتھڈے کا ایسا گفٹ ملا تھا جسے وہ بھول نہیں سکتی تھی۔ سسکیاں اس کے لبوں سے بے اختیار نکل رہی تھیں۔
اس کا بوجھ اس کی روح اور جسم دونوں نے ہمیشہ اٹھانا تھا۔ اس کی روح کے ساتھ اس کے جسم پر کبھی نہ مٹنے والے نشان ملے تھے۔
۔۔۔
عون ابھی بھی صوفے پر بیٹھا تھا وہ جانتا تھا اس نے ضرورت سے زیادہ تکلیف دی تھی وہ جب بھی خود کو روکنا چاھتا اس کی نظر میں وہ منظر گھوم جاتا۔
اس کی برداشت سے باہر تھا کسی کا سمارا کو چھونا۔
اس کی دبی دبی سسکیوں کی آواز آنے لگی تھی۔ اسے ہوش آ گیا یہ سوچ کر اس نے آنکھیں بند کر لی اور کسی لمحے نیند نے اس پہ غلبہ پا لیا۔
وہ خواب میں 15 سال کا تھا اور تکلیف سے کراہ رہا تھا ایک دم اس کی آنکھ کھلی اور اس نے اپنے پیروں کو پکڑ لیا جیسے کسی سے بچا رہا ہو۔
وہ خود سے تنگ آ کر اٹھا سمارا کو دیکھا جو ویسے ہی پڑی سسکیاں بھر رہی تھی اور آفس چلا گیا۔
اس وقت وہ جس تکلیف میں تھی وہ اچھے سے جانتا تھا اس نے خود یہ تکلیف کئی بار سہی تھی۔
۔۔۔
سمارا ساری رات درد میں تڑپتی رہی ایک انچ بھی ہل نہیں پائی۔ اسے اس کے گھر والے شدت سے یاد آ رہے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی جو عون نے کیا تھا۔
بابا امی آپ کہاں ہیں۔ مجھے لے جائیں پلیز۔