اتنے زوردار تھپڑ کی وجہ سے اس کے کان میں بھی درد ہونے لگا وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ جب عون نے اسے بالوں سے کھینچ کر کھڑا کیا۔
بتاؤ کیوں کیا تم نے ایسا کیوں چھوا اسے۔
سمارا اب خوف سے کانپنے لگی تھی زاروقطار روتے ہوئے اس نےبمشکل ٹوٹے ہوئے الفاظ ادا کئے۔
نہیں عون میں میں نے۔۔ تو بس۔۔ روکا ۔۔۔روکا تھا۔
ہاں میں نے دیکھا تم اسے کیسے مسکرا کر چھو رہی تھی۔
نن۔۔نہیں عون۔۔پلیز۔ میں نے بس روکا۔
اب وہ بار بار ایک ہی بات دوہرا رہی تھی۔
ایک بات اچھے سے سن لو Mon Amour
تم بس میری ہو بس میری۔ اگر آئندہ ایسی حرکت ہوئی تو میں تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گا سمجھی۔
وہ اسے یہ کہہ کر فرش پہ پھینک کر اپنے آفس روم میں چلا گیا۔
جب کہ سمارا وہیں پڑی روتی رہی۔
اس نے عون کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا یا شاید یہی اس کا اصل روپ تھا۔
اس نے ساری رات رو کر گزار دی۔ اگلی صبح عون اس سے بنا ملے جلدی آفس چلا گیا۔
مارتھا نے جب سمارا کا حال دیکھا تو اس کی آنکھیں سرخ تھیں چہرہ اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
اس نے سمارا کو برف کی سکائی کا کہا جس سے وہ کچھ بہتر ہوئی۔
سارا دن سمارا اس بارے میں سوچتی رہی۔ پہلے تو دل ہی دل میں خوب سنائی عون کو پر پھر سوچنے لگی کہ شاید وہ ہی غلط تھی۔ اسے اس بیرے کو نہیں چھونا چاہئیے تھا۔ پر عون کو بھی ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئیے تھا۔
۔۔۔
اس رات جب عون واپس آیا تو گیسٹ روم میں چلا گیا۔ وہ سمارا کے بغیر سو نہیں پا رہا تھا۔ اسی لیے خود کو کام میں مصروف کر رکھا تھا۔
_________
اسے اب بھی جب وہ بات یاد آتی تو نئے سرے سے سمارا پر غصہ آتا۔
اگلی صبح بھی وہ جلدی آفس چلا گیا
۔۔۔
کیا میں غلط تھی مجھے ان سے معافی مانگ لینی چاہئیے۔
آج دوبارہ عون اس سے ملے بغیر چلا گیا تھا۔ تو وہ خود پر شک کرنے لگی تھی۔ وہ رات کو دیر تک عون کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا تو ہال میں بیٹھی صوفے پر سو گئی۔
۔۔۔
جب عون واپس آیا تو صوفے پر سوتی سمارا کو دیکھ کر چونک گیا اس کی آنکھیں جن سے اسے بےحد محبت تھی اب ان میں سوزش تھی۔ اس کی خود کی حالت بھی بہتر نہیں تھی مسلسل جاگنے سے اس کی آنکھوں تلے گہرے ہلکے پڑ گئے تھے۔
اس نے سمارا کے قریب جا کر اس کے چہرے سے بال ہٹائے وہ خود میں سمٹی کسی بچے کی طرح لگ رہی تھی۔ اس نے سمارا کو اٹھایا اور بیڈروم میں لٹا کر خود گیسٹ روم میں چلا گیا۔ تھکن کی وجہ سے وہ لیٹتے ہی سو گیا۔
۔۔۔
رات کے کسی پہر وہ پسینے سے شرابور خوف سے کانپتا ہوا جاگا تھا۔
اس کی سانسیں بےحد اونچی تھیں۔ آج وہ خواب میں پھر ایک 7 سال کا بچہ تھا۔ اسے اس عمر میں آ کر بھی ان پر قابو حاصل نہیں ہوا تھا۔ کون جانتا تھا کہ سب کو اپنی انگلیوں پر نچانے والا خوابوں میں ڈرتا اور روتا تھا۔
اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول دیے اور بازو اونچے کر لیے۔ آج بھی اس کی کلائی پر آنسو کا نشان واضح تھا جو سالوں پہلے اس کی ماں نے چھری سے بنایا تھا۔
انہی خوابوں کی وجہ سے اس نے دو دن سے سونے کی کوشش نہیں کی تھی پر آج سو گیا تھا۔
وہ عالم وحشت میں اٹھا اور سمارا کے پاس جا کر سو گیا۔ وہ جانتا تھا وہ اس کے برے خواب اس سے دور رکھے گی۔
________
جب صبح سمارا کی آنکھ کھلی تو عون سو رہا تھا۔ وہ سوئے ہوئے کتنا معصوم لگتا تھا ہر چیز سے بےخبر۔
سمارا اسے سوتا پا کر اس کے بال سہلانے لگی۔ اس کی آنکھوں کے نیچے پڑے ہلکے اور بڑھی ہوئی داڑھی دیکھ کر اسے دکھ ہوا لیکن ایک سکون بھی کہ وہ اکیلی دکھی نہیں تھی۔
کچھ دیر وہ ایسے ہی لیٹے رہے۔ جب عون کی آنکھ کھلی تو اس نے سمارا کو اپنے پاس پایا۔
عرن کو جاگتا دیکھ کر اس نے بہت ہمت سے اسے کہا
Hello Stranger
عون نے سمارا کا چہرہ تھام لیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے لگا۔
تمہیں اتنا رونا نہیں چاہئیے۔
آپ کو مجھے اتنا رلانا نہیں چاہئیے۔
وہ تو بھول ہی گئی تھی عون کی دو دن پہلے کی حرکت اسے کچھ دکھ رہا تھا تو بس عون کی قربت اور اس کی بگڑی حالت۔
عون نے سمارا کو اپنے قریب کھینچ لیا۔
۔۔۔
کچن سے آتی اونچی آواز سے انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ اب اکیلے نہیں تھے بلکہ مارتھا آ چکی تھی۔
جبکہ عون جھنجھلا کر بولا مجھے مارتھا سے چابیاں واپس لے لینی چاہئیں۔
۔۔۔
سمارا فریش ہو کر کچن میں آئی تو اس کو خوش دیکھ گر مارتھا بھی خوش ہو گئی۔
سمارا کچن آئی لینڈ کے سامنے سٹول پر بیٹھی جوس پی رہی تھی جب عون بھی فریش ہو کر آ گیا۔ وہ اب کافی بہتر لگ رہا تھا۔
سمارا کے قریب آ کر اس نے اس کے سر کا بوسہ لیااور ساتھ سٹول پر بیٹھ گیا۔
______
زندگی ایک دفعہ پھر اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ وہ روزانہ عون کے ساتھ جلدی اٹھتی ٹریڈمل پہ دوڑتی پھر ناشتہ کرتی۔ جبہ عون آفس چلا جاتا۔ ہفتہ میں ایک بار وہ ہوسپٹل جاتی۔ عون نے اسے صاف انداز میں کہہ دیا تھا کہ وہ 3 بجے سے پہلے گھر ہو۔ وہ جہاں بھی جاتی ڈیےگو اسے ڈرائیو کر دیتا۔
آج بھی وہ ہوسپٹل آئی تھی۔ ڈیےگو کو واپس جانے کا کہ دیا تھا۔ کچھ دیر تک بچوں سے ملی پھر ہوسپٹل سے باہر آ گئی۔ وہ اکیلی کبھی نہیں گئی تھی تو آج اس کا ارادہ یہ کام سرانجام دینے کا تھا۔
وہ ایک جانب کا انتخاب کر کے پیدل اس طرف چل پڑی۔
اونچی اونچی عمارات دیکھ ہر وہ ہر بار کی طرح حیران ہوجاتی۔ کچھ دیر ایسے ہی چلتی وہ ایک کیفے کے باہر آ گئی۔ اندر داخل ہوئی تو وہاں کافی لوگ موجود تھے۔ کیفے بڑا تھا اس کے اندر اور باہر بھی کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔
وہ ادھر ادھر دیکھتی کاؤنٹر کی طرف بڑھ رہی تھی جب اس کی ٹکر کسی سے ہوئی۔
واٹ دی ہیل۔۔۔
سمارا نے جب اس شخص کو دیکھا تو دو قدم پیچھے ہو گئی۔
تم تم یہاں بھی۔ کیا تم نے مجھ پر کافی گرانے کی کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
وہ ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس اس کے سامنے کھڑا تھا جو اب کافی سے بھر چکے تھے۔
سمارا کو یاد تھا کہ اس نے کیسے سب کے سامنے اس کا مزاق بنایا تھا۔ اس لیے منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہسنے لگی۔
تو تمہیں دیکھ کر چلنا چاہئیے نا۔
کیا ہے کہ میں سامنے دیکھ کر چلتا ہوں نیچے چھوٹی بکریوں کو نہیں دیکھتا۔
اس کے ایسا کہنے پہ سمارا تو آگ بگولا ہو گئی۔
میکس تمہیں زرا سا انتظار کیا کرنا پڑا تم پھر شروع ہو گئے۔
نسوانی آواز پر وہ دونوں پلٹے تھے۔
آہ۔۔ لوفین(Lu Feen)
وہ ایک دبلی سی لڑکی تھی۔ دیکھنے میں کوریا کی لگ رہی تھی۔
کھلے بال اور ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ پکڑے وہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔
شکر ہے تم آ گئی۔ ورنہ یہ تو مجھے گرم کافی سے جلا ہی دیتی۔
لوفین نے میکس پر توجہ نہ دیتے ہوئے سمارا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
ہیلو میں لوفین ہوں میکس کی گرل فرینڈ۔ پلیز اس کی باتوں کا برا مت ماننا۔
سمارا نے بھی اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
میں سمارا ہوں ۔
اس سے دور رہو یہ قدرتی آفت ہے۔
میکس کے کہنے پر لوفین نے اس کے کندھے پر ثبت لگائی۔
سمارا اگر تم اکیلی ہو تو ہمارے ساتھ کافی پینا پسند کرو گی۔ لوفین نے جھٹ سے پوچھا۔
______
سمارا منع کرنے ہی والی تھی جب میکس بولا۔
نہیں نہیں یہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔
جبکہ سمارا نے بس میکس کو چڑانے کے لیے حامی بھر لی۔
لوفین میکس کو کافی کا کہتے ہوئے سمارا کے سکتھ کیفے کے باہر لگے خالی ٹیبل کی طرف چل دی۔
۔۔۔
تو تم یہاں سٹڈی کرنے آئی ہو؟
نہیں میں اپنے شوہر کے ساتھ یہی رہتی ہوں۔
اوہ تمہیں دیکھ کر لگا نہیں کہ تم شادی شدہ ہو۔
ایسا کیوں ؟
تم کافی چھوٹی ہو۔
کافی کے تین کپ پکڑے آتے ہوئے میکس نے اس کی بس آخری بات سنی تھا۔
ہاہاہا میں بھی اسے تبھی چھوٹی بکری کہتا ہوں۔
اوہ مائی گاڈ میکس ہم اس کی عمر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
اوہ اچھا۔۔۔ ہاں وہ بھی۔
جبکہ سمارا اسے خیالات میں کرسی سے پیٹ رہی تھی۔
ویسے یہ عون مرزا کی بیوی ہے۔
کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے میکس نے بتایا۔
عون مرزا وہ کون ہے؟
میکس کے منہ میں سے کافی کا گھونٹ فوارے کی طرح باہر نکلا۔
ہاہاہا اسی لیے تو تم سے اتنی محبت کرتا ہوں میں ۔
تھینک یو۔ پر واقعی میں مجھے نہیں پتا۔
سمارا ان کی باتیں سن رہی تھی جب اس کے موبائل کا الارم بجا۔
2 بج چکے تھے اب اسے واپس جانا تھا۔
اسے لوفین پسند آئی تھی تبھی اسے اپنا نمبر دیتی واپس آ گئی۔
۔۔۔
سمارا اتنے دنوں سے جو خالی پن محسوس کر رہی تھی اس کی وجہ اب سمجھی تھی۔ اس کے اردگرد ایسا کوئی نہیں تھا جس سے وہ دل کی باتیں کر پائے۔ اس کی زندگی میں ایک دوست کی کمی تھی جس کا احساس اسے لوفین نے کروایا تھا۔
۔۔۔
عون کیوں نا ہم آپ کے فرینڈز اور ان کی فیملیز کو ڈنر پہ انوائیٹ کریں۔
اس نے اپنی طرف سے بہت پتے کی بات کی تھی۔ وہ اس کے کسی دوست کو نہیں جانتی تھی۔
میرے فرینڈز ایسا کیوں؟
عون پینٹ ہاؤس میں بنائے اپنے آفس میں تھا جب وہ اس کے پاس آئی تھی۔
جی اس سے میں ان کی بیویوں سے بھی مل پاؤں گی اور کیا پتا کسی سے میری دوستی بھی ہو جائے۔
سمارا نے خوشی سے اسے سارا پلان بتایا۔
ضرور بلاتا پر میرا کوئی دوست نہیں ہے۔
اس کی ساری خوشی ہوا ہو گئی تھی۔
پر آفس میں۔۔
وہ سب میرے کولیگ ہیں سمارا اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بولا۔
پر کوئی تو دوست ہو گا آپ کا۔ سمارا نے پھر سے اپنی بات پر زور دیا۔
نہیں سمارا۔ یہ دوست وغیرہ سب مطلبی ہوتے ہیں۔آپ کو کبھی بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اور میری پوزیشن میں کوئی بھی ایسے کسی پر یقین نہیں کر سکتا۔