ہم نہیں بس تم۔
سمارا تو اس کھیل سے تنگ آ گئی تھی۔ لیکن عون خوب انجوائے کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ہوا میں شدت آنے لگی تو عون نے واپسی کا اعلان کیا۔
لگتا ہے بارش ہونے والی ہے ہمیں چلنا چاہئیے۔ندی میں پانی بھی بڑھ جائے گا۔
۔۔۔
رات کا وقت کا خوب بارش ہو رہی تھی۔ عون اور سمارا میوزک چلائے میکسیکن ڈشز نکال رہے تھے۔
جب سمارا نے پہلا نوالہ لیا تو مرچ سے اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔
وہ فورأ پانی اٹھا کر پینے لگی۔ جب اس سے فائدہ نہ ہوا تو اس نے عون کا گلاس بھی اٹھا لیا اور اسے منہ سے لگا کر زبان پانی میں نکال لی۔
یہ تم کیا کر رہی ہو۔
مدے مرتی لد دئی ہے۔
تم ایک پاگل لڑکی ہو۔
عون نے اسے دودھ کا گلاس پکڑایا اور اسے پینے کا کہا۔
اسے پی کر سمارا کو بہتر لگا تو کہنے لگی میں نہیں کھاتی میکسیکو کے کھانے۔ جبکہ عون کس عجیب چیز کو دیکھتا رہ گیا۔
۔۔۔
کسی ایمرجنسی کی وجہ سے انہیں واپس آنا پڑا۔جبکہ عون نے اسے یقین دلایا کہ وہ دبارہ ضرور آئیں گے۔
واپسی کے بعد کئی دن تو اس ٹرپ کے چارم میں اڑتی رہی۔
گھر میں بھی سب کو فون پر بتایا تھا۔آہستہ آہستہ جب اس کا چارم اترنے لگا تو وہ پھر سے بور ہونے لگی۔
ایک دن اس بوریت سے بچنے کے لیے اس نے صاف ستھرے پینٹ ہاؤس کو صاف کرنا شروع کر دیا جب عون اچانک عون آ گیا۔
اس نے سمارا کو یہ سب کرتے دیکھ کر بہت برا مانا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سب کے لیے وہ مارتھا کو پیسے دیتا ہے اور وہ یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی بیوی یہ سب کرے۔
عون کا غصہ دیکھ کر سمارا اسے کچھ بھی نہ کہ پائی اور چپ چاپ سنتی رہی۔
۔۔۔
وہ دو دن سے اپنے کمرے میں بند تھا۔اور بھوکا بھی ۔ اسے اس کی ماں نے سزا دی تھی۔
وہ دو دن سے صرف پانی پی رہا تھا۔
اب اسے کمرے سے نکلنے کی اجازت ملی تھی۔
وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے سامنے مختلف کھانے پڑے تھے۔لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کچھ کھا لے۔
بھوک کی شدت سے اس کا برا حال تھا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا کہ کب اس کی ماں آئے اور رہ کچھ کھا سکے۔
کبھی اپنی کرسی سے اونچا ہو کر سامنے رکھے سلاد کی طرف اپنا چھوٹا سا ہاتھ بڑھاتا پر پھر پیچھے کر لیتا۔
جب مزید صبر نا کر پایا تو اس نے جلدی سے پھل کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور منہ میں ڈال کر ثابت نگل گیا۔
اسے لگا اس کی چوری پکڑی جائے گی ۔
______
اور اسے مزید سزا ملے گی۔ یہ سوچ کر وہ اونچی اونچی سانس بھرنے لگا جیسے بہت دیر سے بھاگ رہا ہو۔
جب کچھ دیر تک کچھ نہ ہوا تو اس نے ہمت کر کے اس بار دو ٹکڑے اٹھائے اور منہ میں ڈال کر جلدی جلدی چبانے لگا جب اس بار بھی کچھ نا ہوا تو اس بار اس نے پھر ایسا کیا۔
یہ تم کیا کر رہے ہو۔ وہ خوف سے اپنی کرسی پر اچھل پڑا۔
کچھ کچھ بھی تو نہیں مومی۔
تم اب جھوٹ بولو گے مجھ سے۔
نہیں نہیں مومی۔ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک زناٹے دار تھپڑ مارا گیا اور وہ کرسی سے نیچے گر گیا۔
اس کی ماں نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
تمہیں سزا دی تھی میں نے تاکہ تم اچھے بچے بن جاؤ اور تمارے پاپا واپس آ جائیں اور تم میری محبت کا صلہ جھوٹ بول کر دو گے۔
وہ اب رونے لگا تھا۔ اس کی ماں نے اس کا منہ دبوچ لیا۔
منہ کھولو اپنا۔
سو سوری مومی سوری مومی
اس نے اس کا منہ دبا کر زبردستی کھولا۔
اس کے دانتوں پر لگے پھل کے ٹکڑے اس کے جھوٹ کا ثبوت دے رہے تھے۔
اس نے دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا اس کے منہ میں ڈال دیا۔ اور اس بچے کی زبان کے نیچے کی نرم جگہ پر اپنے ناخن سے زور ڈالنے لگی۔ درد کی وجہ سے وہ اپنا چہرہ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا اور اس کے رونے میں مزید شدت آ گئی۔
اک عالم وحشت تھا وہ جب اس نے اپنے ناخن سے اس کا منہ کاٹ دیا۔
اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے بلبلاتے ہوئے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا جو اس سے لا پرواہ کھانا کھا رہی تھی ۔
اس کے بعد وہ بچہ لمبے عرصے تک سخت خوراک نہیں کھا پایا تھا۔
۔۔۔
عون کیا میں یہاں اڈمیشن لے لوں۔
اس کی بات اچانک تھی۔ تو عون چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
ایسا کیوں؟
تاکہ میں کچھ بزی ہو جاؤں۔
نہیں۔ جواب میں صاف انکار ملا تھا۔
لیکن کیوں۔
عون نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
میں ہمارے درمیان یہ سب نہیں آنے دے سکتا اور سمارا مجھے بات دہرانے کی عادت نہیں۔ تمہارے بار بار پوچھنے سے میرا فیصلہ نہیں بدلے لگا۔ اس لئے ایک بار میں سمجھ جایا کرو۔
ویسے بھی زیادہ پڑھائی وہ کرتے ہیں جو کہ کوئی جاب کرنا چاہتے ہوں اور تمہیں اس کی ضرورت نہیں۔
سمارا کو اس کا جواب پسند نہیں آیا پر شادی کے دو مہینے بعد وہ اس کی عادت سمجھنے لگی تھی۔
لیکن میں اکیلی اداس ہو جاتی ہوں۔
اگر اتنا مسئلہ ہے تو تم کل سے جلدی جاگو گی اور میرے ساتھ جم چلو گی۔
__________
ہا ہا ہا ۔۔۔ آپ مزاق کر رہے ہیں نا۔
نہیں میں سنجیدہ ہوں۔ وہ اب صوفے پر پھیل کر بیٹھا تھا جیسے کسی سلطنت کا بادشاہ ہو۔
اممم پر میں وہاں کیا کروں گی۔
ٹریڈ مل ورنہ ایسے تم بے ڈول ہو جاؤ گی۔
اس کی بات سن کر وہ ناک سکیڑنے لگی۔ پر پھر اس کے تیور دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی۔
میرے پاس آؤ Mon Amour
وہ جا کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی اور عون نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
میں جانتا ہوں تمہاری کشمکش مگر میں جو بھی کروں گا تمہارے لیے ہی کروں گا۔
وہ اس کی گال سہلاتے ہوئے کہ رہا تھا۔ اور سمارا ایک بار پھر اس کے سحر میں گرفتار ہو گئی۔
تمہیں میری بیوی کی حیثیت سے بہت سارے کام کرنے ہوں گے لیکن میں سب سے اہم ہوں ۔
جی عون آپ میرے لیے سب سے اہم ہیں۔
تو ٹھیک ہے۔ ہماری کمپنی کئی جگہ ڈونیشنز کرتی ہے ان میں سے ایک نام کینسر کے مریض بچوں کا بھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اگلے ہفتہ سے ان کے پاس جانا شروع کرو اور آہستہ آہستہ یہ پروسیس سمجھو۔
اگر تم نے اچھا کام کیا تو تم سارے ڈونیشنز ہینڈل کرو گی۔
پر عون یہ بہت بڑی زمہ داری ہے
اور مجھے تم پر یقین ہے اب جاؤ سونے کی تیاری کرو کل سے تمہیں جلدی اٹھنا ہے۔
وہ پھر سے ناک سکیڑتی بیڈ روم کی طرف چل پڑی۔
۔۔۔
اگلی صبح عون نے اسے جلدی اٹھایا اور پینٹ ہاؤس میں بنی جم میں لے گیا۔ اس نے نہ اٹھنے کے سارے ڈرامے کیے پھر بےسود آخر وہ صفیہ بیگم تو تھا نہیں۔
عون نے اسے ٹریڈ مل کے بارے میں سب سمجھایا اور پھر اسے چلانے کا کہا سمارا پہلی بار میں ہی منہ کے بل گرنے لگی تو عون نے اسے پکڑ لیا۔ پھر آدھے گھنٹے تک اس کے سر پر کھڑا رہا۔
سمارا کو لگ رہا تھا وہ مر جائے گی آخر عون کو اس پر ترس آ گیا اور اسے فریش ہونے کا کہا۔
مارتھا بھی آ چکی تھی ان دونوں نے ناشتہ کیا اور عون آفس چلا گیا۔
جبکہ سمارا بیڈ پر گر کر سو گئی۔
۔۔۔
ان کی اس روٹین کو ہفتہ گزر گیا تھا۔ اور سمارا کو آج ہسپتال جانا تھا۔ عون نے بھی ساتھ جانا تھا پر عین وقت پر کسی کام سے نا جا پایا۔
ڈیےگو نے اسے ڈرائیو کیا۔ اسے وہاں پر ڈاکٹر کارلا سےملنا تھا۔ وہ سب کچھ اچھے سے جانتی تھی۔
۔۔۔
ڈاکٹر کارلا ایک اچھی عورت تھی۔ وہ جانتی تھی کہ آج مسز عون نے آنا ہے۔ اس لیے بہت خوشی سے ملی۔ اس کے بعد وہ سمارا کو بچوں کے پاس لے گئی۔
______
ان بچوں کو ٹیوبز میں جکڑا دیکھ کر وہ خود پہ قابو نہ کر پائی اور رونے لگی۔ ایسا منظر اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔
عون کے کہنے پر وہ کچھ تحائف لائی تھی جو اس نے بانٹے۔ وہاں ہر عمر کے بچے موجود تھے۔ زندگی کی اصل اہمیت انسان کو ایسی جگہ جا کر ہی سمجھ آتی ہے۔ جب وہ مزید سہہ نہ پائی تو آنسو صاف کرتی جلدی سے باہر نکلتی کسی سے ٹکرا گئی۔
سامنے سنہری بال اور نیلی آنکھوں میں ایک خوش شکل آ دمی اب اپنے چہرے کے زاویے بگاڑے اسے گھور رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کافی کا خالی کپ تھا جو اس کے سفید کوٹ اور شرٹ پر گر گئی تھی۔
آئی ایم سوری۔
اوہ نو۔ کلب میں تو لڑکیاں مجھ سے بات کرنے کے لیے ٹکراتی پھرتی ہیں پر اب یہاں ہوسپٹل میں بھی۔
سمارا کو اس کی بات بری لگی۔
کہا نا سوری۔
سوری سوری۔۔۔ دیکھو تم نے کیا حالت کر دی میری۔اس نے اپنے کوٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
سمجھ نہیں آ رہا ہوسپٹل میں چھوٹی بکریاں کب سے آنے لگیں۔
اب کی بار سمارا کی دکھتی رگ پر حملہ ہوا تھا۔ وہ بھی غصہ میں آ گئی۔
تم جانتے ہو میں کون ہوں کس کی بیوی ہوں ؟
بکرے کی۔
میں عون مرزا کی بیوی ہوں سمجھے۔
ان کے گرد ہجوم لگ چکا تھا۔ اس کی بات سن کر سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔
جبکہ سامنے والے نے اس کا اب اچھے سے جائزہ لیا اور کہنے لگا۔
تمہارا سائز دیکھ کے اسے تم سے شادی نہیں بلکہ تمہیں گود لینا چاہئیے تھا۔
جہاں سمارا کا منہ کھلا رہ گیا وہیں اس کے گرد موجود لوگ ہسنے لگے۔
وہ جواب سوچ ہی رہی تھی جب کسی نے ان دونوں کو مخاطب کیا۔
ڈاکٹر میکس ۔
مسز عون ایم رئیلی سوری۔ ڈاکٹر کارلا نے اس سے معافی مانگی۔
ڈاکٹر میکس یہاں کے قابل ڈاکٹر ہے مسلسل 24 گھنٹے سے یہاں ہیں اس لیے ایسے کر رہے ہیں۔ میں ان کی طرف سے معافی مانگتی ہوں۔
جب کہ وہ کندھے اچکا کر وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔
کیسا رہا تمہارا آج کا دن۔
بہت برا
ایسا کیوں
وہ بچے مجھ سے نہیں دیکھے جاتے۔ سمارا نے کافی والا قصہ فراموش کرنا بہتر جانا۔
تبھی تمہیں وہاں بھیجا تاکہ تم اسے سنجیدگی سے کرو۔
ہمم۔ ٹھیک ہے عون میں آپ کو شرمندہ ہونے نہیں دوں گی۔
وہ ایک مشہور اٹیلین ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔
سمارا نے آگے بڑھ کر کچھ اٹھانا چاہا تو اس کی بازو سے ٹکرا کر پانی کا گلاس زمین پر گر گیا۔
کچھ پانی سمارا پر بھی گر گیا۔
اوفو
قریب کھڑا بیرا یہ دیکھ کر آگے بڑھا
________
بیرا نیپکن ہاتھ میں پکڑے سمارا کی طرف آیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے کپڑے صاف کرنے لگا تو سمارا نے اپنی انگلیوں سے اس کا ہاتھ چھو کر اسے پیچھے کر دیا۔
میں خود کر لوں گی۔
اس کی بات سن بیرا نرمی سے اس کی طرف مسکرا دیا۔
جواب میں وہ بھی مسکرا دی۔
اپنے کپڑے صاف کر کے اس نے عون کی طرف دیکھا تو وہ غیض و غضب کی تصویر بنے سمارا کو دیکھ رہا تھا۔
سمارا کو سمجھ نہ آیا کہ عون کو کیا ہوا۔
اس نے اشارے سے بہرے کو بلایا اور اسے بل ادا کر کے روانہ کر دیا۔ اور خود اٹھ کر باہر چل دیا۔
سمارا کو اس کا غصہ سمجھ نہ آیا پر وہ بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل دی۔
۔۔۔
ماحول میں موجود خاموشی اور تلخی ڈیےگو بھی محسوس کر رہا تھا اسی لیے خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔
جب سمارا سے یہ تلخی مزید برداشت نہ ہوئی تو اس نے اپنا رخ عون کی طرف کر لیا۔
عون آپ۔۔۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ عون نے بےرحمی سے اس کی ٹھوڑی کو جکڑ لیا۔
ایک لفظ بھی نہیں سمجھی تم ایک لفظ بھی نہیں۔
یہ کہہ کر عون دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
جب کہ سمارا اس کے رویہ کی سختی اور پکڑ کو ابھی بھی محسوس کر رہی تھی۔ عون نے سمارا کو خوفزدہ کر دیا دیا۔
ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا کہ وہ گاڑی سے کود کر بھاگ جائے۔
۔۔۔
وہ دونوں اب بلڈنگ کی لفٹ میں تھے۔سمارا اپنے حواس پر قابو پا چکی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ عون کے رویہ کے بارے میں اس سے بات کرے گی۔
وہ ہال سے ہوتے ہوئے بیڈروم میں داخل ہوئی عون بھی اس کے پیچھے تھا اس کی نظروں کی تپش وہ محسوس کر رہی تھی۔
ہاتھ میں پکڑا کلچ بیڈ پر پھینک کر وہ عون کی طرف پلٹی تھی کہ ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر لگنے سے وہ لڑکھڑا کر فرش پہ گر گئی۔
وہ سکتے کے عالم میں اپنی دھندھلائی نظروں سے عون کو دیکھ رہی تھی۔
غصہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اس کو چھونے کی۔