سمارا کو کوئی جگا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی تو ایک 45 سال کی عورت اسے جگا رہی تھی۔
میں مارتھا ہوں مسز عون یہاں میڈ
(maid)
ہوں۔ عون صاحب کب کے چلے گئے آپ کو بھی اٹھ جانا چاہئیے۔ مجھے لگا آپ تھکی ہوں گی اس لیے آپ کا ناشتہ یہیں لے آئی۔ وہ سائیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کر کے بتا رہی تھی۔
اممم ۔۔ اوکے۔
آپ تیار ہو جائیں آج بہت اہم فنکشن ہے۔
اوہ ہاں میں کیسے بھول گئی۔ وہ اب سستی چھوڑے بیڈ سے چھلانگ لگا کر فریش ہونے بھاگی۔
جبکہ مارتھا اس کے اس رویے پر منہ کھولے اسے دیکھتی رہی اور پھر مسکرا کر باہر اپنا کام کرنے چلی گئی۔
سمارا جب ناشتہ کرنے لگی تو ٹرے میں اس کے لیے گلاب کا پھول بھی رکھا تھا۔ ساتھ میں اسے ایک کارڈ بھی ملا۔
I appologize for not being with you, but our coming mornings will always be together۔
سمارا یہ پڑھتی خوشی سے جھومتی اپنے ناشتے کے ساتھ انصاف کرنے لگی۔
۔۔۔
ابھی وہ آخری لقمہ لے ہی رہی تھی۔ جب مارتھا اس کے کمرے میں دو لڑکیوں کے ساتھ داخل ہوئی۔ وہ دونوں خوبصورت تھیں۔ جبکہ ان میں سے ایک نے اپنے بال گلابی اور نیلے رنگ سے رنگا ہوا تھا۔
مسز عون یہ دونوں بیوٹیشن خاص آپ کے لیے بلائی گئی ہیں۔ یہ آج شام کے لیے تیاری میں آپ کی مدد کریں گیں۔ یہ کہ کر مارتھا پھر سے باہر چلی گئی۔
تو آپ ہیں مشہور مسٹر عون کی ہونے والی بیوی۔
اممم ایکچولی میں ان کی بیوی ہوں یہ صرف فارمیلٹی ہے۔
واؤ گریٹ ہم تمہارے ساتھ بہت مزہ کرنے والے ہیں۔ کیا آپ تیار ہیں مسز عون۔
سمارا مجھے سمارا کہ کر بلائیں پلیز۔
اوکے سمارا لیٹس سٹارٹ۔
سب سے پہلے اسے جینی نے قابو کیا جس نے اس کے کندھوں بازوؤں کی مساج سے شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ مساج کرتی سکون سا آتا گیا۔
پھر اس کے لیے جکوزی میں مختلف آئل اور خوشبو ڈال کر تیار کیا گیا۔
اس کے بعد فیس ماسک مینی پیڈی اور پتا نہیں کیا کیا کیا گیا۔ وہ تو بالکل ہی انجان تھی اس سب سے۔ جینی اور لارا نے اس دوران اسے بالکل بور نا ہونے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کھانا کھایا اور سمارا کو کچھ وقت کے لیے بریک دی گئی۔
پھر آئی لارا کی باری جو کہ ہیئر اور میک اپ سپیشلسٹ تھی۔ جبکہ سمارا کو اس کے بال دیکھ کر اس پہ شک تھا۔
خیر اس کے بھاری اور لمبے بالوں کی کٹنگ کر کے انہیں سنوارنے کا کام شروع ہوا۔
________
جو نتیجہ نکلا تھا وہ سمارا کو بےحد پسند آیا تھا۔ اس کے بالوں کو ہلکا سا کرل کر کے بہت نفاست سے میسی سٹائل سے جوڑا بنایا گیا تھا۔
یہ تو بہت اچھا ہے تھینک یو۔
یو آر ویلکم۔ اور اب مجھے تمہارے میک اپ کا کام شروع کرنا ہے۔
جب وہ مکمل تیار ہو چکی تھی تو مارتھا اس کا گاؤن لے آئی جب وہ وارڈروب سے گاؤن پہن کر آئی تو سب اسے دیکھتے رہ گئے۔
گاؤن میں لیس کا کافی کام تھی اور اس کی سکرٹ کافی گھیرے دار تھی۔ سکرٹ کو پرل (pearl) سے سجایا گیا تھا۔ اور گاؤن کا رنگ وہاں کی روایت کے مطابق سفید ہی رکھا گیا تھا۔
گاؤن کی مناسبت سے ہی ایئر رنگ بھیجے گئے تھے۔
وہ خود کو شیشے میں دیکھ رہی تھی۔ اور سارے دن کی محنت سے خوش بھی۔ ساتھ میں لمبی ہیل پہن رکھی تھی۔
کیا میں اپنی وائف سے بات کر سکتا ہوں۔
آہ مسٹر عون وائے نوٹ۔
یہ کہتے ہوئے وہ تینوں وہاں سے چلی گئیں۔
سمارا تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔
اممم تھینک یو۔ پتا نہیں اس کے سامنے وہ گنگ کیوں ہو جاتی تھی۔ سمارا اپنے گاؤن کی سکرٹ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
تو عون نے آ گے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
تمہارے حسن کے آگے سب بیکار ہے۔میں تمہارے لیے کچھ ایسا لینا چاہتا جو تمہارے قابل ہو بہت ڈھونڈنے کے بعد صرف یہی پسند آیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک لمبا باکس نکالا جس میں ایک خوبصورت ہیئر بروچ تھا۔
یہ بہت خوبصورت ہے۔ وہ اسے اپنی انگلیوں سے چھو کر دیکھنے لگی۔
میں چاہتا ہوں تم یہ اپنے بالوں میں لگاؤ۔
اس نے خوشی سے بروچ ڈبے سے نکالا اور عون کے سامنے کر دیا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔
عون نے بروچ اس سے پکڑ لیا اور سمارا نے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
سمارا جو اتنی لمبی ہیل کے ساتھ بھی اس کے سینے تک پہنچ رہی تھی۔ عون نے آرام سے اس کے بالوں میں بروچ لگا دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بازو پہ رکھے کمرے سے باہر چل پڑا۔
۔۔۔
بلڈنگ کے باہر ڈیےگو ان کا انتظار کر رہا تھا۔ راستے میں وہ دونوں خاموش رہے۔
فنکشن کا ارینجمینٹ بہت اچھا تھا۔ ہال کو نیلے اور کریم کلر کے پھولوں سے سجایا تھا۔
عون نے بلیک ٹکسیڈو اور نیلی ٹائی لگائی تھی۔
عون وہاں سب کو جانتا تھا وہ سب اس کے کولیگ ۔ ڈائیرکٹر یا پارٹنر تھے۔
میڈیا کے کچھ نمائندے بھی موجود تھے جو ان کی تصاویر لے رہے تھے۔
عون نے اس سے بہت سارے لوگوں کا تعارف کروایا تھا۔
_______
سمارا کسی کا بھی نام یاد نا رکھ پائی پتا نہیں عون کو سب کے نام کیسے یاد تھے۔
عون اور سمارا مزید وہاں دو گھنٹے رکے۔
میڈیا سے بات کر کے عون اور سمارا نے کیک کاٹا اور پھر واپسی کے لیے گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ اس دوران ان میں خاموشی چھائی رہی۔
۔۔۔
سمارا اب بیڈ پر بیٹھی تھی۔ وہ بہت تھک گئی تھی۔ جبکہ عون ہال میں کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئی۔
عون نے کوٹ اور ٹائی اتار دی تھی وہ بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اور اس کا چہرہ اپنی انگلیوں کی پشت سے سہلانے لگا۔
جانتی ہو جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو چاہ کر بھی تمہیں بھلا نا پایا۔
عون نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
جب دوسری بار تمہیں دیکھا تو سمجھ گیا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ چاہتا تھا۔
اس کے لفظوں کے ساتھ ساتھ اس کی پکڑ میں بھی شدت آنے لگی تھی۔
میں جلد از جلد تمہیں اپنا بنانا چاہتا تھا۔ اس لیے فورأ نکاح پر زور دیا۔
نکاح کے بعد تم سے کبھی اس لیے بات نہیں کی کیوں کہ تم سے دور نا رہ پاتا۔
اب اس کے ہاتھوں نے اس کا چہرہ جکڑ رکھا تھا۔
میرے لیے یہ شدت نئی تھی۔ میں تمہیں چاہتا ہوں سمارا۔ تم میرے احساسات سمجھ رہی ہو نا۔
سمارا پہلی بار اتنی شدت کا سامنا کر رہی تھی اس لیے اثبات میں ہلکا سا جی کہ پائی۔
Mon Amour
عون نے سمارا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
Mon Amour?
سمارا نے اس کا مطلب جاننا چاہا تو عون نے اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے اس کی پیشانی کو چوم لیا۔
رات آہستہ آہستہ کب گزری انہیں احساس بھی نا ہوا۔
۔۔۔
عون کی لائف بہت ٹف تھی۔ اس کا اندازہ سمارا کو ہو رہا تھا۔
پیسے اور پاور کے ساتھ بہت ساری ذمےداریاں بھی عون پر تھیں۔
وہ اپنے بزنس میں جارحانہ تھا۔ تبی اس کے حریف اسے
Diablo (the devil)
کہتے تھے۔
سمارا اس کی غیر موجودگی میں اپنے گھر والوں سے باتیں کرتی یا نیٹ فلکس پر موزیز دیکھتی۔
کوئی بھی کام کرنے کو نہیں ہوتا کیونکہ مارتھا سب کر کے شام کو گھر چلی جاتی۔
ایک دن جب سمارا نے اپنے لیے ناشتا بنانا چاہا تو اس نے نرم لیکن صاف انداز میں اسے سمجھا دیا کہ وہ اس کا کام نہیں کر سکتی۔
کام کے بوجھ کی وجہ سے وہ کہیں ہنی مون پر بھی نہیں گئے۔
شروعات میں تو اسے یہ سب بہت اچھا لگا پر اب دو ہفتوں بعد وہ بور رہتی تھی۔
_________
سمارا اور عون ڈنر کر رہے تھے۔ عون کافی دیر سے دیکھ رہا تھا کہ سمارا چمچ سے ڈنر ادھر ادھر کر رہی تھی۔
اگر تمہیں ڈنر پسند نہیں آیا تو میں کچھ آڈر کر دیتا ہوں۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔
تو کیا بات ہے؟
عون اب ڈنر چھوڑے اس کی طرف متوجہ تھا۔
میں بور ہوں۔
میں نے تمہیں کہا تھا ڈیےگو کے ساتھ تفریح کر آؤ۔
گئی تھی پر اکیلے جانے میں کوئی مزہ نہیں۔
وہ نظریں جھکائے منہ پھلا کر کہ رہی تھی۔
میں آپ کو مس کرتی ہوں۔
عون بھنویں اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
تم صحیح ہو مجھے تمہیں ٹائم دینا چاہئیے۔
تمہیں خوشی ہو گی ہم اس ویکنڈ ہنی مون کے لیے جا رہے ہیں۔
کیا واقعی۔ کہاں پر
وہ اب چہرے پر خوشی کے تاثرات سجائے پوچھ رہی تھی۔
میں تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ خیر جگہ ابھی بھی ایک سرپرائز ہے۔
کیا آپ کام چھوڑ کر جا پائیں گے۔
اگر میں ایک ویکینڈ بھی اوف نہیں کر سکتا تو اتنا سٹاف کا کیا فائدہ۔
سمارا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اور عون کے لیے یہ کافی تھا۔
۔۔۔
ڈیےگو ان کا سامان صبح ہی لے گیا تھا۔ عون اپنے آفس میں تھا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں وہ پروگرام ملتوی نہ کر دے پر ایسا نہیں ہوا۔
۔۔۔
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے۔
کیا آپ ابھی بھی نہیں بتائیں گے؟
نہیں۔
ڈیےگو کیا تم جانتے ہو ہم کہاں جا رہے ہیں۔
ڈیےگو جو انہیں ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس کی بات کا جواب دینے لگا۔
نہیں مسز عون۔
صبر رکھوMon Amour
۔۔۔
وہ دونوں لفٹ میں تھے۔ سمارا ابھی بھی عون سے وہی پوچھ رہی تھی۔ جب لفٹ رک گئی۔
وہ دونوں چھت پر تھے۔
ہیلی کاپٹر کی آواز اس کی سماعت پر اثرانداز ہو رہی تھی۔
اس نے بےیقینی کے عالم میں عون سے پوچھا کیا ہم اس میں جائیں گے۔
ہاں بلکل۔
سمارا تو خوشی کی انتہاء پر تھی۔ عون اس کا ہاتھ تھام کر اسے ہیلی کاپٹر کے پاس لے گیا۔
اسے بیٹھنے میں مدد کی۔
پائلٹ نے ان دونوں کو ہیڈ فون دیے جس سے وہ آپس میں بات کر سکتے تھے۔
ہیلی کاپٹر نے اڑان شروع کی تو سیٹل شہر کا نظارہ کسی خوبصورت خیال سے کم نہ تھا۔
مجھے یقین نہیں آ رہا۔ مجھے نہیں لگتا سارے فیصل آباد میں کبھی کوئی ہیلی کاپٹر میں بیٹھا ہو گا۔
وہ خوشی سے اس شہر کی خوبصورتی دیکھ رہی تھی۔
اس کا منظر اس کے دل میں گھر کر رہا تھا۔
ہیلی کاپٹر اونچی عمارتوں سے ہوتے ہوئے شہر سے دور بڑھنے لگا۔
دور سے شہر اور بھی حسین دکھائی دے رہا تھا۔
_________
تقریبا 45 منٹ کے بعد ان کا ہیلی کاپٹر ایک جگہ پر اترا۔
اس کا بس چلتا تو ساری زندگی اس میں بیٹھی رہتی۔
عون کی مدد سے وہ اتر کر اس کا ہاتھ تھامے چلنے لگی۔
اچانک رک گئی اور اس کے گلے لگ گئی
اس خوبصورت تجربے کے لیے شکریہ۔
عون نے اپنے مخصوص انداز میں اس کی گال سہلائی اور دبارہ آگے بڑھنے لگا۔
کچھ دور ایک کار ان کا انتظار کر رہی تھی۔
ہیلی کاپٹر اور واپسی کے لیے دوبارہ پرواز بھرنے لگا۔
مجھے خوشی ہے تمہیں یہ پسند آیا۔
وہ اسے لے کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
۔۔۔
گاڑی اب ایک خوبصورت کوٹیج cottage
کے باہر کھڑی تھی۔
سمارا کو الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے کہ وہ کیسے اس کی خوبصورتی بیان کرے۔
عون یہ بہت اچھا ہے۔
عون اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
ہر طرف ہریالی تھی۔ مختلف پھولوں کی خوشبو فضاء میں پھیلی تھی۔
بس اچھا ؟
میں سمجھ نہیں پا رہی میں کن الفاظ میں بیان کروں۔
یہ اب تمہارا ہے۔
مم میرا ؟
ہاں تمھارا۔ یہ ہماری شادی کا تحفہ ہے۔
یہ بہت عالیشان ہے آپ کا بہت شکریہ۔
یہ تو شروعات ہے Mon Amour
ہممم جانتی ہوں بہت پیسہ ہے آپ کے پاس پر آپ اس کے مجھے امپریس نہیں کر سکتے۔
اب کہ اس نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔
تو کیسے کر سکتا ہوں؟
کیا وہ ہیلی کاپٹر آپ کا ہے؟
نہیں وہ میں نے ہمارے لیے بک کروایا تھا۔
اس کے انداز پر عون محظوظ ہوا تھا اور اس کے ہونٹوں میں ایک جنبش ہوئی تھی۔
سمارا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اس کے پاس آ گئی۔
ایک منٹ کیا یہ مسکرانے کی ناکام کوشش تھی۔
میں مسکراتا نہیں۔
ارے نہیں یہ مسکراہٹ ہی تھی۔
عون اسے نظرانداز کرتا کاٹیج میں داخل ہو گیا۔
اب تو اس کی سب سے بڑی خواہش عون کو مسکراتے دیکھنا تھی۔
۔۔۔
ان کا سامان پہلے ہی وہاں موجود تھا۔
فریج بھی مختلف کھانوں سے بھرا تھا۔
ان کے وہاں آ نے کی مکمل تیاری کی گئی تھی۔
۔۔۔
اگلے دن سمارا اور عون نے کاٹیج کے اردگرد کا علاقہ دیکھا۔
وہ بہت پیاری جگہ تھی۔
عون اور سمارا کو وہاں مکمل تنہائی میسر تھی۔
عون جو اپنے کام سے بہت کم ہی دور ہوتا تھا سمارا کا ساتھ خوب انجوائے کر رہا تھا۔
پہلا دن تو ان نے کاٹیج میں ہی گزارہ۔
اگلے دن عون سمارا کو لے کر کاٹیج کے پاس بہتی ندی پر لے آیا۔
عون کا کہنا تھا وہ اسے مچھلی پکڑنا سکھائے گا۔ تاکہ اس میں صبر پیدا ہو۔
۔۔۔
وہ دونوں ندی کنارے تھے۔
ہمیں اور کتنا انتظار کرنا ہو گا۔