وہ عون کی آواز فورأ پہچان گئی تھی۔ لیکن جس طرح عون نے اسے گھر جانے کا کہا تھا۔اسے لگا اس کا سارا خون جسم سے نکل گیا ہے۔ اور اپنا وجود ٹھنڈا پڑتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
وہ م۔۔م۔۔میں
ششش۔۔۔ ایک لفظ نہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ لڑکا اپنی آخری سانسیں لے۔ اپنا سامان اٹھاؤ اور گھر جاؤ۔
سمارا کو اب کپکپی طاری ہو گئی تھی۔ کتنی شدت تھی عون کے لہجے میں۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر کو نکلنے لگی۔ اس کی فرینڈز اسے پوچھتی رہیں پر اس نے کسی کو بھی جواب نہیں دیا۔ اور رکشہ میں آ کر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد جب اس کی حالت سدھری تو اس کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ عون کو کیسے پتا لگا۔ کیا وہ پاکستان میں ہے۔
یہ سوچ کر اس نے اپنا کال لوگ چیک کیا تو نمبر امریکہ کا ہی تھا۔
اس بات نے اسے مزید پریشان کر دیا کہ وہ امریکہ میں ہو کر بھی اس کے ہر قدم سے واقف تھا۔
۔۔۔۔۔
جب وہ گھر پہنچی تو کپڑے بدل کر سیدھا سونے کے لیے چلی گئی۔ سب کو یہی کہا کہ اسے نیند آئی ہے۔
پر نیند تو اس سے کوسوں دور تھی۔
ساری رات بس عون کی باتیں سوچتی رہی۔
اگلی صبح اسے فیضان صاحب نے اپنے پاس بلایا۔
وہ پریشان تھی کہ شاید علی والا واقع انہیں پتا لگ گیا۔
لیکن بات کچھ اور ہی نکلی۔
۔۔۔۔
دیکھو بچے کل رات عون کا فون آیا تھا۔
کک۔۔کیا عون کا کیا کیا انہوں نے۔
اس کا کہنا تھا کہ وہ اس ہفتہ پاکستان آ رہا ہے اور چاہتا ہے رخصتی ہو جائے۔
کیا کہ رہے ہیں آپ بابا پر میرے اگزیمز۔
ہاں بیٹا میں جانتا میں نے اسے بہت مشکل سے منایا ہے۔
اور وہ تمہارے پیپرز ختم ہون تک مان گیا ہے
اب جس دن تمہارا آخری پیپر ہے اسی رات تمہاری مہندی اور اگلے روز بارات اور شام کو ولیمہ اور اسی رات تمہاری امریکہ فلائٹ ہے۔
پر بابا اتنی جلدی۔
ہم بھی وقت چاہتے تھے پر تمہارے شوہر کی یہی مرضی ہے ۔
اور ہاں وہ چاہتا ہے تم اب صرف کالج اور وہاں سے سیدھا گھر آؤ جب تک شادی نہیں ہوتی۔
پتا نہیں امریکہ میں رہ کر بھی ایسی باتیں کہاں سے آتی ہیں اس کے ذہن میں۔
یہ کہتے وہ وہاں سے چلے گئے۔
اور صفیہ بیگم سمارا کو سمجھانے لگ گئیں۔
۔۔۔۔۔
اگلے روز وہ کالج پہنچی تو اپنی فرینڈز کو سارا قصہ سنا دیا۔
تو اس کی فرینڈز نے اسکی پریشانی کو بےجا کہا۔اور سمجھایا کہ عون اصل میں جیلس ہو گیا ہو گا۔ یہ سن کر سمارا پرسکون ہو گئی۔
_______
وہ خوش تھی کہ عون اس سے غافل نہیں تھا۔
۔۔۔۔
آخر اگزیمز بھی شروع ہو گئے۔ وہ اپنا پہلا پیپر دے کر باہر نکلی تھی جب اس کی فرینڈز بھی آ گئیں اور تینوں اپنے کیے کو شیئر کرنے لگیں۔
ارے سمارا تمہیں پتا ہے علی اس سال پیپرز نہیں دے پائے گا۔ نائلہ نے کہا۔
سمارا اپنی بات کرتی رک گئی اور اس سے پوچھا کہ ایسا کیوں۔
باسط بتا رہا تھا کہ اس رات واپسی پر کچھ لوگوں نے اس پر حملہ کیا اس کا موبائل اور پیسے چھین لیے اور اس کا بازو بھی توڑ دیا۔
میں تو کہتی ہوں اچھا ہوا۔اچھی سزا ملی اسے۔
ایسا نہیں کہو اس کا سارا سال ضائع ہو جائے گا۔ اس کی دوسری فرینڈ نے کہا۔
جب کہ سمارا بھی افسوس کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔
وہ دن بھی آ گیا جس دن اس کی مہندی تھی۔ سمارا بہت کنفیوز تھی۔ خوب ہلہ گلہ ہو رہا تھا۔ اور خوشیوں کے ساتھ اس کی رسم ادا کی گئی۔
۔۔۔۔۔
اگلے دن اس کی بارات تھی۔ اس کے دل میں مختلف جذبات تھے۔ جس وجہ سے سو نہ سکی۔ اور اپنی ماں کے باتیں کرتی رہی۔
۔۔۔۔
عون پاکستان صبح ہی پہنچ گیا تھا۔
اور ایک ہوٹل میں رکا تھا۔ اس کی طرف سے صرف نعیم اور اس کی فیملی کو شرکت کے لیے بلایا تھا۔
اسی رات واپسی تھی اور اگلے دن امریکہ میں ریسیپشن
(reception)
کی ارینجمینٹ تھی۔ جہاں اس کے سب جاننے والے انوائٹڈ تھے۔ اور میڈیا میں بھی اناؤنس کیا جانا تھا۔
کل رات وہ پھر نہیں سو پایا تھا۔
پچھلی بار بھی پاکستان آنے سے پہلے اس کی یہی حالت تھی۔ وہ پروگرام سے پہلے کچھ دیر آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔
۔۔۔۔
ان کا نکاح تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بارات میں قریبی لوگ اور ولیمے میں سب جان پہچان کے لوگ شامل تھے۔
عون گرے رنگ کے ٹکسیڈو
(Tuxedo)
میں کمال لگ رہا تھا۔ اور سمارا پنک اور سلور کلر کے جوڑے میں غضب ڈھا رہی تھی۔
۔۔۔۔
اب کا فنکشن بہت اچھے سے ہوا تھا۔ آخر رخصتی کا وقت بھی آ گیا۔سب نے دعاؤں کے سائے میں اسے رخصت کیا۔
اس کی شادی تو ہو گئی تھی پر کوئی بھی عون کو نہیں جانتا تھا۔ اور نہ کوشش کی گئی تھی۔
۔۔۔۔
اس کی رخصتی ہو کر وہ اس ہوٹل میں آئی تھی جہاں عون رکا تھا۔
تم چینج کر لو آدھے گھنٹے میں ہمیں لاھور کے لیے نکلنا ہے۔ میں تمہیں لے آ جاؤں گا تب۔
بس اتنا کہ کر وہ چلا گیا سمارا کو برا لگا پر شاید وہ اس سے ناراض تھا یہ سوچ کر وہ باتھروم چلی گئی۔
__________
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ اسے لینے آیا تھا۔ ساتھ میں فیضان صاحب بھی تھے۔
بابا آپ یہاں۔ کیا امی بھی آئی ہیں۔
فیضان صاحب سمارا کی بےتابی دیکھ کر مسکرانے لگے۔
ابھی آدھا گھنٹہ ہی تو ہوا ہے تمہیں سب سے ملے ۔ اور ہاں سب آئے ہیں۔ ہم سب ساتهـ لاہور جائیں گے تمہیں چھوڑنے۔
یہ سن کر سمارا خوش ہو گئی۔ اور ان دونوں کے ساتھ باہر چلی گئی ۔
۔۔۔۔
عون تو ساتھ کم سامان ہی لایا تھا۔ اور سمارا کا بھی بیگ چھوٹا ہی تھا ۔ تو سب لاہور ایئر پورٹ کے لیے نکل گئے ۔
عون اور سمارا کی
Seattle airport
کے لیے سیٹ بک تھی۔ فلائٹ کا وقت بھی قریب تھا۔ تو سمارا سب سے گلے ملتی اور روتی رہی۔
جب کے عون سامان کی جیکنگ میں مصروف رہا۔
فلائٹ اناؤنسمنٹ کے بعد وہ صفیہ بیگم اور فیضان صاحب کو تسلی دیتے سمارا کو چلنے کا کہنے لگا۔
چارونا چار اسے جانا ہی پڑا۔
۔۔۔۔
ان کی سیٹ کی بکنگ بزنس کلاس کی تھی۔ سمارا تو کچھ دیر جدائی کے غم سے روتی رہی۔
جبکہ عون اس دوران اس کا ہاتھ تھامے رہا۔
۔۔۔۔۔
جب سمارا کو رونے سے فرصت ہوئی تو اس نے محسوس کیا کہ عون اس دوران ایک بار بھی نہیں بولا تھا۔
لیکن اس نے مسلسل اس کا ہاتھ تھام کے رکھا تھا۔
اب وہ آنکھیں موندھے ٹیگ لگائے بیٹھا تھا۔ تو سمارا اس کے سراپے کا تسلی سے جائزہ لینے لگی۔
وہ بےحد ہینڈسم تھا۔ اپنی قسمت پر رشک کرتی اس کی آنکھ کب لگی اسے اندازہ نہ ہوا۔
۔۔۔
وہ اپنے دوست سے ادھار لی فٹ بال سے کھیل رہا تھا۔ جب اس نے اپنی ماں کی آواز سنی اور وہ بال چھپانے لگا۔
یہ تمہیں کہاں سے ملی بتاؤ مجھے۔
اس کی بازو کو دبوچ کر پوچھا گیا۔
Mommy it hurts۔
سات سال کا وہ بچہ اور سہم گیا تھا۔
میں نے پوچھا کہاں سے ملی تمہیں یہ۔
وہ میرے دوست سے۔
تمہارا دوست تمہارا کوئی دوست نہیں جھوٹ بولتے ہو مجھ سے۔ اب کی بار جھنجھوڑ کر پوچھا گیا۔
وہ وہ نیا ہے سکول میں۔ کچھ کچھ ٹائم پہلے ہی آیا ہے۔ بچے نے خوف سے کانپتے ہوئے بتایا۔
دوست دوست دوست۔۔۔۔
تم دوست نہیں بنا سکتے منع کیا تھا نا تمہیں۔ تم صرف میرے ہو صرف میرے۔ اس کی سزا ملے گی تمہیں۔
وہ دونوں بازوؤں سے اسے پکڑ کر چلا رہی تھی۔ اور پھر اسے کھینچتی اندر لے گئی۔
کچھ دیر بعد کمرے سے کسی کی بیلٹ سے مارنے کی اور ایک بچے کی بلبلا کر رونے کی آوازیں آنے لگیں۔
۔۔۔
سمارا اٹھ جاؤ فلائٹ لینڈ ہونے والی ہے
__________
سمارا کو کوئی جگا رہا تھا جب اس کی آنکھ کھلی تو عون کا چہرہ اس کے بےحد قریب تھا ۔ وہ ہڑ بڑا کر سیدھے ہونے لگی تو اس کا چہرہ عون کے اور قریب آ گیا۔ کیوں کہ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔
سمارا پھر سے آہستہ آہستہ پیچھے ہو گئی جتنا وہ ہو سکتی تھی۔
کچھ دیر عون اسے ہنوز دیکھتا رہا اور پھر سیدھا ہو گیا۔
اسے تو کوئی واضع فرق نہیں پڑا تھا پر سمارا کی سانسیں بکھر گئی تھیں۔
۔۔۔
جب فلائٹ نے لینڈ کیا تو امریکہ میں ابھی رات ہی تھی کیونکہ پاکستان کا وقت امریکہ سے 9 گھنٹے آگے ہے۔
عون سامان پکڑے آگے بڑھ گیا اور سمارا اس کے پیچھے تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر حیران ہو رہی تھی جب عون ایک 60 سال کی عمر کے شخص کے پاس رک گیا جو عون کے نام کا بورڈ تھامے کھڑا تھا۔ اپنی اکسائیٹمنٹ میں اس نے اسے دیکھا ہی نہیں تھا۔ اب دیکھا تو وہ جلدی جلدی آ کر عون کے پاس کھڑی ہو گئی۔
Señiour, señioura
اس نے پہلے عون سے اور پھر سمارا سے سر کو جنبش دیتے ہوئے مخاطب کیا۔
سینیورا میں نے جیسا آپ کو سوچا تھا اس سے بہتر پایا۔
بےشک سینیور کی پسند سب سے عمدہ ہے۔
سمارا اپنی اس تعریف پر صرف مسکرا کر رہ گئی۔
(diego)ڈیےگو۔
سمارا کو امپریس کرنے کے لیے تمہيں بہت وقت ملے گا۔ ابھی ہم تھک چکے ہیں ہمیں پینٹ ہاؤس
(penthouse)
لے چلو۔ Sì sì seniour
کہتے ہوئے اس نے بیگ اٹھائے اور ایئرپورٹ سے باہر چل پڑا۔
عون نے سمارا کا ہاتھ پکڑا اور ڈیےگو کے پیچھے چل پڑا۔ جبکہ سمارا کو لگ رہا تھا کہ ہر کوئی اسے اور عون کو دیکھ رہا ہے ۔ وہ سرخ ہوتی اپنی اتھل پتھل سانسیں درست کرتی رہی۔
۔۔۔
عون کا پینٹ ہاؤس میں ہر طرح کی آسائش کا خیال رکھا گیا تھا۔ پینٹ ہاؤس کو گرے اور بلیک کلر کے کمبینیشن سے سجایا گیا تھا۔
پینٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ایک وسیع ہال تھا۔ ہال کے فرنٹ پر دیوار کی جگہ شیشے لگے تھے ۔ جو کہ فرش سے چھت تک تھے۔ اس سے سیٹل شہر کا منظر کسی کو بھی مدہوش کر سکتا تھا۔ بڑی بڑی عمارتیں روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں۔
ہال کے ایک سائیڈ پر کچن کا دروازہ تھا جب کہ دوسری جانب ایک کوریڈور تھا۔ 4 گیسٹ روم اور ایک ماسٹر روم تھا۔
عون اسے سیدھا ماسٹر روم میں لے گیا۔ وہ اب خود کو عون کے ساتھ اکیلا پا کر گھبرا گئی تھی۔ اس کا روم بھی گرے اور بلیک کلر سے سجایا گیا تھا۔
_________
کمرہ کافی وسیع تھا۔ ہال کی طرح اس کے بھی ایک طرف دیوار کی جگہ شیشے لگے تھے جس کے دوسری جانب ٹیرس تھا۔
کمرے کے وسط میں کنگ سائز بیڈ تھا۔ اس کے علاوہ صوفے تھے۔
دو دروازے تھے جن میں سے ایک باتھروم اور دوسرا وارڈروب کا تھا۔
۔۔۔۔
عون نے سمارا کا بیگ بیڈ کے کنارے رکھ دیا اور اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ جو گھبراہٹ کے مارے اس کی جگہ ادھر ادھر سارے کمرے میں نظریں دوڑا رہی تھی اسے بہت پیاری لگی۔ عون نے سمارا کا نام لے کے اسے پکارا تو وہ اب اسے دیکھنے لگی۔ اس نے اپنا سانس روک لیا تھا یہ بات عون کو محظوظ کر رہی تھی۔
سمارا نے عون کو دیکھا تو وہ بکھرے ہوئے بالوں اور تھکے ہوئے حلیے کے ساتھ اور زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔ اس کی سانسیں وہی رک گئیں۔
تم فریش ہو جاؤ اور پھر سو جانا مجھے کچھ چیزیں چیک کرنی ہیں۔
سمارا جو اسے دیکھنے میں اتنی مصروف تھی صرف سر ہلا سکی۔ عون ایک قدم لیتا اس کے اور قریب آ گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی انگلیوں کی پشت اس کے گال پر پھیرنے لگا۔ سمارا نے آنکھیں بند کر لیں اور بےاختیار ہی چہرہ اس کے لمس کی طرف پھیر لیا۔
عون اپنا ہاتھ ہٹا کر باہر چلا گیا جب کہ سمارا اپنی سانسیں درست کرتی باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔
باتھروم میں داخل ہوتے ہی اس کی چیخ نکلتے نکلتے رکی اور پھر وہ ہسنے لگی۔ وہ باتھروم تھا یا کسی محل کا حمام۔ ایک سائیڈ پر شاور تھا جس کے اردگرد شیشے کی دیواریں تھیں۔ اور ایکطرف جکوزی (jacuzzi)تھا
وہ ایک چھوٹا سوئمنگ پول ہی لگا اسے ۔ پھر وہ شیلوز کی طرف بڑھی جہاں مختلف فریگرینس، مساج آئل،شیمپو، کنڈیشنر باڈی لوشن اور باڈی واش تھے ۔ سب کچھ نیا تھا مطلب اس کے لیے لیا گیا تھا اگر عون یہ سب استعمال نہیں کرتا تھا تو۔
وہ اپنی سوچ پر خودی مسکراتی اپنا نچلا ہونٹ چباتی شاور لینے چلی گئی۔
۔۔۔
عون جب سب کچھ کنفرم کر کے واپس آیا تو سمارا سو چکی تھی۔ وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ گیا اور اپنی بیوی کو دیکھنے لگا۔ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا اور اس کو خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی انگلیوں کی پشت سے اس کا چہرہ چھونے لگا۔ اور پھر آگے بڑھ کر اس کا گال چوم لیا۔
Mon Amour۔
اس نے اندھیرے میں سرگوشی کی اور پھر دوسری سائیڈ پر جا کے سو گیا۔ آج بہت دنوں بعد وہ چین سے سویا تھا۔
مسز عون۔ مسز عون پلیز جاگ جائیں۔