فیضان صاحب کو ان کے والدین اتنے عرصے بعد ملے تھے۔وہ اب انہیں کھونا نہیں چاہتے تھے اس لیے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر جانا۔
۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ نے سمارا کو چائے بنانے کا کہا تھا۔اور اب وہ سب کے لیے چائے بنا رہی تھی۔ آئمہ بھی ساتھ تھی۔
اس نے سمارا کو ایک کپ میں نمک ملاتے دیکھا تو فورأ بولی۔
ارے بجو یہ کیا کر رہی ہیں۔
چائے بنا رہی ہوں سمارا نے بھی دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پہ سجاتے ہوئے کہا۔
مگر۔۔۔۔
اگر مگر چھوڑ اور راستہ دو مجھے۔ وہ آئمہ کو راستے سے ہٹاتی چائے کی ٹرے لے کر آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔
سمارا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب سے سلام لیا اور عون کو نظریں بچا کر دیکھنے لگی۔اور ساتھ میں سب کو چائے پیش کرنے لگی۔
نمک والا کپ عون کے سامنے رکھ کر خود ایک طرف کھڑی ہو گئی۔
جیسے ہی عون نے نمک والی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اس کا ہلک نمک سے کڑوا ہو گیا۔
جب کے سمارا کھڑی دل میں خود کو داد دینے لگی۔
عون نے اپنی نظریں گھوما کر تب سے پہلی بار سمارا کو دیکھا۔
اس کی نظروں میں موجود غصہ دیکھ کر سمارا کی ساری خوشی ہوا ہو گئی۔
اس نے خود کو قابو میں رکھنے کے لیے اپنی مٹھی کو زور سے بند کر رہا تھا۔ اس کی نظریں صاف طور پر سمارا کو ایسی حرکت دہرانے سے منع کر رہی تھی۔
جب سمارا مزید اس کی نظروں کی تاب نہ لا سکی تو نیچے دیکھنے لگی۔
اور شرمندہ شرمندہ سی باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔
عون نے فیضان صاحب کے ساتھ جب سب کچھ طہ کر لیا تو نعیم کے ساتھ واپس آ گیا۔
اسے سمارا کی حرکت پر غصہ تو بہت آیا تھا مگر برداشت کر گیا۔
اگر اس نے یہ حرکت شادی کے بعد کی ہوتی تو وہ اسے اس کی سزا دیتا کہ وہ پھر ایسا کرنے کی سوچ سے بھی کانپ اٹھتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مومی مومی پلیز مت کریں مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔
پانچ سال کا بچہ شدت سے روتے ہوئے اپنی ماں سے التجا کر رہا تھا۔ جب کہ اس کی ماں اپنی ہی دھن میں کھوئی اس بچے کی بازو پر چھری سے کچھ لکھ رہی تھی۔
آ ہ ۔۔۔ مومی پلیز بس کر دیں۔ وہ زاروقطار روتا اپنے چھوٹے سے دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کر کے پھر سے جلدی سے وہ ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپا لیتا کہ کہیں اس کی ماں وہ ہاتھ بھی نہ پکڑ لے۔
But mommy loves you۔ Don't you love momma ?
Yes yes i love you mommy۔
بچے کی طرف سے روتے ہوئے کہا گیا۔
تو پھر موما کو کیسے پتا لگے گا کہ تم اس سے پیار کرتے ہو۔
______
اس کے درد آنسو اور کلائی سے بہتے خونِ سے لاپروا وہ پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔
۔۔۔۔۔
وہ دو دن کیسے گزر گئے اور نکاح کا وقت بھی آ گیا کسی کو کام میں پتا بھی نہ لگا۔
عون نے اپنے وعدے کے مطابق ہر چیز کا انتظام کیا تھا۔
سمارا کے لیے خوبصورت جوڑے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔
دادی کے کمرے میں سمارا کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔ اور مبارک کے بعد سب مہمانوں کی تواضع کی گئی۔
۔۔۔۔۔
سمارا جہاں باقی سب کے ساتھ اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔ وہیں ایک انجان خوف اس کے دل میں گھر کر بیٹھا تھا۔
صفیہ بیگم تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔
اس کے بابا اور باقی سب بھی تو بہت خوش تھے۔
کسی نے نہ سوچا تھا کہ اس کی قسمت اتنی تیز نکلے گی۔
شاید وہ فضول ہی خدشے پال رہی تھی۔ اس نے ذہن سے اپنے خیالات جھٹکے اور خود بھی ان کے ساتھ خوش ہونے لگی۔
۔۔۔۔
اگلے دن عون کی واپسی تھی۔ سب گھر والوں کے ساتھ وہ بھی آئی تھی لاہور ایئرپورٹ۔
جب اس کی فلائٹ کا وقت آیا تو وہ سب سے مل کر ٹرمینل کی طرف بڑھ گیا۔
صرف سمارا سے ہی تو نہیں ملا تھا۔
ارے یہ کیا بات ہوئی سب سے ملا مجھ سے نہیں۔
ہاں ہاں میں لگتی کون ہوں موصوف کی۔
ہاتھ سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ خود سے ہم کلام تھی۔
اپنے دل کو بہلاتے ہوئے گاڑی میں باقی سب سے پہلے آ بیٹھی۔
نعیم بھی پیچھے چلا آیا تھا۔
بی بی جی یہ صاحب نے مجھے آپ کو دینے کو کہا تھا۔
وہ سرخ رنگ کی ایک ڈبیہ اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔
سمارا نے جب اسے کھولا تو اندر ایک خوبصورت قیمتی گھڑی تھی۔
ساتھ میں ایک کارڈ بھی تھا جس پر خوبصورت لکھائی میں
Wait For Me
لکھا تھا۔
اس نے وہ گھڑی فورأ نکال کر پہن لی۔ ایک ہی لمحے میں وہ گھڑی اس کے لیے کتنی اہم ہو گئی تھی۔ اور باقی سب بھول گئی تھی۔
اور پتا بھی نہ چلا اسے کہ وہ عون کا انتظار تو تبھی سے کرنے لگی تھی جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
عون جب Seattle
ایئر پورٹ پر پہنچا تو اپنا سامان لے کر باہر کی طرف بڑھنے لگا۔
اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ شادی کر چکا ہے۔
پہلی ہی نظر میں وہ اسے بہت پیاری لگی تھی۔
کالے گھنے بال نیلی آنکھیں جنہیں دیکھتے ہی وہ اس کا اسیر ہو گیا تھا۔
قد میں وہ بس 5 فٹ تھی لیکن اس کی خوبصورتی یہ کمی پوری کر دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔
عون کو امید تھی کہ کوئی اسے لینے آیا ہو گا۔
________
وہ کوئی جانا پہچانا چہرہ ڈھونڈ رہا تھا۔جب وہ ایک آواز سے چونک کر اس کی طرف بڑھ گیا۔
Hey Christopher what are you doing here?
اس نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا۔
میں تمہیں پک کرنے آیا ہوں۔
کیوں اور diego
کہا ہے۔ وہ کیوں نہیں آیا۔
اصل میں مجھے تم سے کام ہے اس لیے تم سے ملنا تھا تو سوچا تمہیں پک کر لوں۔
کیا کام ہے عون نے باہر جاتے ہوئے پوچھا۔
اصل میں جو نیا ہوٹل ہے اس میں کیٹرنگ سروس کا کچھ مسئلہ ہے اور ان کا کہنا ہے وہ تم سے ہی مل کر حل ہو گا۔
اگر ایسے چھوٹے مسئلے بھی مجھے حل کرنے ہیں تو تم لوگوں کی کیا ضرورت ہے مجھے۔
اصل میں ہوا کچھ ایسے کہ اس کمپنی کی سی۔ای۔او ایک خوبصورت لڑکی ہے۔اور اسے امپریس کرنے کے چکر میں میں نے یہ کہ دیا کہ تم میرے بہت اچھے دوست ہو ۔ تو اس لڑکی نے اب ضد ہی پکڑ لی ہے کہ تم اس سے ملو۔
عون کے اٹھتے ہوئے قدم ایک دم رک گئے اور وہ کرسٹوفر کو دیکھ کر کہنے لگا۔
میں نے تمہيں کتنی بار کہا ہے کہ ہم دوست نہیں ہیں۔ تم صرف میرے کولیگ ہو سمجھے۔
اوکے بوس پر اس سے مل لو
i am sure you will like her۔
I am married, Christopher۔
Whaaaat۔ When۔ Why۔ To whom۔
بس کل ہی۔
کیا مطلب بس کل ہی۔
مطلب تمہیں وقت پر پتا لگے گا۔ اور اس بارے میں کسی سے بات نہیں کرو گے تم۔ ورنہ یہ میڈیا فضول میں پیچھے پڑ جاتی ہے۔
اور ہاں یہ کیٹرنگ والا مسئلہ سنبھالو ورنہ اپنے لیے کوئی نئی جوب ڈھونڈ لو۔
یہ کہتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔
فیضان صاحب کچھ اور دن گاؤں میں رہ کر اب واپس فیصل آباد آ گئے تھے۔
سمارا کو لگا تھا کہ عون اس کو امریکہ جا کر کال کرے گا مگ ایسا نہیں ہوا تو وہ بہت اداس رہتی تھی۔ اس نے کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ کسی کو اتنا چاہ سکتی ہے۔
الله نے واقعی بہت طاقت رکھی ہے نکاح کے دو بول میں۔
اس نے اپنی فرینڈز کو بھی بتایا تھا اور کالج سٹارٹ ہونے کے بعد انکو ٹریٹ دینے کا پرومس بھی کیا تھا۔
عون کا فون تو نہیں آیا لیکن سمارا کے لیے اس کی طرف سے ہر ماہ پیسے ضرور آنے لگے۔ بقول اس کے وہ اب اس کی زمہ داری تھی۔
پہلے تو فیضان صاحب نے انکار کیا پر پھر ماننا ہی پڑا۔
ان تینوں کی فیس ان پیسوں سے ادا کی جانے لگی۔ اور سمارا خوش تھی کہ اسے جو پسند آتا وہ لے لیتی اور پوکٹ منی بھی کافی بڑھ گئی۔
فیضان صاحب کی ایک چھوٹی سی دوکان تھی۔
________
ان پیسوں کے آنے سے انہیں کافی آسانی ہونے لگی۔
کالج کلاسز دوبارہ سٹارٹ لو گئیں اور وقت اپنی رفتار پر گزرے لگا۔
چھ مہینے کیسے گزر گئے کسی کو پتا نہ لگا۔
اب سمارا کو ایک نئی ٹینشن ہونے لگی کہ وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر نہیں جائے گی۔
صفیہ بیگم اس کی اداسی سمجھ گئی اور سمجھانے لگی کہ ایک دن تو ایسا ہونا ہی تھا۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا اور اگزیمز شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا۔
سمارا کے سب کلاس فیلو نے اسی شام فرائی چکس جانے کا پروگرام بنایا۔
تو سمارا کیسے پیچھے رہتی۔وہ بھی تیار ہو کر چلی گئی۔
سٹوڈنٹ گروپس کی شکل میں موجود تھے۔ سب لڑکے اور لڑکیاں آخری دن انجوائے کر رہے تھے۔
وہ بھی اپنی فرینڈز کے ساتھ مصروف تھی کہ اس کا ایک کلاس فیلو علی آ کر گٹھنوں کے بل اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
سمارا اور اس کی فرینڈز حیرانگی کے مارے کچھ کہ نہ پائیں۔
سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے۔ تو سمارا نے حوش سنبھالتے ہوئے اسے کہا۔
یہ کیا کر رہے ہو علی اٹھو یہاں سے۔
سب دیکھ رہے ہیں۔
سب دیکھ رہے ہیں تو دیکھنے دو۔
میں تم سے بہت عرصے سے اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا۔
دیکھو تمہیں جو بھی کہنا ہے کھڑے ہو کر بات کرو۔
جب وہ نہیں مانا تو سمارا کھڑی ہو کر پیچھے ہٹنے لگی تو علی نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
وہ جو پہلے ہی شرمندگی سے سرخ ہو رہی تھی اب غصہ ہونے لگی۔
یہ کیا بیہودگی ہے چھوڑو مجھے۔
چھوڑ دیتا ہوں لیکن میری بات سن لو۔
میں تمہیں پہلے دن سے چاہتا ہوں ہمیشہ تمہیں بتانا چاہتا تھا پر ہمت نہ ہوئی پر میں آج کا دن مس نہیں کرنا چاہتا۔
میرا نکاح ہو چکا ہے اب چھوڑو مجھے۔
علی یہ سن کر حیرانگی سے کھڑا ہو گیا ۔ یہ کیا کہ رہی ہو تم۔
اس کے نکاح کی خبر اس کی قریبی دوستوں کے علاوہ کسی کو نہیں تھی۔
اس لیے سب کے لیے یہ بات نئی تھی۔
تم جھوٹ کہہ رہی ہو۔
مجھے کوئی ضرورت نہیں جھوٹ کہنے کی۔ ہاتھ چھوڑو میرا تم۔
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ سمارا کا فون بجنے لگا۔
علی اب شرمندہ سا پیچھے ہٹ گیا۔
سمارا نے غصے میں فون بنا دیکھے اٹھایا اور اسی غصہ میں ہیلو بولی۔
جب کچھ دیر دوسری طرف سے جواب نہ آیا تو وہ کال کاٹنے لگی۔ پر ایک دم آواز سن کر رک گئی۔
اپنا ۔ سامان۔ اٹھاؤ۔ اور۔ گھر ۔جاؤ
ایک ایک لفظ نہایت ٹھہر ٹھہر کر اور غصہ سے بولا گیا تھا۔