عون کی خواہش کے مطابق نعیم اسی شام حسین صاحب کے گھر پہنچ گیا تھا۔
ارے نعیم تم یہاں کیسے حسین صاحب نے دیکھتے ہی پوچھا۔
ویسے ہی یہاں سے گزر رھا تھا تو سوچا ملتے جاؤں۔ سنا ہے آپ کا بیٹا آیا ہوا ہے شہر سے۔
اتنے میں فیضان بھی آ گئے۔ یہ ہے میرا بیٹا اپنے سب بال بچوں سمیت آیا ہے۔
اچھا اچھا تو یہ ہے آپ کا بیٹا نعیم نے ملتے ہوئے کہا۔
ارے نعیم یہ تو بتاؤ حویلی میں آگ کیسے لگی۔
بس کیا بتاؤں ابھی تک کچھ پتا نہیں لگا۔
میں نے سنا تھا کہ حویلی کا مالک بھی آیا ہوا تھا۔ حسین نے پوچھا۔
جی وہ بھی آئے ہیں۔ بہت ہی قابل انسان ہے۔
صرف 35 سال کی عمر میں انہوں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ قابل تعریف ھے۔
بلکہ میں انہی کا ایک پیغام لایا ہوں۔
یہ سنتے ہی حسین اور فیضان ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
اچھا کیا پیغام لائے ہو۔ پوچھا گیا۔
وہ اصل میں عون صاحب آپ کی بیٹی سمارا سے شادی کے خواہش مند ہیں۔ اگر ان کے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہوتا تو وہی آتا۔
ارے یہ کیا کہ رہے ہو۔ وہ سمارا کو کیسے جانتا۔
ایک دو بار گاؤں میں چہل قدمی کرتے دیکھا تو پسند آ گئی ہو گی بچی۔
وہ تو ٹھیک ہے پر ہم تو جانتے بھی نہیں کہ کیسا انسان ہے کیا کردار ہے اسکا۔ حلال کماتا ہے یا حرام آخر یہ میری بچی کا سوال ہے۔
آپ کے سوال جائز ہیں۔ لیکن جب سے وہ یہاں آئے ہیں میں ان کے ساتھ ہوں۔ کم گو ہیں لیکن صاف کردار کے ہیں۔ ہوٹلوں کا کاروبار ہے۔
آپ کو فوری جواب نہیں دینا کچھ وقت سوچ کر جواب دے دیں۔
یہ کر نعیم وہاں سے چلا گیا اور ان دونوں کو گہری سوچ میں ڈال گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں نے جو کہا تھا وہ آپ نے کیا نعیم۔
جی صاحب میں گیا تھا پر ابھی انکو کچھ وقت چاہئیے فیصلہ کے لیے۔
وقت۔۔۔وقت ہی تو نہیں ہے میرے پاس مجھے جلد از جلد واپس جانا ہے۔
خیر اب تم جاؤ کل ملاقات ہو گی۔
جی صاحب۔
ارے رکو تمہيں کچھ دینا تھا۔یہ لو۔
یہ کیا ہے صاحب میں ان پڑھ ہوں۔
یہ حویلی کے کاغذات ہیں وہ جگہ اب تمہارے اور ملازمین کے نام ہے تم لوگ جو چاہو وہ کر سکتے ہو۔
یہ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں صاحب ہم سب کے نام ۔ آنکھوں میں آنسو لے کر کانپتی آواز میں پوچھا گیا۔
ہاں وہ جگہ میرے کسی کام کی نہیں تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ تم لوگوں کے کچھ کام آ جائے۔
پر پر صاحب وہ تو کروڑوں کی جگہ ہے۔ بے یقینی سے پوچھا گیا۔
______
نعیم میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں ساری زندگی لٹاتا رھوں تو بھی ختم نا ہو۔ انتہائی لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا گیا۔
اب تم جاؤ۔
نعیم کو تو اپنی قسمت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کوئی اتنا سخی آ ج کل کے زمانے میں کیسے ہو سکتا تھا۔
یہی سوچتا ہوا وہ وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
نعیم اگلے دن واپس فیضان صاحب سے ملنے گئے تھے۔
ارے نعیم میں نے تو ابھی اس بارے میں تفصیل سے نہیں سوچا۔
ارے میں کہتا ہو سوچنے میں وقت مت ضائع کریں وہ تو بہت سخی انسان ہے۔
یہ دیکھیں اس نے حویلی کی زمین ہم سب ملازمین کے نام کر دی ہے۔
ارے جسے غیر کی اتنی فکر ہو وہ اپنی بیوی کا کتنا خیال رکھے گا۔ راج کرے گی آپ کی بیٹی راج۔
یہ کیا کہ رہے ہو جھلے تو نہیں ہو گئے زرا دیکھ فیضان کیا یہ سچ کہ رہا ہے۔
فیضان صاحب نے کاغذات دیکھ کر باپ سے کہا یہ سچ کہ رہا ہے۔
مگر وہ ایسے کروڑوں تم سب کو کیوں دے گا۔
ارے فرشتہ ہے وہ فرشتہ رب اسے ہمیشہ خوش رہے۔
قسمت والی ہے تمہاری بیٹی۔
نعیم عون کو دعائيں دیتا وہاں سے چلا گیا۔
ارے فیضان پتا تو کرو اس عون کے بارے میں اگر یہ واقعی ایسا ہے تو ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔ جی ابا جی اب تو واقعی پتا کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔
حمزہ کو بلواہ کر انٹرنیٹ سے جتنی ہو سکے اتنی معلومات اکٹھی کی گئی تھی۔
اس کی عمر 35 سال تھی۔ باپ کے بزنس کو اس نے کم عمری میںی سنبھالا تھا۔ اور اب انٹرنیشنل لیول پہ paradise نامی ہوٹل چین تھی۔
_________
باپ بچپن میں ہی ایک حادثے میں گزر گیا تھا۔ اور ماں بھی 15 سال پہلے اچانک چل بسی۔
وہ اپنے بزنس کے علاوہ بہت بڑی رقم میں چیریٹی کرنے کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔
ہر جگہ پر اس کی تعریفوں نے فیضان صاحب کو متاثر کیا اور صفیہ بیگم سے مشورے کے بعد نعیم کو فون کر کے شام کو عون کو آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بجو میری جائے گی پیا گھر بجو میری!
حمزہ سمارا کے گرد چکر لگاتے گنگنا رہا تھا۔
ارے کیا ہو گیا کیا اول فول کہ رہے ہو۔ تنگ آ کر پوچھا گیا۔
بابا جان آپ کی شادی کرنے والے ہیں کل بلایا ہے آپ کے ہونے والے شوہر کو۔
سمارا جو سوئی ہوئی دادی کی ٹانگیں دبانے میں مصروف تھی فوری اٹھ کھڑی ہوئی۔
یہ تم کیا کہ رہے ہو اور کیوں کہ رہے ہو۔
بس امی بابا اور دادا جان کی باتیں سن کر آ رہا ہوں۔
اور پتا ہے اس کی معلومات بھی کر چکا ہوں۔
ہیں۔۔۔۔ کون ہے کہاں سے ہے کیسا ہے بتاؤ مجھے۔
یہ تو آپ کو کل پتا لگ جائے گا۔
کہتے ہوئے حمزہ کمرے سے باہر بھاگا اور سمارا بھی اسے رکنے کا کہتے ہوئے پیچھے بھاگی۔
۔۔۔۔۔
سمارا کی رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ امی بابا سمیت کوئی اسے کچھ بتانے کو تیار نہ تھا۔ کون ہے وہ کیا یہیں کا ہے میں یہاں کیسے رہ پاؤں گی۔ کیا ہو گا کل یہی سب سوچتے ہوئے رات گزر گئی۔
صبح کا نکھرا ہوا اجالا ہونے لگا تھا اور۔اسی کے سات اس کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔
۔۔۔۔
شام ہو چکی تھی گھر میں سب نعیم اور عون مرزا کا انتظار کر رہے تھے۔
سمارا آئمہ کور حمزہ بھی چھپ چھپ کر اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
عون اور نعیم اس چھوٹے سے گھر کے سامنے پہنچ چکے تھے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی سب کا دھیان عون کی طرف خودبخود ہوا تھا۔ اس کی پرسنیلٹی کچھ ایسی تھی۔ جہاں جاتا تھا لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیرنہ رہتے تھے۔
اسلام علیکم!
عون نے بلند آواز میں سب سے سلام لیا تھا۔
ارے آؤ آؤ بیٹے۔ فیضان صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا اور پھر اسے لے کر ایک کمرے میں بڑھ گئے۔
حسین صاحب اور صفیہ بھی ساتھ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔
واؤ۔۔۔۔ Mesmerising
آئمہ کے منہ سے عون کو دیکھ کر بے اختیار نکلا۔
سمارا نے آئمہ کی طرف دیکھا جو ابھی بھی منہ کھولے عون کو دیکھ رہی تھی۔
سمارا نے غصہ سے اسے چٹکی کاٹ کر ہوش دلایا تھا۔
آؤ چ سوری بجو۔ آپ تو جیلس بھی ہونے لگی۔
________
چپ کر اور منہ بند کر سیلاب لائے گی کیا۔
سمارا کی طرف سے بڑی بہن ہونے کا فرض ادا کیا گیا۔
ہی ہی ہی کرتے ہوئے آئمہ نے اپنے منہ ھے ٹپکتی رال کو صاف کیا تھا۔
وہ تینوں چھپ کر عون کو دیکھ رہے تھے جو اب کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔
یہ تو وہی ہے جس سے میں اس دن ٹکرائی تھی۔
کیا بابا اس سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ سمارا کے دل میں تو لڈو پھوٹ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
عون صاحب مجھے نعیم کے زریعے آپ کا پیغام ملا۔ جہاں میں آپ سے متاثر ہوں وہی میں یہ بات نظر انداز نہیں کر سکتا کہ آپ کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔
آپ کی پریشانی جائز ہے۔
اگر آپ کو خوف ہے کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھوں گا تو آپ یہ سوچ ختم کر دیں مجھ سے زیادہ خوش اسے کوئی نہیں رکھ پائے گا اور میرے ساتھ اسے کبھی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اور اگر ڈر اس بات کا ہے کہ میں شراب یا جوے جیسی چیز کا عادی تو نہیں۔
تو میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسے کبھی چھوا تک نہیں۔
اور جہاں تک جوے کی بات ہے تو اگر میں اس کا عادی ہوتا تو میرا بینک بیلنس آج زیرو ہوتا۔
انتہائی اطمینان سے ایک ہی بار میں تمام خدشے دور کیے گئے تھے۔
اور ان سب کے چہروں سے وہ مطمئن بھی لگ رہے تھے۔
وہ لاکھوں ڈولرز کو ڈیل کرنے والے کے لیے ان سادہ لوگوں کو مطمئن کرنا بہت آسان تھا۔
یہ تو ٹھیک ہے پر سمارا ابھی پڑھ رہی ہے۔ جب تک اس کی گریجویشن نہیں ہو جاتی میں اس کی شادی نہیں کر سکتا۔
حسین اور صفیہ نے بھی حامی بھری تھی۔
کتنا وقت ہے اس میں۔
ایک سال جواب صفیہ نے دیا تھا۔
مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن میں نکاح جلدی ہونے پر اسرار کروں گا۔
کتنی جلدی حسین صاحب نے استفسار کیا۔
دو دن بعد میری واپسی کی فلائٹ ہے تو اس سے پہلے۔
کیا !!! اتنی جلدی یہ سب میرے لیے ناممکن ہے۔ میں ایک مڈل کلاس انسان اتنی جلدی یہ سب نہیں کر سکتا۔
اگر آپ رضا مندی کا اظہار کر دیں تو نکاح کی سب تیاری میں کرنا چاہوں گا۔
نھیں نہیں ۔۔
آپ جیسا مناسب سمجھیں ہم پرسوں نکاح کے لیے تیار ہیں۔
حسین صاحب نے اپنے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
پر ابا جان!
میں نے کہا نا ہم تیار ہیں۔ حسین صاحب نے پھر سے اپنی پر زور دے کر کہا ۔
جس سے فیضان کو خاموش ہونا پڑا۔
کئی سالوں کی ریاضت کے بعد انہیں اپنے ماں باپ کا ساتھ دوبارہ ملا تھا۔