پاؤں کے استعمال سے اس نے گن کو دور پھینک دیا۔
پابلو خود کو سنبھالتا کھڑا ہو گیا۔
بارش کی وجہ سے کیچڑ پہ اس کا سنبھلنا مشکل ہو گیا۔
پابلو کیونکہ عون سے بھاری جسم کا تھا تو اس نے عون کو دھکا دے کر گرانا چاہا۔
لیکن عون عین وقت پہ اس کے راستے سے ہٹ گیا اور اس کی ٹانگ پر زور دار کک کی۔
پابلو کا پاؤں کک کی وجہ سے پھسل گیا اور وہ گھٹنوں کے بل گر گیا۔
اس سے پہلے کہ وہ کھڑا ہوتا عون نے اس کی ٹانگ پر چاقو سے وار کیا۔
پابلو چیختے ہوئے خون کو روکنے لگا۔
مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے۔ عون اس کے سامنے چہرہ کئے پوچھ رہا تھا۔
بارش زور سے برس رہی تھی۔ اور خون ساتھ بہائے لے جا رہی تھی۔
جواب میں دیری کی وجہ سے عون نے اس کے کندھے کے مسلز کو کاٹ دیا جس سے پابلو کی بازو بےکار ہو گئی۔
بادل کی گرج میں اس کی چیخیں کسی زخمی جانور کی طرح لگتیں۔
۔۔۔
قبر میں پانی اور مٹی بھرتی جا رہی تھی۔ عنقریب ہی وہ اس دلدل میں ڈوب جاتی۔
سمارا نے اپنی کہنیاں پھیلا لیں اور قبر کے دیواروں میں پھسا کر خود کو اوپر کرنے لگی۔
تھوڑا سا ہی اوپر اٹھی تھی جب مٹی کے نرم ہونے کی وجہ سے وہ واپس گر گئی۔
وہ اپنا منہ بار بار اوپر کر کے سانس لیتی۔
پانے کے ساتھ آنے والی مٹی نے اس کو اندر ہی دبا دیا تھا۔
اسے لگا یہ اس کے آخری لمحے ہیں۔
پانی اس کی کے وجود سے اوپر تک بھر گیا تھا۔
اور وہ مکمل طور پہ ڈوب گئی تھی۔
سانس بھی اکھڑنے لگا تھا۔ آخر کار اس کا سانس ٹوٹ گیا جب کسی نے اسے گریبان سے پکڑ کر باہر کھینچا۔
۔۔۔
جب اسے ہوش آئ تو وہ گاڑی میں بیٹھی تھی۔
اس کے بالوں اور کپڑوں پر مٹی جم چکی تھی۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تو ڈرائیو کرتے عون کا دھیان اس کی طرف ہو گیا۔
وہ اسے مسکرا کر دیکھنے لگا۔ خوبصورت مسکراہٹ جان لیوا مسکراہٹ۔
اس کی گال سہلانے لگا۔ اس نے دیکھا کہ عون بھی کیچڑ سے بھرا پڑا تھا۔
وہ اسے کچھ کہنا چاہتی تھی پر کچھ نہ بول پائی۔
اور دوبارہ اندھیری وادیوں میں کھو گئی۔
۔۔۔
جب اسے ہوش آئ تو وہ کسی سوکھی گھاس کے ڈھیر پر لیٹی تھی۔
عون بھی اس کے پاس بیٹھا تھا اس کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔
سمارا نے دیکھا تو اس کے بال اور چہرے پر اب مٹی نہیں تھی۔
عون ہوا میں کسی جگہ کو گھور رہا تھا۔
وہ اٹھ کر بیٹھی تو اس کی نظر سائیڈ پر رکھی عون کی شرٹ اور چاقو پر پڑی۔
باہر ابھی بھی بارش ہو رہی تھی۔
______
ہم کہاں ہیں؟
اس کی بات سے عون اس کی طرف متوجہ ہوا۔
بارش کی وجہ سے واپسی کے راستے بند ہو گئے ہیں۔
مجھے یہ فارم ہاؤس دکھا تو میں یہاں لے آیا۔
اس کا کیا ہوا؟
عون جانتا تھا وہ کس کا پوچھ رہی ہے۔
اس نے پابلو کو دونوں بازوؤں سے معزور خون میں لت پت وہیں چھوڑ دیا تھا۔ اس کے چہرے سے اسے پہچاننا ناممکن تھا۔
اب تک وہ خون کی کمی سے مر گیا ہو گا یا پھر کسی جنگلی جانور کا شکار بن چکا ہوگا۔
اس کے بارے میں اب کبھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
سمارا جانتی تھی اس بات کا مطلب اسے مارتھا کا بےجان چہرہ یاد آیا۔ ان بےچاری لڑکیوں کا جنہوں نے نجانے کتنے خواب دیکھے ہوں گے۔
اور سب سے زیادہ میکس لوفین اور حارث کا۔
اس کا بھی قتل کر دیا نا جیسے مارتھا اور باقی سب کا کیا۔ سمارا نے اسے نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
مارتھا کا؟
ہاں مارتھا کا میں نے دیکھا تھا نیوز میں۔
میں نے اسے نہیں مارا۔
جھوٹ جھوٹ کہ رہے ہو تم۔ یہ عون جھوٹ کیوں کہ رہا تھا۔
اس کی گردن پہ بلکل ایسا ہی نشان تھا۔ اس نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
میں اس سے ملنے گیا تھا کہ تم سے دور رہے۔ لیکن وہ نہیں مانی۔ اسے خوف زدہ کرنے کے لئے یہ نشان بنایا تھا۔
لیکن میں نے اسے قتل نہیں کیا اس کے گھر چوری ہوئی تھی اور وہ اس دوران قتل ہوئی۔
مارتھا مجھے عزیز تھی میں اسے کبھی قتل نہیں کر سکتا۔
سمارا اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔
اور وہ لڑکیاں جن کو بےدردی سے قتل کیا۔
ان کے قتل میں میرا ہاتھ ضرور تھا لیکن انہیں قتل ڈیےگو نے کیا تھا۔
کک کیا مطلب۔
وہ اب سمارا کو دیکھنے لگا۔
تمہارے جانے کے بعد میں خود پر قابو کھو بیٹھا۔ اور مجھے ان میں تم نظر آنے لگی۔ اس وحشت کو دور کرنے کے لئے میں انہیں وہ نشان دینے لگا اور ٹارچر کرنے لگا۔
مجھے بچانے کے لئے ڈیےگو کو انہیں قتل کرنا پڑا۔
کتنے آرام سے وہ خود کو مبرا کر رہا تھا۔
وہ سب معصوم تھے۔
معصوم تو میں بھی تھا وہ غصہ سے بولا اور سمارا نے انکھیں بند کر لیں۔
ان سب کا کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی لوفین میکس اور حارث کا۔
انہوں نے تمہیں مجھ سے دور کیا اور یقین کرو Mon Amour
ان کی موت نے مجھے بہت سکون دیا۔
سمارا کی آنکھوں سے انسو بہنے لگے۔ وہ سب لمحے اس کے سامنے گردش کر رہے تھے ۔
آپ ایسے کیوں ہو عون کیوں۔
وہ کبھی بھی خود کی کمزوری کا اعتراف نہ کرتا۔
_______
کچھ سوچ کر وہ عون پہ جھک گئی اور اپنی پیشانی اس کی پیشانی پہ ٹکا دی۔ عون نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
اسے قریب پا کر وہ کتنا پرسکون ہو جاتا تھا۔
کیا آپ کوکبھی افسوس نہیں ہوا نہیں۔
آئندہ ایسا مت کرنا۔
اس کی بات سے وہ استہزائیہ مسکرایا۔
کیوں نہیں اگر ضرورت پڑی تو میں تمہیں پھر اس اندھیری جگہ قید کر دوں گا۔
سمارا کو وہ سب تکلیف اور تزلیل دبارہ یاد آ گئی۔
کاش ہم ہم نا ہوتے۔ کسی اور حال میں کسی اور جگہ ملے ہوتے۔
یہ کہ کر وہ سیدھی ہو گئی۔
عون نے کوئی چمکدار چیز اپنی طرف بڑھتی دیکھی۔
وہ کجھ کر پاتا لیکن اسے بہت دیر ہو گئی تھی۔
اس کی گردن اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔ وہ اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
سمارا رونے لگی اور ہاتھ سے چاقو چھوڑ دیا۔
اس نے اپنے پیٹ پر کچھ نوکیلا محسوس کیا اور پھر خون کے کچھ بہتے ہوئے قطرے۔
چاقو عون کے ہاتھ میں تھا اور اس کی نوک سمارا کے پیٹ پر۔
وہ اسے مار سکتا تھا لیکن اس نے اپنے ہاتھ سے چاقو چھوڑ دیا۔
اسے اس بات کی سمجھ اب آئی تھی کہ وہ کبھی بھی اسے مار نہیں سکتا تھا۔
سمارا کے کپڑے اور چہرہ اس کے خون سے بھرے ہوئے تھے۔
آخری لفظ جو اس نے عون کے منہ سے سنے اس سے وہ بےاختیار رونے لگی۔
Viva ti
(live a beautiful life)
۔۔۔
چھ سال بعد۔۔۔
وہ دونوں اکثر یہاں آتے تھے۔
آج بھی وہ اس سے ملنے آئے تھے۔
ماما کیا بابا مجھے چاہتے تھے۔
اس کی بات سے سمارا مسکرا اٹھی۔
وہ آپ کو بہت چاہتے تھے میری جان۔
اس کی بات سے وہ پرسکون ہو گیا پر پھر پوچھنے لگا۔
کیا وہ آپ کو چاہتے تھے ؟
ہاں وہ مجھے بھی چاہتے تھے۔
کتنا؟
اتنا کہ وہ میرے لیے ساری دنیا سے لڑ جاتے۔
سمارا نے جھک کر اس کا سر چومتے ہوئے کہا۔
پھر ننھے انس کا ہاتھ تھامے قبرستان کے بیرونی راستے پر چل دی۔
ختم شد