کتوں کے بھونکنے کی آواز سے وہ سب کچھ بھول گئی۔
وہ اسے کھینچتے ہوئے بیسمنٹ میں لے گیا۔
بیسمنٹ میں 6 شکاری کتے گھوم رہے تھے۔
انہیں دیکھ کر وہ عون کی منتیں کرنے لگی۔
نہیں عون نہیں۔کچھ بھی کچھ بھی پر یہ نہیں۔
لیکن عون کو کوئی فرق نہ پڑا۔ بیسمنٹ کے بیچ میں ایک پنجرہ بنا تھا۔
اس کی سلاخیں فرش میں گاڑی گئی تھیں۔
وہ اسے کھینچتا ہوا اس کے پاس لے گیا سمارا کو اس پنجرے میں دھکا دے دیا۔
وہ گھٹنوں کے بل اس میں داخل ہوئی۔
عون میں مر جاؤں گی یہاں میں مر جاؤں گی۔
مجھے یہاں نہیں چھوڑو پلیز عون۔
یہ تمہیں پہلے سوچنا چاہئیے تھا۔
ویسے ایک اڈوائس ہے سلاخوں سے دور رہنا ورنہ یہ نوچ کھائیں گے۔
اس نے وہاں ایک نظر دوڑائی تو وہ ان کے جکر لگا رہے تھے لیکن قریب نہیں آ رہے تھے۔
سمارا کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ خوف نے اس کی عقل ختم کر دی۔
عون پلیز نہیں کریں۔
عون کو دروازہ بند کرتے دیکھ کر اس نے کہا۔
لیکن وہ پنجرہ لاک کرتے بیسمنٹ کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا جبکہ سمارا اس کا نام چلاتی رہی۔
۔۔۔
عون کے جانے کے فورأ بعد وہ کتے اس کی طرف جھپٹے۔ سمارا چلاتی سلاخوں سے دور ہو گئی۔
بلب مدہم سی روشنی ان پر پھینک رہا تھا۔
وہ خوفناک جانور اسے گھورتے چکر لگا رہے تھے۔
کتنی عجیب بات تھی وہ قید تھی اور جانور آزاد۔
عون نے اسے اس کی اوقات دکھا دی تھی۔
پنجرے کے درمیان میں سمٹی وہ کانپ رہی تھی۔
پاگل پن سے چلانے لگتی لیکن کوئی نہیں سنتا۔
کتے اس پنجرے کے اردگرد گھومتی کبھی پنجرے کے اوپر چڑھ جاتے۔
۔۔۔
سینور میرے خیال سے سینورا یہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔
مجھے وہ اپنے پاس چاہئیے پھر چاہے کسی بھی حالت میں۔
۔۔۔
معلوم نہیں وہ یہاں کب سے تھی ایک دن دو دن یا ایک ہفتہ۔
وہ کبھی سمٹ کر لیٹ جاتی کبھی بیٹھ جاتی۔
وہ کتے پنجرے میں منہ ڈال کر اس تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔
کبھی کبھی وہ عالم وحشت میں ہسنے لگتی۔ ہر گزرتا لمحہ ایک زندگی کے برابر تھا۔
عون آتا تھا وہ اس سے بھیک مانگتی لیکن وہ اسے خشک روٹی اور پانی پھینک دیتا۔
وہ خشک روٹی کھاتے ہوئے کتوں کو لزیز کھانے کھاتے ہوئے دیکھتی۔
کبھی کبھی وہ سوچتی کیا وہ ان سے کھانا چھین سکتی ہے پر پھر اپنے آپ سے وحشت ہونے لگتی۔
اس جگہ نے انسان اور جانور کا فرق ختم کردیا تھا۔
خود کو اپنے اندر قید کرنے لگی وہ ۔
_______
ایسی دنیا جہاں وہ خوش تھی۔ خود سے باتیں کرتی رہتی۔
کبھی اسے لگتا کہ اس پر کیڑے چڑھ رہے ہیں۔
تو وہ عالم وحشت میں خود کو نوچنے لگتی۔
اس کی ہڈیاں واضح ہونے لگی تھیں اس کے کپڑے کھلے ہو گئے تھے۔
بدبو میں سانس لینا مشکل تھا۔
اس سب میں اس نے یہ سیکھا تھا کہ قید ہونے کا خوف سب سے بڑا ہے۔
اسے کتوں سے جسد ہونے لگتا تو وہ خود کو دوبارہ اسی دنیا میں لے جاتی۔
۔۔۔
شاید دو ہفتے گزر گئے تھے اسے یہاں وہ دن گننے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ اس بات سے موازنہ کرتی تھی کہ اس نے کتنی بار کھایا ہے۔
وہ اب انسان کہاں رہی تھی پالتو بن گئی تھی جو اس انتظار میں رہتی کب اس کا مالک آئے گا اور کھانا لائے گا۔
اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں پر چلتی فورأ وہ عون کے قریب چلی جاتی۔
اب بھی وہ اسی کے انتظار میں تھی کمزوری کی وجہ سے وہ لیٹی رہتی تھی۔
ایسے لگتا جیسے اسے چھوتے ہی اس کا ڈھانچہ بکھر جائے گا۔
عون کے انتظار میں اس نے خود کو اٹھانا چاہا سلاخوں کو پکڑ کر خود کو کھینچنے لگی جب باہر موجود کتے نے اس کی بازو کو کاٹ لیا۔
خود کی بازو کو پکڑے وہ رونے لگی اور ہوش سے بےگانا ہونے لگی۔
اسے لگا جیسے کوئی فرشتہ اس کی طرف بڑھ رہا ہے مگر یہ فرشتہ روشن کیوں نہیں تھا۔ وہ تو تاریک تھا بہت تاریک۔
My fallen angel۔ My Diablo(devil)۔
شش Mon Amour
سب ٹھیک ہے میں آ گیا ہوں۔
۔۔۔
سمارا کے کپڑے اور بدن غلاظت سے بھرے ہوئے تھے۔ عون اسے سیدھا باتھروم لے گیا اور باتھ ٹپ میں لٹا دیا۔
جب سمارا کے زخموں پہ پانی سے جلن ہوئی تو وہ ہوش میں آ گئی اور چلاتی نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔
عون نے اسے گردن سے پانی میں دھکیل دیا۔
بس کرو سمارا ۔
لیکن وہ چیختی رہی۔
۔۔۔
عون نے ڈاکٹر کو بلایا تھا۔ سمارا بہت کمزور تھی اس کی ہڈیاں دکھ رہی تھیں۔
ڈاکٹر نے اس کا فوری علاج شروع کر دیا تھا۔
اسے بری طرح سے سکن انفیکشن ہوا تھا جو کہ بہت تکلیف دہ تھا۔
اور اس کا علاج بھی اتنا ہی تکلیف دہ۔
سمارا بس ہاں یا نا میں جواب دیتی تھی۔ اس کی انکھوں کی چمک ختم ہو چکی تھی۔ انسان کے ڈھانچے میں ایک پالتو ۔
_____
کرسٹوفر میں ابھی کہیں نہیں جا سکتا۔
دیکھو عون تمہیں چلنا ہوگا تم جانتے ہو کہ پابلو (pablo)
کی نظر بھی اسی جگہ پر ہے۔
میں اچھے سے جانتا ہوں۔
تو پھر اگر تمہیں وہ جگہ چاہئیے تو چلنا ہوگا۔
میں نے جو کہا تھا کیا وہ کر دیا؟
کر دیا ہے پھر بھی تمہیں وہاں چلنا ہوگا۔
عون ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔ ٹھیک ہے میں نیلامی کے وقت وہاں ہوں گا یہ کہ کر اس نے کال کٹ کر دی۔
سمارا کا انفیکشن اب ختم ہو چکا تھا لیکن مکمل صحت یاب ہونے کے لئے اسے ابھی بہت وقت چاہئیے تھا۔
عون اس عمل کو تیز کرنے کے لئے جو کر سکتا تھا کر رہا تھا۔
اس نے خود کو اپنے آپ میں قید کر لیا تھا اور عون اس میں خود کو دیکھنے لگا تھا۔
اسے افسوس تھا لیکن وہ پھر بھی ایسا کرتا۔
۔۔۔
کیا تم نے دوائی لے لی۔
سمارا کے بال سہلاتے ہوئے پوچھنے لگا۔
اس کے جواب میں وہ بس سر ہلا کے رہ گئی۔
مجھے ایک دن کے لئے اٹلی جانا ہوگا میں تمہیں ساتھ لے جاتا پر تم ابھی سفر کے لئے تیار نہیں۔ کیا تم میرے بغیر رہ لو گی
وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اس کے بغیر رہنا سمارا کے لئے ممکن نہیں۔
جواب میں اس نے پھر سر ہلا دیا۔
نرس اور شارلٹ ہمیشہ یہیں رہیں گی۔تمہیں کوئی تنگی نہیں ہوگی۔
یہ کہ کر وہ اس کا کمبل درست کر کے چلا گیا۔
اور سمارا نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
شارلٹ مارتھا کی جگہ سب کام کرتی تھی۔
عون نے اسے اس کی غیر موجودگی میں نوکری پہ رکھا تھا۔
۔۔۔
اس ڈانس سٹوڈیو کی نیلامی تھی وہ جگہ بہت اجھی لوکیشن پر تھی اور اس کو خریدنے کے بعد پابلو کو بہت منافع ہوتا۔
اسے کاروبار میں نقصان ہو رہا تھا۔ اب اپنی ساری جمع پونجی اس پہ لگا رہا تھا۔
لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اس کا حریف عون بھی یہ جگہ خریدنا چاہتا تھا۔
اسے عون مرزا سے نفرت تھی اس کی وجہ سے اسے یہ نقصان جھیلنا پڑ رہا تھا۔
۔۔۔
نیلامی شروع ہو گئی تھی پابلو نے اس پہ قیمت لگا دی تھی اور عون کے اشارے سے کرسٹوفر نے بھی قیمت لگا دی۔
بہت اور بزنس مین بھی موجود تھے۔ پابلو نے ان سب سے زیادہ قیمت لگائی۔
جب سب کو لگا کہ یہ جگہ اب پابلو کی ہے تبھی عون کے اشارے سے کرسٹوفر نے اس جگہ کی قیمت سے چار گنا زیادہ رقم لگائی۔
سب حیران تھے کہ کوئی ایسا کیوں کرے گا اور اس طرح کاغذاتی کاروائی کے بعد وہ جگہ عون کی ہو گئی۔
______
عون مرزا ویسے چار گنا زیادہ رقم ادا کر کے تم نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔
میں نے چار گنا زیادہ نہیں بلکہ دو گنا کم میں یہ جگہ خریدی ہے۔
عون نے اسی کےانداز میں جواب دیا۔
یہ کیا بکواس کر رہے ہو ۔ تم نے مارکیٹ ریٹ سے جار گنا زیادہ دیا ہے۔
اوہ وہ مارکیٹ ریٹ تو میں نے ہی افواہ پھیلا کر مشہور کیا تھا۔
بس کچھ لوگوں کو خوش کرنا پڑا اور کام ہو گیا۔
اگر تم نے زرا بھی محنت سے پتا کیا ہوتا تو اس کی اصل قیمت کا پتا لگ جاتا۔
عون نے کندھے چکا کر رہا۔ جبکہ کرسٹوفر ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا۔
تم تم ایسا کیسے کر سکتے ہو تمہاری وجہ سے میں برباد ہو گیا میری بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
آہ اب تم اپنی ناکامی میرے سر پر تو مت ڈالو۔ یہ کہتے ہوے عون وہاں سے چلا گیا۔
عون مرزا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا جیسے تم نے مجھ سے سب چھینا میں بھی تمہاری ہر چیز چھین لوں گا۔
اب اس کا صرف یہی مقصد تھا۔
۔۔۔
مہینوں بعد سمارا آخر مکمل طور پر صحت مند ہو گئی تھی۔
ڈآکٹر کی نگرانی اور عون کی کیئر سے یہ اور آسان ہو گیا۔
لیکن دماغی طور پہ وہ ابھی بھی اس ٹھنڈی اندھیری جگہ پر قید تھی عون کو یقین تھا وہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی اور وہ دن بھی آ گیا جب سمارا کو ایک اور دھجکا لگا۔
۔۔۔
عون سمارا کے لئے پریشان تھا وہ کچھ دنوں سے بیمار تھی۔
اسے ڈر تھا کہ پھر سے کوئی انفیکشن نہ ہو گیا ہو۔
ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہی تھی اور وہ بےتابی سے ہال میں اس کا انتظار۔
آخر کار وہ دونوں ہال میں آ گئیں۔
کیا ہوا سمارا کو ۔ کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں۔
اس نے فورأ ڈاکٹر سے پوچھا۔
نہیں مسٹر عون بلکہ خوش خبری ہے ۔
She is expecting۔
آپ فادر بننے والے ہیں۔
کسی نے سمارا پہ منوں ٹھنڈا پانی انڈیلا تھا اور کھینچ کر اسے تاریک کنویں سے نکالا ۔ اور اسے قید سے آزاد کرایا تھا۔
وہ ماں بننے والی تھی۔ یہ احساس دنیا کے ہر احساس پہ بھاری ہے ۔ اس کے لئے بھی تھا۔
سمارا نے نظریں اٹھا کر عون کو دیکھا۔
وہ مسکرا رہا تھا بہت خوش تھا۔
نہ کہ وہ استہزائیہ مسکراہٹ اور نہ ہی کوئی طنزیہ مسکراہٹ۔
بلکہ وہ مسکراہٹ جو چہرے کو روشن کر دیتی ہے اور دیکھنے والا خود بھی خوشی میں جھوم اٹھتا ہے۔
اسے دیکھ کر سمارا بھی مسکرا اٹھی۔
وہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آ گیا میں بہت خوش ہوں بہت خوش
اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا
________
اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔
سمارا نے بھی عرصے بعد خود میں سکون اترتا پایا اور آنکھیں بند کر کے چہرے اس کے ہاتھ کی سمت موڑ لیا۔
عون نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
۔۔۔
پہلے سمارا عون سے خوفزدہ رہتی تھی اور اب تنگ رہنے لگی۔
عون کا بس چلتا تو وہ اسے کمرے سے ہال بھی اٹھا کر لے کے جاتا۔
اس کے ہر عمل میں جنونیت تھی۔
بنا وجہ ہی ہر ہفتہ اسے ہاسپٹل لے کر جاتا۔
جب ڈاکٹر نے اسے کئی بار سمجھایا کہ سمارا کا ایکٹیو رہنا صحت کے لئے اچھا ہے تو وہ اسے اپنے ساتھ لان میں یا ڈیےگو کے ساتھ جانے دیتا۔
گھر کے اندر شارلٹ اس کے ساتھ ہوتی جو کہ عون کی حرکتوں سے خوب محظوظ ہوتی۔
اسے اب دیکھ کر محسوس ہی نہ ہوتا کہ یہ وہی طالم شخص ہے۔
سمارا کے لئے کھانے پینے کی ہر چیز کی لسٹ بنا رکھی تھی۔
کئی بار وہ اس سے زچ آ گئی۔
آفس ٹائمنگ بھی بہت کم کر دی گئی۔
۔۔۔۔
سمارا جو کہ پہلے سے ہی ڈپریس تھی اور ڈپریشن میں چلی گئی۔
اس کی نرس نے اسے کچھ بھی سوچنے سے منع کیا اور آرام کی تلقین کی۔
عون نے اس کے معنہ کچھ ایسے لئے کہ اسے بیڈ تک محدود کر دیا۔
میں سارا دن یہاں پاگل ہوتی رہتی ہوں۔
وہ شارلٹ سے بات کر رہی تھی جبکہ عون بھی قریب بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔
تو تم کچھ ایسا کر لو جس سے تمہیں اٹھنا بھی نا پڑے اور تم بور بھی مت ہو۔
جواب عون کی طرف سے آیا۔
مجھے ٹی وی دیکھنا ہے۔
نہیں میں نے کل ہی ایک جرنل میں پڑھا تھا یہ سب نقصان دہ ہوتا ہے۔
عون کا آفس جہاں اب فائلز سے زیادہ بےبی جرنل پائے جاتے تھے سمارا کو اور پریشان کرتے تھے۔
وہ سمارا کے بارے میں بھی ایسا ہی جنونی تھا۔ اس کا تعلق اپنی اولاد کے ساتھ کیسا ہو گا یہ سوچ کر وہ اکثر کانپ اٹھتی۔
تم وہ کیوں نے کرتی جو اکثر عورتیں کرتی ہیں۔ عون نے ہاتھ سے عجیب و غریب اشارے کرتے ہوئے کہا۔
شارلٹ قریب بیٹھی ہسنے لگی۔ میرے خیال سے آپ کا مطلب
نیٹینگ
(knitting)
سے ہے۔
بلکل سہی کہا۔ تو تم یہ کیوں نہیں کرتی۔
اصل میں بہت اچھا آئیڈیا ہے مسز عون۔کئی لوگوں کو اس سے ڈپریشن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
۔۔۔
اگلے دن اس کے لئے نٹنگ کا سامان بھی حاضر تھا۔ اور شارلٹ اسے سکھا رہی تھی۔
وہ بھی سوچوں سے دور رہنے کے لئے اس سے دلچسپی لینے لگی۔
ایک ہفتے بعد جب عون نے اس کی بنائی دیکھی تو وہ خوفزدہ لگنے لگا