وہ لیونگ روم میں بیٹھی سوچ رہی تھی کیا اسے انٹر نیٹ پہ سب چیک کرنا چاہئیے۔
ہو سکتا یہ عون نہ ہو۔
یہ سوچ کر اس نے اپنے موبائل پہ نیٹ عون کیا اور سرچ کرنے لگی۔
جینٹ سہی تھی ان کو بہت بری طرح سے قتل کیا گیا تھا اور وہ سب لڑکیاں سمارا جیسی دکھتی تھیں۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ہر کسی کی گردن پہ ایک جیسا نشان تھا۔
قتل مختلف شہروں میں ہوئے تھے اس لئے قاتل تک پہنچنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ جانتی تھی عون اسے ڈھونڈ رہا ہے اور یہ لڑکیاں سمارا کے لئے پیغام تھا کہ جب رہ عون کو ملے گی تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔
یہ سب میری وجہ سے ہوا سب میری وجہ سے۔
اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے خود قتل کیے ہوں۔
کوئی بھی قتل ٹرانسلوینیا کے قریب نہیں تھا لیکن اگر وہ وہاں پہنچ گیا تو۔
۔۔۔
آہ سمارا اچھی لگ رہی ہو تم۔
تھیک یو حارث۔
وہ شرمندہ سی اپنے بال کان کے پیچھے کرنے لگی۔
میں بس تھوڑا چینج چاہتی تھی۔
تم پہ یہ رنگ اچھا لگ رہا ہے۔
ایک منٹ کیا تم نے لینز لگائے ہیں۔
وہ اس کی نیلی آنکھوں جو کہ اب گرے تھیں دیکھ کر پوچھنے لگا۔
ہاں وہ بس۔
ارے چلو اب کام پہ لگو۔
پیچھے سے آواز آئی تو وہ حارث کووہیں چھوڑ کر چلی گئی۔
اس نے بالوں کی کٹنگ کروائی تھی اور انہیں سنہری رنگ میں ڈائی کروایا تھا اور گرے لینز لگائے تھے۔
وہ اس سے بچ تو نہیں سکتی تھی پر عون اسے سرسری نگاہ میں پہچان نہیں سکتا تھا۔
حارث وہیں کا رہنے والا تھا اور طالبعلم تھا۔
مگر جب سے سمارا نے کام شروع کیا تھا وہ کینٹین میں زیادہ پایا جاتا تھا۔
۔۔۔
آخر کار اسے یہاں ایک سال گزر چکا تھا۔ اس دوران قتل 4 سے بڑھ کر9 ہو گئے تھے۔
اس نے کئی دوست بنائے تھے لیکن جینٹ اور حارث سر فہرست تھے۔
وہ اب رات کو گھر ڈرائیو کر رہی تھی جب اس کی گاڑی رک گئی۔
نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا چل جا چل جا۔
اس نے کئی بار گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی پر ناکام رہی۔
پیچھے سے آتی گاڑی اس کے قریب آ کر رک گیا
کیا تمہیں مدد چاہئیے ؟
حارث نے اس کی سائیڈ ونڈو سے کہا۔
یہ گاڑی چل نہیں رہی۔
چلو میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔
سمارا کے گھر کا پتا جینٹ کے علاوہ کسی کو نہیں تھا لیکن اب وہ مجبور تھی۔
اس لئے اس کی کار میں جا کے بیٹھ گئی۔
ویسے حیرت ہے تم اسے سڑکوں پہ گھمائے پھرتی ہو۔
وہ اتنی بھی بری نہیں بس کبھی کبھار تنگ کرتی ہے۔
______
واؤ کمال کی جگہ ہے ۔ ویسے مجھے نہیں لگتا تمہیں ایسی جگہ اکیلے رہنا چاہئیے۔
وہ اس کی بات سے زچ ہو گئی اسی لئے شکریہ ادا کر کے اپنے گھر کی حفاظت کی طرف بھاگی۔
۔۔۔
آخر ایک سال بعد اسے میکس کے بارے میں پتا لگ گیا تھا۔
وہ اور لوفین اس کے قبضے میں تھے۔
وہ اب وہیں جا رہا تھا جہاں ڈیےگو نے انہیں رکھا تھا۔
ویرانے میں ایک کیبن میں ان دونوں کو باندھ رکھا تھا۔
کرسی پہ بندھے ہوئے وہ دونوں خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے جب وہ وہاں پہنچا۔
میکس کو نظرانداز کئے وہ سیدھا لوفین کے پاس گیا۔
اور اس پہ جھک کر پوچھنے لگا۔
مجھے بتاؤ میری سمارا کہاں ہے۔
میں نہیں جانتی۔ چھوڑ دو ہمیں۔
مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے اگر زندہ رہنا چاہتے ہو۔
ہمیں جانے دو یہاں سے اور ہم پولیس کو کچھ نہیں بتائیں گے۔
میکس مکینکجی تم بتاؤ گے وہ کہاں ہے۔
عون نے میکس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
کبھی نہیں۔
ٹھیک ہے تو ایسے ہی سہی۔
اس نے قریب میز پہ رکھا چاقو اٹھایا اور لوفین کی طرف چل پڑا۔
آخری موقع ہے تمہارے پاس۔
جب کوئی کچھ نہیں بولا تو اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور لوفین کی آنکھ پہ چاقو سے وار کیا۔
وہ جگہ لوفین کی چیخوں سے گونج رہی تھی۔ کوئی بھی ان سے بہرہ ہو جاتا۔
اس نے چاقو اس کی آنکھ میں مکمل طور پہ گھسا دیا تھا۔
تکلیف بے پناہ تھی۔
میکس بھی چلا رہا تھا۔
لوفین لوفین۔۔۔ چھوڑ دو اسے جنگلی۔
تو مجھے بتاؤ کہاں ہے وہ۔
اس کی ایک بار کال آئی تھی۔ لوفین بتا دو اسے۔
مطلب تم میرے کسی کام کے نہیں۔
اس نے لوفین کی آنکھ سے چاقو کھینچ کر نکالا اور میکس کی طرف بڑھ گیا۔
اگلے ہی لمحے اس نے میکس کی گردن پہ چاقو رکھا اور اس کی گردن کاٹ دی۔
لوفین اب خود کو بھولے میکس کا نام پکار رہی تھی۔
میکس میکس اٹھو پلیز۔
کچھ ہی لمحوں میں میکس مر گیا۔
عون نے لوفین کو متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
تمہاری بہن یہیں یونیورسٹی پڑھتی ہے نا۔
وہ اس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے اور تمہاری بہن کو کچھ نہیں ہو گا۔
لوفین نے اس کا نمبر دہرا دیا۔
گڈ گرل۔ عون اس کی گال تھپتھپاتا وہاں سے چلا گیا۔
ڈیےگو زیادہ وقت مت لینا۔
سی سینور۔
۔۔۔
سمارا ابھی کالج سے نکلی ہی تھی جب اسے کسی انجان نمبر سے فون آیا۔
ہیلو۔
کسی کا جواب نہ پا کر وہ دوبارہ بولی۔
ہیلو کون ہے؟
_______
Hello Mon Amour
اس کا موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پہ گر گیا
سمارا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔
وہ زور سے ہوا کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی پر اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔
اس کے قریب سے گزرتا حارث اسے دیکھ کے رک گیا۔
وہ سینے پہ ہاتھ رکھے زور زور سے ہوا خود میں کھنچ رہی تھی۔
اوہ نو سمارا تمہیں پینک اٹیک ہوا ہے آرام سے سانس لو ۔
کوئی اس سے کچھ کہ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ میرے ساتھ سانس لو۔
گڈ گرل بلکل ایسے۔
اسے اب کسی کا دھندلا وجود دکھنے لگا۔
سانس بحال ہونے کے بعد وہ رونے لگی۔ اسے عون نے ڈھونڈ لیا تھا۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اب کیا کرے۔
حارث اسے روتا دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا بات ہے پر وہ اپنی ہی دنیا میں تھی۔
اسے روتے دیکھ کر حارث کا لگا اسے پھر سے اٹیک ہو جائے گا۔
اس نے اسے خاموش کروانے کے لئے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
سمارا کتنی ہی دیر روتی رہی آہستہ آہستہ وہ اپنے اطراف سے باخبر ہونے لگی۔
کوئی اس کے بال سہلا رہا تھا۔
وہ حارث تھا۔ وہ اسے ایک دم دھکا دے کر الگ ہوئی۔
یہ وہ کیا کر رہی تھی۔ ایسی حرکت کیسے کی اس نے جھک کر موبائل اٹھایا اور وہ وہاں سے بھاگ گئی۔
حارث کو تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد وہ کتنی ہی دیر اس کے بارے میں سوچتا رہا
۔۔۔
سمارا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے نمبر کیسے ملا۔
مگر اسے یقین تھا وہ جلد یہاں پہنچ جائے گا۔
اس نے اپنی کچھ بچت نکالی اور جنگل میں چھپا دی تاکہ وہ ایمرجنسی میں استعمال کر سکے۔
اب اسے یہاں سے جانا ہوگا۔
۔۔۔
وہ سمارا ہی تھی۔ وہ نمبر ٹرانسلوینیا کا تھا۔ عون جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا۔
وہاں سمارا کو ڈھونڈنا آسان نہیں تھا لیکن اس کے قریب تھا۔
وہ دو دن سے ٹرانسلوینیا موجود تھا پر اسے نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔
اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔
اس نے مقامی کالج کا رخ کیا تاکہ وہاں کسی سے مدد لے سکے۔
۔۔۔
وہ روز کی طرح اپنے کام میں مصروف تھی۔ اور ایک ٹیبل پہ ان کا آرڈر لے کے جا رہی تھی جب وہ وہاں داخل ہوا۔
ہمیشہ کی طرح اس کی موجودگی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
اس کی داڑھی پہلے سے بڑھ گئی تھی۔
پینٹ شرٹ اور اوپر لیدر کی جیکٹ پہنے وہ کسی بھی لڑکی کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔
سمارا کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹ کر نیچے گر گئی۔
_______
عون نے کینٹین میں داخل ہو کر ایک سرسری نگاہ سب پہ دوڑائی۔
وہ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی سب کی توجہ کا مرکز تھا۔
لڑکیاں اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور آپس میں چہ مگوئیاں کر رہی تھیں۔
تبھی ایک لڑکی کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔
وہ اسے کبھی دوسری بار نہ دیکھتا لیکن کچھ تو تھا اس میں۔
سمارا کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ جھک کر بکھرا ہوا کھانا اٹھا رہی تھی اس کی اس حرکت سے سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔
عون بھی اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا سانس رکنے لگا تھا سمارا کو لگا اسے پھر پینک اٹیک آ جائے گا نہیں ابھی نہیں ابھی نہیں۔
وہ سنہری بالوں کی اوٹ سے اسے دیکھ رہی تھی۔
کتنی ہی لڑکیاں وہاں اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھیں اگر وہ اس کی اصلیت جانتی تو یہاں سے بھاگ جاتیں۔
وہ لڑکی اب بالوں کی اوٹ سے اسے دیکھ رہی تو ۔ وہ موجود ہر لڑکی ہی اسے دیکھ رہی تھی لیکن اس کی نظروں میں کچھ اور تھا۔
جیسے وہ اسے پہچانتی ہو۔
نہیں یہ لڑکی مجھے کیسے جان سکتی ہے۔
سنہری بالوں کے پیچھے چھپی وہ اسے پیاری لگی تھی۔
ایک پل کو عون کا دل کیا کہ وہ اسے اچک کر لے جائے۔
سمارا مزید اس کی توجہ خود پہ نہیں چاہتی تھی اس لئے ٹرے لے کر اٹھی اور اس کے پاس سے گزر کر باسکٹ کی طرف بڑھنے لگی۔
وہ لڑکی اب عون کے پاس سے گزر رہی تھی اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں جیسے وہ یہاں موجود نہیں ہونا چاہتی۔
جب وہ عون کے پاس سے گزری تو اس کے دماغ میں ایک جھماکا ہوا۔ وہ یہ خوشبو ہزاروں میں بھی پہچان سکتا تھا۔
یہ اس کی سمارا تھی۔
سمارا اس سے کچھ قدم آگے بڑھ چکی تھی جب اس کے موبائل پہ بیل ہوئی۔
اس نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو عون کا نمبر تھا۔
سمارا وہیں جم گئی۔ آہستہ آہستہ وہ عون کی طرف پلٹی تو وہ کان پہ فون لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا
اس کے چہرے پہ استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
جب عون نے اس کا رنگ سفید پڑتے دیکھا تو سمارا کو آنکھ ماری۔
سمارا کے لئے یہ اشارہ کافی تھا وہ ٹرے وہیں پھینکے باہر کی طرف بھاگی اور عون بھی اس کی طرف لپکا۔
۔۔۔
وہ بھاگتی ہوئی کلاسز کی طرف مڑ گئی عون اس کے بہت قریب تھا اور اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
کچھ طالبعلم انہیں عجیت نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
وہ ایک لیب میں داخل ہو کر دروازے کے پیچھے چھپ گئی۔
عون بھی اس کے پیچھے داخل ہوا تو وہ جلدی سے باہر نکل گئی۔
وہ دروازے سے باہر نکل گئی اور دروازہ لاک کر کے بھاگ گئی۔
عون دروازے کی آواز پر پلٹا پر وہ لاک تھا۔
وہ لیب کے دوسرے دروازے کی طرف بھاگا لیکن جب تک وہ باہر آیا سمارا غائب ہو چکی تھی۔
سمارا نے نہ تو اپنی رفتار کم کی اور نہ ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔
وہ بلڈنگ سے باہر آ گئی تھی اور اپنی گاڑی کی طرف بھاگ رہی تھی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ گھر کی طرف بڑھنے لگی۔
۔۔۔
آج اسے اپنے گھر میں بند دوسرا دن تھا۔ سبھی دروازے کھڑکیاں بند کئے چاقو پاس رکھے بیٹھی تھی۔
اس نے گھر پہنچتے ہی موبائل پتھر سے توڑ کر پھینک دیا تھا۔
پراپرٹی ڈیلر نے وعدہ کیا تھا کہ کچھ دن تک اسے گھر کے لئے خریدار مل جائیں گے۔
۔۔۔
اس کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی اور وہ اچھل پڑی۔
ہاتھ میں چاقو پکڑے وہ کھڑکی کی طرف بڑھی۔
باہر کھڑے حارث اور جینٹ کو دیکھ کر کچھ پرسکون ہوئی۔
اس نے چاقو چھپایا اور دروازہ کھول دیا۔
کہاں ہو تم لڑکی دو دن سے کام پہ بھی نہیں گئی۔
میں بس تھوڑی بیمار ہوں۔
کیا ہوا؟
حارث نے پریشانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
پریشان مت ہو اتنی بھی بیمار نہیں۔
زرا چہرہ تو دکھاو مجھے بخار تو نہیں ہے۔
جینٹ نے اسے چھو کر کہا۔
چھوڑو تم لوگ بیٹھو میں کافی لاتی ہوں۔
نہیں ہم بس جا رہے ہیں تمہارے لئے پریشان تھے۔
جینٹ حارث کولے کر باہر نکل گئی۔
جب وہ دروازہ لاک کرنے لگی تو حارث وہیں رک گیا۔
تم واقعی ٹھیک ہو نا۔
بلکل ٹھیک اس نے مسکرا کر کہا۔
اگر تم پرییشان ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔
سمارا کو ایک دم لگا جیسے اس نے جنگل میں کچھ دیکھا۔
درخت کے کچھ پتے ہل رہے تھے۔ شاید کوئی جانور ہو۔
میں ٹھیک ہوں حارث تمہیں جانا چاہئیے۔
اوکے۔ ٹیک کیئر۔
حارث انتظار کرتی جینٹ کی طرف بڑھ گیا اور وہ دروازہ لاک کر کے اس کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
۔۔۔
آج تیسرے دن بھی اس نے خود کو بند کر رکھا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے ٹی وی آن کیا۔
کچھ عرصہ پہلے ہی اس نے خریدا تھا۔
چینلز چینج کرتے ہوۓ وہ ایک خبر پہ کری۔
پولیس کو دو لاشیں ملی تھیں۔ ایک عورت اور دوسری مرد کی۔
ان کا نام لوفین اور میکس مکینکجی تھا۔
خبر پڑھ کر وہ رونے لگی۔ اسے دیواریں خود پر تنگ ہوتی محسوس ہونے لگیں۔
اسے ہوا چاہئیے تھی۔
بیرونی دروازہ کھول کر وہ باہر بھاگی اور لمبے لمبے سانس بھرنے لگی۔
اس پر دو اور لوگوں کے قتل کا بوجھ تھا۔
_______
تکلیف کی شدد زیادہ تھی کیونکہ وہ اس کے دوست تھے۔
وہ چلتی ہوئی جنگل کے اندر داخل ہو گئ۔
ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر روتی رہی۔
اندھیرا ہونے لگا تھا اسے واپس جانا تھا پر وہ یہیں بیٹھے رہنا چاہتی تھی۔
آخر کار اٹھی اور گھر واپس چلنے لگی۔
وہ دروازہ ویسے ہی کھلا چھوڑ آئی تھی۔ اب اسے افسوس ہو رہا تھا کہ کوئی جانور اندر نہ چلا گیا ہو۔
اندر داخل ہو کر اس نے لیونگ روم کی لائٹ جلانی چاہی پر کچھ نہیں ہوا۔
سارے گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
اس نے وہ موبائل نکالا جو کہ اسے کبھی میکس اور لوفین نے دیا تھا اور اس کی ٹارچ چلا لی۔
اندھیرے سے وہ ویسے ہی ڈرتی تھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ کچن میں گئی وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
لیکن گھر کے اندر سے ایک عجیب آواز آ رہی تھی۔
سیڑھیوں سے چڑھتی وہ اوپر آ گئی۔ اور آواز کی طرف بڑھنے لگی۔
اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ شاید پانی ٹپکنے کی آواز تھی۔
باتھروم میں جھانک کر دیکھا تو نل چل رہا تھا۔ اس نے نل بند کیا۔
لیکن فرش پہ پھسلتے ہوئے بچی۔
ٹارچ کی روشنی سے دیکھا تو وہاں خون تھا اس کی ٹانگیں کانپنے لگی۔
ٹارچ سے دیکھا تو باتھ ٹپ میں حارث کا خون سے بھرا ہوا وجود تھا۔
اس کی گردن کاٹی گئی تھی۔ وہ چیخیں مارتی وہاں سے بھاگی اور جنگل کی طرف بھاگ پڑی۔
اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کا پیچھا کررہا ہے۔
رات ہونے والی تھی اسے یہاں کا راستہ اچھے سے معلوم تھا۔
مختلف آوازیں آ رہی تھیں۔
پرندوں کی جانوروں کی پیروں کی۔
وہ درختوں کے پیچھے چھپتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جہاں اس نے کچھ پیسے چھپا رکھے تھے۔
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
کسی کو اس حالت میں اس نے پہلی بار روبرو دیکھا تھا۔
وہ جتنی جلدی کرنے کی کوشش کر رہی تھی اس کا وجود اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
وہ ہانپنے لگی تھی۔دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
______
آخر وہ پیسے نکالنے میں کامیاب ہو گئی اور اٹھ کر مین روڈ کی طرف بھاگی۔
وہ تقریبا دو گھنٹے سے مسلسل چل رہی تھی۔
آخر کار مین روڈ پر پہنچ گئی۔ چلتے چلتے وہ ایک ہوٹل کے پاس پہنچی اسے رات گزارنے کےلئے کچھ جگہ چاہئیے تھی۔
لیکن ٹرک ڈرائیورز کے وہاں رکنے کی وجہ سے وہ مناسب جگہ نہیں تھی۔
اسےنہیں پتا تھا کہ اگلا ہوٹل کتنے فاصلے پر ہوگا۔
اس لئے چاروناچار اسی ہوٹل کا رخ کیا۔
اس کے پاس پیسے کم تھے پر وہ ایک سستی جگہ تھی۔
کاؤنٹر پہ موجود شخص اسے بار بار اوپر سے نیچے تک دیکھتا۔
اس نے جلدی سے کمرے کی چابیاں لیں اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
وہ اب سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔ واپس بھی نہیں جا سکتی تھی۔
کمرے میں ایک سنگل بیڈ اور پرانا سا صوفہ تھا۔
اس نے دروازہ لاک کر کے صوفے کو کھینچ کر دروازے کے اگے کر دیا ۔
پھر جا کر اپنا منہ دھونے لگی۔
اسے کل بینک جانا ہوگا۔ تاکہ وہ وہاں سے باقی پیسے نکلوا سکے ۔
اب وہ یہاں نہیں رہ سکتی تھی اور گھر کے بارے میں بھی اب کوئی امید نہیں تھی۔
حارث کے بےجان وجود کوسوچ کر اس پر ایک بار پھر کپکپی طاری ہو گئی۔
ساری رات اس نے کبھی سو کر اور کبھی جاگ کر گزاری۔
اس جگہ مسلسل لوگوں کا آنا جانا تھا۔
کبھی ہسنے کی آواز تو کبھی لڑائی کی آوازوں نے اسے مسلسل بےسکون رکھا۔
۔۔۔
اگلی صبح اس نے پہلے انتظار کیا تاکہ زیادہ تر ڈرائیور چلے جائیں اور پھر وہ بینک کی طرف چل پڑی۔
مجھے میرے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوانے ہیں لیکن میری چیک بک کھو گئی ہے۔
آپ کا اکاؤنٹ نمبر۔
اس نے نمبر بتایا تو وہاں موجود لڑکی اس کا آئی ڈی مانگنے لگی۔
اس نے اپنا نکلی شناختی کارڈ اسے دیا۔
تو وہ لڑکی اسے دیکھ کر کہنے لگی۔
کہ آپ کے اکاؤنٹ میں کوئی بیلنس نہیں۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس میں دو ہزار ڈالر تھے۔
مس آپ کے اکاؤنٹ سے کل ہی سارا بیلنس نکلوا لیا گیا تھا آپ کے سائین بھی ہیں۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔
آپ رکیں میں مینیجر کو بلاتی ہوں۔
جلدی پلیز۔
وہ لڑکی وہاں سے چلی گئ۔ اور سمارا کو ایک دم کوئی خیال آیا۔
اس کے بعد وہ وہاں رکی نہیں۔
یہ ضرور عون ہے اگر انہیں میری نکلی شناخت کا پتا چل گیا ہے تو وہ کہیں یہاں موجود ہوں گے۔
وہ ٹیکسی سے واپس ہوٹل گئی۔ اپنے کمرے میں جا کر وہ سیدھا باتھروم میں منہ دھونے گئی۔
وہ صوفہ دروازے پہ لگانا بھول گئی تھی اس لئے واپس پلٹی۔
______
لیکن دروازے میں کھڑے شخص نے اسے سب بھلا دیا۔
اس کی سانسیں رک گئیں۔
تمہیں ایسی جگہ پہ نہیں رکنا چاہئیے Mon Amour
اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلے ۔
عون ۔۔۔ اس نے سسکی بھرتے ہوئے کہا۔
ہممم عون جسے تم چھوڑ آئی۔
اس نے اندر داخل ہو کر دروازہ لاک کر دیا۔
سمارا صوفے کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی جیسے وہ اس رکاوٹ سے بچ جائے گی۔
میرے پاس آؤ۔
نن نہیں۔ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں چلاؤں گی۔
اس کی بات سے عون استہزائیہ مسکرایا۔
کیا تمہیں لگتا ہے ان لوگوں کو کوئی فرق پڑے گا۔
وہ صحیح کہ رہا تھا کچھ چیخیں تو اس نے خود کل رات سنی تھیں۔
قاتل ہو قاتل ہو آپ۔ آپ کو یہاں نہیں جیل ہونا چاہئیے۔ وہ چیخ اٹھی تھی۔
اس کی بات سے عون کو غصہ آیا اور وہ ایک دم اس کی طرف بھاگا۔
سمارا کو لگا وہ صوفے کے پیچھے سے بھاگ کر دروازے کی طرف چلی جائے گی۔
لیکن عون نے صوفے کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
سمارا نے دوسری طرف پلٹنا چاہا پر عون نے اسے بازو سے جکڑ کر کھینچا۔
خود کو اس کی پکڑ سے آزاد کروانے کے لیے سمارا نے اپنے ہاتھ کا گھونسا بنا کر اس کے گال پہ مارا۔
اس کی اس حرکت سے عون ایک دم حواس باختہ ہوا۔
لیکن وہ زیادہ دور جا پاتی اس سے پہلے اس نے دوبارہ اسے پکڑ لیا اور بیڈ پر پھینکا۔
مجھے تمہارا یہ انداز بھی پسند آیا۔
وہ بیڈ کے اوپر رینگتے ہوئے دوسری سائیڈ سے اترنے لگی لیکن عون نے اس کی ٹانگ دبوچ لی۔
سمارا نے اسے پوری قوت سے کک کی۔ جس سے اس کی ٹانگ چھوٹ گئی۔
وہ بھاگ کر دروازے کے پاس گئی اور دروازہ کھینچا پر وہ لاک تھا وہ لاک کھولنے لگی پر عون نے ایک دم آ کر اس پہ اپنا وزن ڈال دیا جس سے وہ دروازے کے ساتھ لگ گئی۔
عون نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سر کے اطراف میں رکھ دیے۔
میں نے تمہیں بہت مس کیا۔ کیا تم نے کیا؟
اس کی آواز میں ہنسی واضح تھی وہ اس کی حرکتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
سمارا زور زور سے ہانپ رہی تھی لیکن عون پہ کوئی فرق نہیں تھا۔
عون اس پر جھک کے اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔
میں روز سوچتا تھا کہ جب تم ملو گی تو کیسے تمہاری جان نکالوں گا۔
اس کی بات سن کر وہ منجمد ہو گئی۔
لیکن اب جب تم سامنے ہو تو ایسا نہیں کر پا رہا۔
سمارا نے خود کو اس کی پکڑ سے آزاد کرانے سے اپنا پاؤں زور سے اس کے پاؤں پر دے مارا۔
______
اس کی لمبی ہیل کی وجہ سے عون ایک دم پیچھے ہٹا لیکن سمارا دوبارہ کچھ کر سکے اس سے پہلے اس نے اسے اٹھا کر بیڈ پہ پٹکا
اور اپنا وزن اس پہ ڈال دیا۔
وہ زور سے چلا رہی تھی اور خود کو آزاد کروانے کی مکمل کوشش کر رہی تھی۔
عون نے ایک زوردار طمانچہ اس کے گال پہ رسید کیا۔
کچھ لمحے کے لئے وہ رکی پر پھر اس کی گردن کو اپنے ناخنوں سے نوچنے لگی۔
عون کی گردن سے خون بہنے لگا اور اس نے سمارا کے گلے میں لپٹے سکارف کو اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا۔
اس کا سانس رکنے لگا۔
اپنی حرکتیں بند کرو۔
اس کی انکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
جب عون نے دیکھا کہ وہ ہوش کھو رہی ہے تو اسے چھوڑ دیا۔
سمارا نے لمبے سانس بھرے۔
عون جو اس پہ جھکا ہوا تھا۔ ہاتھا پائی سے اس کی شرٹ کھل گئی تھی۔ سمارا نے اس کے سینے پہ نوچنا شروع کر دیا۔
عون نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے منہ کے بل پلٹ دیا۔ اس کی کمر پہ اپنا گٹنہ رگھ کے وزن ڈالا تاکہ وہ ہل نہ سکے۔
اور سمارا کا سکارف اتار کے ہاتھ باندھنے لگا۔
چھوڑو مجھے چھوڑو۔
لیکن اب وہ نہ ہل سکتی تھی نہ ہی وار کر سکتی تھی۔
پر اس نے عون کی کمر پہ زور زور سے کک کرنا شروع کر دیا۔
اس کی لمبی ہیل سے جب عون کو چوٹ پڑی تو وہ سانس بھر کے رہ گیا۔
اور اس کے ہاتھ باندھنے کے عمل کو تیز کر دیا۔
اس کے بعد بنا کوئی لمحہ ضائع کئے اس نے سمارا کو دوبارہ اس کی کمر کے بل پلٹ دیا اور اس پہ اپنا وزن ڈال دیا۔
سمارا کے ہاتھ اس کی کمر پہ باندھے جا چکے تھے جس وجہ سے وہ بلکل بھی ہل نہیں پا رہی تھی نہ مزید اپنا دفعہ کر سکتی تھی۔
اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آنے لگے۔
عون نے جھک کر اس کی گال کو سہلایا۔
اب تم کہیں نہیں جا پاؤ گی Mon Amour
۔۔۔
جب سمارا کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی اسے پتا تھا کہ عون کسی بھی لمحے واپس آ جائے گا تو وہ اٹھ کر باتھروم بھاگی۔
دروازے سے ٹیک لگا کر رونے لگی۔
عون نے اس کی توہین کی تھی۔
نہ جانے وہ وہاں کب تک روتی رہی۔ پھر اٹھ کر اپنا حلیہ درست کیا اور باہر نکل گئی۔
عون آنکھیں موندھے صوفے کی پشت سے سر ٹکائے بیٹھا تھا۔
سمارا کی نظر اس کی گردن پہ پڑے نشان پر گئی۔
جو اس کے نوچنے سے بن گئے تھے۔
وہ دیکھ کر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
آخر اس بار اس نے بھی اسے چوٹ پہنچائی تھی۔
کیا جو دیکھ رہی ہو وہ پسند ایا؟
______
اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے اگلی بات کی۔
یہ کپڑے پہن کر تیار ہو جاؤ ہم یہاں سے جا رہے ہیں۔
عون نے بیڈ پہ رکھے شاپنگ بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس نے پہلی بار اسے نوٹ کیا۔
میں کہیں نہیں جاؤں گی۔
اس کی بات سن کر وہ طنزیہ مسکرایا۔
کتنا مسکرانے لگا تھا اب وہ۔ کبھی وہ اس مسکراہٹ کو دیکھنے کے لئے مرتی تھی۔
تم چلو گی اگر تمہیں اپنی اس دوست جینٹ کی زندگی عزیز ہے۔
اس کی اس بات نے سمارا کے لئے فورأ فیصلہ کر دیا تھا۔
وہ خود کو مضبوط کرتی بیگ پکڑ کر چینج کرنے چلی گئی۔
جب وہ باہر نکلی تو عون نے اس کا بازو پکڑ لیا کہ کہیں وہ پھر کوئی حرکت نہ کرے لیکن اس میں اب اتنی ہمت نہیں تھی ۔
ویسے ڈیےگو کی پسند اتنی بھی بری نہیں۔
یہ کہ کر وہ اسے ہوٹل کے باہر کھڑی ایس-یو-وی میں لے گیا جہاں ڈیےگو پہلے ہی ان کا منتظر تھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر وہ اپنی زندگی پہ افسوس کر رہی تھی۔
اتنی محنت کے بعد بھی عون اس تک پہنچ گیا تھا اور اس کی قربانی معصوم جانوں نے دی تھی۔
نہ جانے اب اس کی زندگی میں کیا لکھا تھا۔ آسمان پہ ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔
عون نے پانی کی بوتل سمارا کی طرف بڑھائی۔ اس کا گلہ خشک تھا اس لئے پکڑ کر ایک ہی سانس میں آدھی بوتل پی گئی۔
لیکن پھر اس کے ہاتھ سے بوتل چھوٹ کر گر گئی۔
اور وہ اندھیری وادیوں میں کھو گئی۔
۔۔۔
جب اسے ہوش آئی تو اس کا سر بری طرح گھوم رہا تھا اور اسے ہر جگہ تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔
وہ کسی سخت جگہ پہ تھی۔
انکھیں کھولیں تو وہ فرش پہ تھی۔ اردگرد دیکھا تو اسے احساس ہوا وہ ویلا میں تھی۔
جہاں سے وہ بھاگی تھی واپس پہنچ گئی تھی۔
اس کے سامنے ہی عون کرسی پر بیٹھا تھا۔
ہاتھوں پہ وزن ڈالتی وہ اٹھنے لگی جب عون نے زناٹے دار تھپڑ مارا وہ دبارہ زمین پر گر گئی اور اس کا سر بری طرح سے فرش پہ ٹکرایا۔
اسے سب کچھ چکر کھاتا لگ رہا تھا جب عون اسے بالوں سے جکڑ کر کھینچنے لگا۔
مت کریں رک جائیں پلیز کہاں لے جا رہے ہیں مجھے۔
وہ اس کے زخموں اور آہوں سے لا پرواہ اسے کھینچے لے جا رہا تھا۔
تم نے آج تک میری محبت دیکھی ہے میرا غصہ نہیں۔
وہ اسے بےدردی سے کھینچ رہا تھا۔
بہت ہی اچھا سیٹ اپ کیا ہے میں نے تمہارے لئے تمہیں بہت پسند آئے گا۔
اس کی تکلیف سے لاپرواہ وہ اسے بیسمنٹ تک لے گیا۔