صبح ہو چکی تھی کمرے کے باہر عون کسی سے بات کر رہا تھا کچھ دیر بعد وہ کسی عورت کو لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ وہ عورت سمارا کے قریب آئی پہلے تو اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گئی۔ پھر خود کو سنبھال کر بولی۔
مسز عون میں ڈاکٹر ہوں آپ کا علاج میں ہی کروں گی۔
سمارا نے کوئی جواب نہ دیا۔ عون اسے ڈاکٹر کے ساتھ چھوڑ کر آفس میں چلا گیا۔
۔۔۔
زخموں سے خون بہہ کر جم گیا تھا۔ اور اس کا گاؤن اس وجہ سے چپک گیا تھا۔ ڈاکٹر نے قینچی سے اس گاؤن کاٹ کر اس کے زخموں کو صاف کرنا شروع کیا۔ دوائی نے اس کی تکلیف میں مزید اضافہ کیا اور وہ کراہ اٹھی۔
ڈاکٹر نے اس سے معافی مانگی اور دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا۔ اس کے پاؤں کی حالت کئی گنا بری تھی کیونکہ کمر پر اس کے کپڑوں کی وجہ سے زخم کم گھرے تھے۔
اس کے پاؤں پر دو جگہ سٹیچز لگے۔
۔۔۔
مسٹر عون میں نے ان کے زخم صاف کر دیے ہیں اور دوائی دے دی ہے پر انہیں آرام کی ضرورت ہے۔
وہ کافی لمبے عرصے تک ٹھیک سے چل نہیں پائیں گی۔ اور کمرایک ہفتے تک ٹھیک ہو جائے گی۔ تب تک انہیں دوائی دیتے رہیں اور زخموں پہ مرہم لگانا مت بھولیے گا۔
ٹھیک ہے آپ کی فیس آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی گئی ہے۔ اگر ضرورت ہوئی تو دبارہ بلواؤں گا۔
۔۔۔
مارتھا نے بھی اس کی حالت دیکھی تھی اور سمارا بہت دیر اس کے سامنے روتی رہی۔ اس کی بھی سمارا کے عمر کی ایک بیٹی تھی اور وہ سمارا کے لیے کافی جزبات رکھتی تھی۔
۔۔۔
عون نے آفس جانا چھوڑ دیا اور گھر سے ہی سب مانیٹر کرنے لگا۔
دو دن سے اس کے سمارا کے درمیاں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ زیادہ تر دوائی کے زیر اثر اوندھے منہ سوتی رہتی تھی۔ اس کے زخم پہلے سے بہتر تھے۔ اور اب وہ تھوڑا ہل بھی لیتی تھی۔
مارتھا آج جلدی واپس چلی گئی تھی وجہ اس کی بیٹی کی گریجویشن پارٹی تھی۔
۔۔۔
سمارا کو اب بھوک لگی تھی پہلے اس نے مارتھا کو منع کر دیا تھا پر اب اسے بہت بھوک لگ گئی تھی۔ مارتھا بھی نہیں تھی تو وہ خود ہمت کر کے اٹھی۔
______
وہ اپنے صحیح پاؤں پر بوجھ ڈالتی آرام سے کھڑی ہوئی اور پھر دیوار کا سہارا لے کر ایک پاؤں پہ چلتی ہال کی طرف بڑھنے لگی۔
ڈاکٹر نے اسے چلنے سے سخت منع کیا تھا کیونکہ اس کے سٹیچز کھلنے کا ڈر تھا۔ ہال میں بھی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گئی۔
آہ۔۔۔ شکر ہے کمر کے بل نہیں گری۔
وہ ہاتھوں پہ وزن دیتی کھڑی ہونے لگی جب مردانہ شوز دیکھ کر رک گئی۔ نظریں اٹھا کر دیکھا تو عون اس کے سر پر کھڑا تھا۔
اس نے جھک کر سمارا کو اٹھایا اور ہال میں صوفے پہ لےجا کر بٹھا دیا۔
تمہیں آرام کرنا چاہئیے۔
مجھے بھوک لگی ہے۔
عون نے اس کے اکھڑے انداز پہ اسے گھورا اور پوچھا کیا کھاؤ گی۔
بریانی۔
سمارا جانتی تھی کہ بریانی فریج میں نہیں ہوگی۔ اس لیے اپنے انداز میں غصہ نکالا۔
عون کچن میں گیا فروٹ سیلڈ کا باؤل نکال کر اسکا ریپر اتارا پھر گلاس میں جوس بھرا ایک سینڈوچ نکا لا سب کچھ ٹرے میں رکھا اور سمارا کے ساتھ صوفے پہ رکھ دیا۔
ایسی حالت میں تمہیں مصالحہ دار غزہ نہیں کھانی چاہئیے سمارا جو سکون سے بیٹھنے کے لیے اب پوزیشن چینج کر رہی تھی۔ اس کی بات پر رکی پر پھر زاویہ بدلنے لگی۔
عون نے اسے اٹھا کر ایک اور کشن رکھا اور اس پہ بٹھا دیا۔
سمارا سینڈوچ کھانے لگی تو عون وہاں سے چلا گیا کچھ دیر بعد واپس آیا اور اس کے سامنے میز پر بیٹھ گیا۔
اس کا پاؤں پکڑ کر گود میں رکھا اور دوائی لگانے لگا۔
پہلے تو جلن سے وہ سسکیاں بھریں پر پھر برداشت کرنے لگی۔
عجیب انسان ہے زخم بھی دیتا ہے دوا بھی وہ سوچ کے رہ گئی۔
عون اٹھ کے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پر پھر بولنے لگا۔
جب میں چھوٹا تھا تو بہت بے بس اور لاچار تھا۔
اس کی آواز سن کر سمارا سینڈوچ بھول گئی۔ اس کی آواز کھیں بہت دور سے آئی تھی۔ وہ کہیں اور ہی تھا۔
عون نے اپنی پیشانی اس کے سر پہ ٹکا دی اور اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔
میں وہ سب محسوس نہیں کرنا چاہتا پر
جب تمہیں کوئی چھوتا ہے یا تم ساتھ نہیں ہوتی تو میں خود کو وہی ڈرا ہوا بچہ محسوس کرتا ہوں جو اس حالت سے نکلنے کے لیے کچھ بھی کرے گا۔ میں چاہ کر بھی روک نہیں پاتا۔ اس وقت میں کوئی اور ہوتا ہوں۔
جو تمہارے ساتھ ہوا وہ دوبارہ نہ ہو اس کی ذمےداری تم پہ ہے۔
یہ کہ کر عون نے سمارا کے کان کی لو کو چوما اور چلا گیا۔
______
اس نے پہلی بار خود کو ایسے کسی کے سامنے رکھا تھا یہ کہنا اس کے لیے کتنا مشکل تھا صرف وہی جانتا تھا لیکن سمارا کے پاس سوچنے کے لیے اس وقت اور بہت کچھ تھا اس لیے اسے اہمیت نہیں دی لیکن اس کے بعد ایک نوالہ بھی اس کے حلق سے نیچے نہ اترا۔
عون سمارا کو چیک کرنے آیا تو وہ اوندھے منہ صوفے پر سو رہی تھی۔ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے اس نے سمارا کو اٹھایا اور کمرے میں لے گیا۔
۔۔۔
مارتھا تم جو بھی کہنا چاہتی ہو کہہ دو۔
مارتھا اس کے کمرے میں ناشتہ لائی تھی پر کچھ سوچ کر اس کے پاس بیٹھ گئی پھر جانے لگی اور جاتے جاتے پلٹ گئی۔
مسز عون پتا نہیں مجھے بتانا چاہئیے کہ نہیں پر آج نیچے لابی میں میری ملاقات کسی میں اور لوفین سے ہوئی۔ وہ مین ڈیسک سے آپ کا پوچھ رہے تھے۔
کیا میکس اور لوفین یہاں۔
نہیں میں نے واپس بھیج دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ آپ کے بارے میں پریشان ہیں آپ ان کی کوئی کال ریسیو نہیں کر رہیں۔ تو وہ آپ سے ملنے آ گئے۔
اگر ڈیےگو یا مسٹر عون کو پتا لگا تو مسئلہ ہوگا آپ کے لیے اس لیے میں نے انہیں یہاں آنے سے منع کر دیا۔
میرا فون۔ میرا فون ہے کہاں پہ۔ اسے اب ہوش آئی تھی کہ اس کا فون تو تھا ہی نہیں اس کے پاس۔
وہ مسٹر عون کے پاس ہے۔
عون کہ پاس کیوں۔
معلوم نہیں۔
ان دونوں کو کتنا برا لگ رہا ہو گا۔ مارتھا کیا میں تمہارا فون استعمال کر سکتی ہوں۔
مجھے یہاں فون لانے کی اجازت نہیں ہے مسز عون۔
اوہ۔۔۔ کیا تم میرا ایک کام کر سکتی ہو۔
اینی تھنگ فار یو۔ مارتھا نے مسکرا کر کہا۔
تمہیں کل ہوسپٹل جا کر میکس مکینکجی سے ملنا ہو گا۔ اور اسے میری طرف سے معافی مانگنی ہو گی۔ اور اسے کہنا کہ میرا فون گم گیا ہے تو میں کچھ عرصے بعد بات کروں گی۔
ٹھیک ہے مسٹر عون۔
۔۔۔
رات ہو چکی تھی۔ عون روز کی طرح اس کے پاس بیٹھا اسے خود سوپ پلا رہا تھا ۔ یہ اس کی معافی کا انداز تھا۔
سمارا اس سے کوئی فالتو بات نہیں کرتی تھی پر آج کرنی پڑی۔
مجھے میرا فون چاہئیے۔
عون کا سمارا کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔
ایک مہینے بعد۔
کیوں ابھی کیوں نہیں ؟
اپنے لہجے کو درست کرو لڑکی۔ اور دوبارہ سوال نہیں۔
مجھے نہیں پینا سوپ ۔
ٹھیک ہے دوائی کھاؤ اور سو جاؤ۔
اس نے ڈش اٹھاتے ہوئے کہا۔
۔۔۔
مارتھا کیا بات ہوئی میکس سے۔
نہیں مسز عون اب وہ وہاں کام نہیں کرتے۔
کیا مطلب۔
انہیں نکال دیا گیا ہے۔
________
ان کا کنٹرکٹ ختم کر دیا گیا ہے۔
عوووون۔ یہ سب عون نے کیا ہے۔
آہستہ مسز عون کہیں وہ سن نہ لیں۔
میری وجہ سے یہ کیا ہو گیا۔
حوصلہ رکھیں۔میں نے ان کا نمبر حاصل کر لیا ہے میں ان سے بات کر لوں گی پر بہتر ہے آپ میکس کے بارے میں سوچ ختم کر دیں۔
ہوں ں ں۔
۔۔۔
سمارا نے عون سے بات مکمل طور پر بند کر دی تھی وہ اکیلی پاگل ہونے لگی۔ اس نے سوچ لیا تھا اسے پاکستان جانا ہے بس کہنے کی ہمت نہیں لا پا رہی تھی۔
اس کی کمر اب ٹھیک ہو گئی تھی صرف نشان باقی تھے پر ڈآکٹر کا کہنا تھا وہ بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔
اس کا پاؤں ابھی بھی ٹھیک ہو رہا تھا۔ سٹیچز اتر گئے تھے۔
پر وہ کچھ سیکنڈ سے زیادہ وزن نہیں دے پاتی تھی اس لیے لنگڑا کر چلتی۔
مارتھا یا عون ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وہ سٹڈی روم میں جانے لگی۔ وہاں زیادہ تر کتابیں بزنس یا سائیکالوجی پر تھیں۔ ڈیےگو کے ذریعے اس نے کچھ ناول منگوائے۔
تقریبا سارے کپڑے مارتھا کو دے دیے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے لے جائے اور باقی ڈونیٹ کر دے۔
وجہ عون کو تنگ کرنا تھی۔ پر اس نے اگلے دن اور کپڑوں سے ہی وارڈروب پھر بھر دیا۔
آخر کار مہینہ ختم ہونے کو تھا۔ اس کا پاؤں بھی کافی حد تک ٹھیک تھا۔
اتنے عرصے سے ہمت جمع کر کے اس نے آج بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
عون کے آفس روم میں گئی۔ وہ کسی سے لائیو میٹنگ کر رہا تھا۔ سمارا کو دیکھ کر اس نے میٹنگ ختم کر دی اور اسے بیٹھنے کا کہا۔
کیا بات ھے سمارا۔
مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ لہجہ مضبوط بنا کر کہنے لگی۔
بولو Mon Amour
_______
مجھے گھر جانا ہے۔
عون جوکہ اب ایک فائل پڑھنے میں مصروف تھا اس کی بات سن کر چونکا۔
تم گھر ہی ہو سمارا۔
نہیں مجھے گھر جانا ہے۔ مجھے پاکستان جانا ہے۔
سمارا نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔
عون کو اس کی باتوں سے غصہ آنے لگا ۔
اپنے کمرے میں جاؤ اس بارے میں بات نہیں ہوگی۔
سمارا کو بھی اس کے ہر وقت کے رویے پہ غصہ آ گیا۔
ایک دم کرسی پیچھے دھکیل کر کھڑی ہو گئی جس سے کرسی گر گئی۔
بس بہت ہوا میں جا رہی ہوں یہاں سے مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ مجھے میرے گھر جانا ہے۔
اس کی باتیں اور رویہ برداشت سے باہر تھا۔
عون کے چہرے کے زاویے بگڑنے لگے۔
تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا ؟
جی نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ۔
عون نے ایک دم ڈیسک میں بنے دراز کو کھولا اور اس میں سے بندوق نکال لی۔
گن عون کے پاس گن بھی ہے۔ پہلے تو وہ وہی جمی رہی پھر عون کو اپنی طرف آتا دیکھ کر پیچھے کو قدم اٹھانے لگی۔
مگر عون اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے سمارا کی بازو کو دبوچ لیا اور اس کی کنپٹی پر گن رکھ دی۔
اور چلانے لگا۔ تمہیں نہیں رہنا میرے ساتھ۔ میں تمہاری جان لے لوں گا اگر تم نے کبھی مجھ سے دور جانے کی کوشش کی تو۔
سمارا کا حلق خشک ہو گیا اور اس پہ کپکپی طاری ہو گئی۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ عون۔ دور ہٹائیں اسے پلیز۔
مجھ سے دور جانے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے ۔ بتاؤ جانا ہے۔
نہیں نہیں جانا پلیز عون مت کریں ایسا۔ بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
خوف سے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔
اب عون نے اس کی ٹھوڑی کو زور سے پکڑ لیا۔
یہ ہماری کہانی ہے Mon Amour
اور یہ تب تک نہیں رکے گی جب تک ہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے۔
یہ کہ کر عون نے اسے دھکا دیا۔ پہلے سے گری کرسی سے ٹکڑا کر وہ گر گئی۔
عون دوبارہ اپنے ڈیسک کی طرف مڑ گیا۔ اور سمارا نے جتنی جلدی ہو سکے خود کو سمبھالا اور کمرے میں بھاگ گئی۔
بیڈ کے سائیڈ پہ زمین پر سکڑ کے بیٹھ گئی۔ اور اپنی سسکیوں کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
عون ۔۔عون مجھے مار دیں گے نہیں مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔ بابا مجھے نہیں رہنا یہاں۔
آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا۔
مجھے لے جائیں یہاں سے پلیز۔
وہ عالم وحشت میں خود سے باتیں کرنے لگی۔
۔۔۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا پاکستان جانے کا اور عون سے چھپ کر نکلنے کا۔
بس اب اس پر عمل کرنا باقی تھا۔
وہ موقعہ کی تلاش میں رہنے لگی۔