واؤ۔۔۔ کتنا خوبصورت ہے سب کچھ۔
وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی چلی جا رھی تھی۔ اس بات سے انجان کہ وہ انجوائے کرتے ہوئے کتنی دور آ گئی تھی۔
وہ زندگی میں پہلی بار گاؤں آئی تھی اس کے انداز سے ایسے لگ رھا تھا جیسے وہ سب کچھ خود میں سما کر ساتھ لے جائے گی۔
لہراتی ہوئی فصلیں اور کھلے ہوئے پھول سب کچھ ہی اسے فیسینیٹ کر رہے تھے۔
چہچہاتے ہوئے پرندے سماں اور خوبصورت کر رھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیضان حسین اپنی بیگم صفیہ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ پہلی بار گاؤں آ ئے تہے۔ انھوں نے اپنی تایا زاد سے شادی کی جگہ پسند کی شادی کی تھی جس وجہ سے انہیں گھر چھوڑ کر جانا پڑا۔ اب وہ اپنی بیمار ماں کی تیمارداری کرنے آ ئے تہے۔
ان کی سب سے بڑی بیٹی سمارا جو ابھی تھرڈ ائیر کے ایگسیمز دے کر فری ھوئی تھی بہت لاپروا تھی۔
ان کی دوسری بیٹی آ ئمہ کو پڑ ھائی کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھتا تھا جو کہ ابھی فرسٹ ائیر میں تھی۔
سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو ساتویں جماعت کا طالب علم ھونے کے ساتھ بڑی بہن کا شرارتوں کا شاگرد بھی تھا۔
۔۔۔
یہ سمارا کھاں پر ھے۔ فیضان صاحب نے اسے کہیں نا پا کر آئمہ سے پوچھا۔
بجو تو آ تے ہی باہر چلی گئی تھی وہ کہ رہی تہیں کہ انکو سب کچھ دیکھنا ہے۔
اف ہے ایک تو یہ لڑکی سمجھا یا بھی تھا کہ غیر جگہ جا کر کھیال کرے پر حد ھے اگر یہ سن لے تو۔
فیضان صاحب اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے باہر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔
ارے واہ یہ پھول کتنے پیارے ہیں بابا کو کہوں گی کہ ایسے پھول لائیں۔
ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کہ کتوں کے بھونکنے کی آ واز پر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
تین کتوں کا جھنڈ اسی کی طرف بھاگ رےا تھا۔
اسے کتوں کا اور اندھیرے کا فوبیا تھا۔ ایک پل لگا تھا اسے دوسری سمت بھاگنے میں۔
کچھ دیر بعد اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ اس کے کافی قریب تھے اس نے رفتار مزید بڑ ھا دی۔
وہ چیختے ہوئے بھاگ رھی تھی کہ اچھانک کسی سے ٹکرا کر گری۔
اس نے سر اٹھا کر سامنے دکھا تو بے حد ہینڈسم شخص کو متوجہ پا کر اسے دیکھنے لگی۔
امپورٹق جینز اور شرٹ میں وہ ھالی وڈ کا ہیرو لگ رہا تھا۔
کالے بال کے ساتھ shadowo 5' 0 clock غضب ڈھا رھا تھا۔
یہ پاکستانی تو نھی لگ رھا وہ اسے دیکھتے ہوئے باکی سب بھول گئی۔
وہ تھا ہی ایسا۔
آ ر یو اوکے وہ جھک کر پوچھنے لگا تو ایک دم ہوش میں آ کر دیکھنے لگا۔
اوسان سمبھالتے ہی اس نے دیکھا تو سب کتے اب پاس ہی بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ ضرور پالتو تھے۔ ان کو دیکھتے ہی وہ جھٹ سے کھڑی ہوئی اور اس چھ فٹ پانج انچ کے شخص کے پیچھے چھپ گئی۔
ڈرو نہیں یہ کاٹیں گے نھیں۔ تم ان سے جتنا ڈرو گی یہ تمہیں اتنا ڈرائیں گے۔ یہ کہتے ہوئے وہ ان میں سے ایک کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
وہ کھڑی خوف سے سب دیکھ رہی تھی ان اپنا سانس بحال کر رہی تھی۔
سمارا نے اسے خود کو دیکھتے ہوئے کتوں کو پیار کرتے دیکھا تو اپنا خوف چھپانے کے لیے اسے بولنے لگی۔
کیا یہ آپ کے کتے ہیں جب سامنے سے جواب نہیں ملا تو مزید غصہ میں آ کر کہنے لگی۔
کیا یہ کوئی طریقہ ہے جانوروں کو پالنے کا کہ جسے دیکھا اس کے پیچھے لگ گئے۔
وہ مزید بولنے والی تھی کہ ایک طرف سے ایک آدمی کی آواز آئی۔
ارے صاحب! آپ یہاں آئے مجھے بلا لیا ہوتا۔ وہ اس ہالی وڈ کے ایکٹر سے مخاطب تھا۔
نعیم اس لڑکی کو ہمارے کتوں نے پریشان کیا ہے آپ ان سے پوچھ کر ان کے گھر چھوڑ آئیں۔ اس کا جواب دینے کی جگہ اس نے اپنی بات کہی تھی۔
ارے ایسے کیسے کوئی معافی ہوتی ھے آپ کو ایسے جانور قید میں رکھنے چاہیے سمارا نے فٹ سے کہا تھا۔
سمارا کی بات سنتے ہی اس نے ان نظروں سے اسے دیکھا تھا کہ وہ بے اختیار ہی کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی۔ پتا نہیں ایسا کیا تھا جو اسے اتنا خوفزدہ کر گیا۔
چلو بیٹی میں تمہیں چھوڑ آؤں۔نعیم نے فوری ھے کھا۔ اور وہ بس جی کہ کر اس کے ساتھ چل پڑی۔
سمارا کو نعیم کے ساتھ جاتے ہوئے اس نے تب تک دیکھا تھا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی تھی۔
ان کے جانے کے بعد فضا میں تین بار گولیوں کی آواز گونجی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مل گئی وہ آپ کو۔ صفیہ بیگم نے اپنے شوہر سے پوچھا جس پر انہوں نے نہ میں سر ہلایا تھا۔
آ جائے آج یہ چھوڑوں گی نہیں آج اسے۔ اور آپ اب مجھے روکیں گے نہیں۔ وہ پریشانی کے عالم میں بڑ بڑانے لگی تہیں۔
امی بجو آ گئی۔ حمزہ انھیں صحن سے اطلاع دینے آیا تھا۔
دونوں میاں بیوی رب کا شکر کرتے ہوئے باھر کو لپکے تہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ارے امی میری پیاری امی غصہ کیوں ہوتی ہو۔
صفیہ بیگم نے ایک اور جوتا چھوڑ کر مارا تھا اسے اور اسے بھی ڈوج کر گئی تھی۔ میں کہتی ہوں کہاں تھی تو۔ امی بتایا تو میں چلتے ہوئے دور نکل گئی اور میرے پیچھے کتے پڑ گئےتہے۔
______
اور ان کتوں سے بچتی میں بھت دور نکل گئی۔ آپ تو جانتی ہیں مجھے کتوں سے کتنا ڈر لگتا ہے۔
سب گھر والے جانتے تھے کہ وہ ان سے بہت ڈرتی تھی اور اس کی وجہ تھی بچپن میں ایک میں اسے ایک بار کتے نے بھت بری طرح کاٹا تھا۔
کتوں کا سنتے ہی صفیہ بیگم اپنا غصہ بھول گئی اور اسے پاس بلا کر دیکھنے لگی آخر ماں تھیں زیادہ دیر غصہ کیسے رہتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات کا وقت تھا۔ وہ اکیلا حویلی میں کھڑا گھری سوچ میں تھا۔
اس جگہ کی ہر چیز کو اس عورت نے چھوا ہو گا وہ جتنا یہ سوچتا اس پر اتنی ہی وحشت طاری ہوتی جاتی۔
صاحب جی آپ نے جو کہا میں نے ویسے کر دیا ہے۔ پر آپ ایک بار پھر سوچ لیں۔
اگر مجھے مشورے کی ضرورت ہوتی تو میں پوچھ لیتا۔ انتہائی غضب دار آواز میں جواب آیا تھا۔
میں اس جگہ کی ہوا میں ایک بار بھی اور سانس نہیں لینا چاہتا۔ یہ کہتے ہوئے وہ باہر چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ گاؤں کے اور بھی بھت سے افراد مدد کے لیے آئے تھے۔
آگ ساری حویلی میں لگی تھی اور بھت تیزی سے پھیلی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگ کیسے لگی سوائے دو لوگوں کے جو شور سے دور رات کے اندھیرے میں یہ سب دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب جی اب کیا آپ واپس چلے جائیں گے؟
مجھے یہاں ابھی ایک اور کام ہے اس کے بعد چلا جاؤں گا۔
صاحب جی میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے پر آپ یہاں کے اکلوتے وارث ہیں۔ آپ کے دادا کی وفات کے بعد بھی ملازم یہاں کام کرتے تھے اور ان کا روزگار اب چھن گیا ہے اب سب کا کیا ہو گا۔
وہ اس کا جواب دیئے بغیر گاڑی کی طرف بڑھ گیا اور نعیم بھی ایک ٹھنڈی آہ بھرتے اس کے پیچھے چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔
آگ کی خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی تھی۔ شہر سے آگ بجھانے کی ٹیم ائی تھی۔ آگ بجھا تو دی تھی پر اب بس جلا ہوا ملبہ بچا تھا۔
لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا تھا۔ سب ملازم پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا۔ گاؤں کے سب لوگ برسوں پرانی حویلی کا آخری حال دیکھنے لیے تھے اور افسوس کر کے واپس جاتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل رات حویلی میں لگ بھڑک اٹھی وجہ کسی کو معلوم نہیں پر اب بس ملبہ بچا ہے میں ابھی دیکھ کے آ رہا ہوں۔
حسین صاحب اپنے بیٹے فیضانِ اور اس کے گھر والو نے پوچھا۔
اوہو بہت افسوس ہوا پر میرے خیال سے تو اس حویلی کی مالکن امریکہ رہتی ہے۔
______
اب تو ان کا ایک اکلوتا بیٹا ہی شہر اور گاؤں میں ساری جائیداد کا وارث ہے۔
بابا جان کیا ہم بھی جائیں مجھے بھی وہ جگہ دیکھنی ہے۔ حمزہ نے پوچھا۔
ارے تم نے جلا ہوا ملبہ دیکھ کے کیا کرنا ہے فیضان صاحب نے کہا۔
ارے جانے دو بچوں کو اسی بھانے گاؤں بھی دیکھ لیں گے۔
یہ سنتے ہی حمزہ اور سمارا نے we love youuu دادا جان کا نعرہ لگایا تھا اور آئمہ کو بھی لے کر باہر بھاگے تھے۔
۔۔۔۔۔
عون کو پولیس نے بلایا تھا۔ اس جگہ کا وارث ہونے کی وجہ سے کچھ معاملات پر بات لازمی تھی۔
اب نعیم اسے واپس ڈرائیو کر رہا تھا جہاں وہ اتنے دنوں سے ٹھر رہا تھا۔
کہ اچانک ایک لڑکی ان کی گاڑی کے سامنے سے گزری اور اس نے گاڑی روک دی۔
لڑکی نے پیچھے مڑ کر کان پکڑ کر معافی مانگی اور دبارہ آگے بڑھ گئی۔
نعیم یہ وہی لڑکی ہے نہ جسے کل میں نے آپ کو گھر چھوڑنے کا کہا تھا۔
جی صاحب یہ وہی ہے۔
کون ہے یہ۔ عون نے پوچھا۔
یہاں کی نہیں ہے صاحب کوئی مہمان ہو گی۔
نعیم نے عون کو دیکھا جو ابھی بھی وہ جگہ دیکھ رہا تھا جہاں وہ لڑکی غائب ہوئی تھی۔
نعیم جہاں اپنے مالک کی فرمانبرداری کر رہا تھا۔ وہیں وہ اس شخص سےخوف زدہ بھی تھا۔
وہ کب کیا سوچتا تھا سمجھ نہیں آتا تھا۔ نہ ہی کبھی مسکرایا تھا۔ چہرے سے اسے پڑھنا نہ ممکن تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ وہ امریکہ کا ایک مشہور بزنس ٹائیکون تھا۔
پاکستان پہلی بار آیا تھا اور کچھ دن بعد واپس جا رھا تھا۔
اس کی اگلی بات نے نعیم کو حیران کر دیا تھا۔
یہاں پاکستان میں شادی کا کیا میرٹ ہے نعیم۔
ص۔۔صاحب یہاں لڑکے کے گھر والے لڑکی کے گھر جا کے اس کے ماں باپ سے لڑکی کا ہاتھ مانگتے ہیں اور باہمی مشورے سے رشتہ طے ہوتا ھے۔
I see
میں چاہتا ہوں آپ اس کے گھر میری طرف سے شادی کا پیغام لے کر جائیں۔
اس کی بات نعیم کو اور حیران کر گئی تھی۔ اور اسے عون کی والدہ یاد آ گئی وہ بھی ضدی اور اپنی مرضی کی مالک تھی۔
ماں باپ کی اکلوتی اولاد تہی۔ ہر خواہش پوری ہوتی تھی۔
امریکہ پڑھنے گئی تھی اور ایک italian سے محبت ہو گئی۔ ماں باپ نے خاموشی سادھ لی اور اس سے شادی ہو گئی۔
وہ ایک وجیہہ اور خاندانی امیر شخص تھا۔