یار لفظوں میں کہاں لکھتا ہے
بس اشاروں کی زباں لکھتا ہے
جس کی ہر سانس مجھے نشتر ہے
وہ اسے عمرِ رواں لکھتا ہے
میں جلاتا ہوں پرانی یادیں
اور چمنی کا دھواں لکھتا ہے
آپ کے لفظ سکوں دیتے ہیں
گو مجھے ایک جہاں لکھتا ہے
صبح بھیگا ہوا آنچل بولا
کوئی تکیے پہ فغاں لکھتا ہے
کیسے گمنام جیوں روز و شب
وقت ہے، نام و نشاں لکھتا ہے
ایک دن خود ہی ہنسے گا پڑھ کر
وہ جو رودادِ زماں لکھتا ہے