میں یہ سمجھتا ہوں کہ موزونیء طبع فطرت کا ایک انمول عطیہ ہے اگر قدرت مہربان نہ ہو تو بڑے سے بڑے عروض داں اور عالم ٖ فاضل سوزِ دروں کے اظہار میں شاعری کی بساط بچھانے میں نا کام ہو جائیں۔ یہاں یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ میری ذہنی ساخت کلاسیکی شاعری سے اتنی شناسا ہے کہ جدید شاعری کے شہکار سے اوراُس کے مقام و مرتبہ سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔۔۔ اِ س اعتراف کے بعد یہ بھی اقرار کرتا چلوں کہ میںتنقیدی تحریر میں بھی خاصا کچا ہوں لیکن جب میں نے جناب صادق باجوہ صاحب کے زیرِ طبع مجموعہء کلام کو کہیں کہیں سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ امریکا میں دو عشروں سے زیادہ قیام پذیر ہونے کے باوجود ، وہ اپنے روایتی ورثہ کونہیں بھولے اور جہاںبھی اپنے’’ وارث‘‘ ہونے کا احساس پیدا ہوا ہے تو انہوں نے بلا تکلف کہا ہے۔
جبر کے سامنے بھی سینہ سپر ہو ہو کر
اپنے اسلاف کے ورثہ کو بچا رکھا ہے
اسلاف کے ورثہ کی حفاظت کے لئے جبر کے خلاف سپر افگنی کوئی معمولی کام نہیں ہے۔یہاں مجھے اپنے والد، حضرت صبا اکبرآبادی کی ایک غزل کا شعر یاد آگیا۔
بزرگوں کی روایت کو بچانے
شکستہ قلعہ کا فوجی رہا ہوں
جناب صادق باجوہ نے اسلاف کے ورثہ کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہونے کے ساتھ ایک شعر ایسا بھی کہا ہے جو عہدِ حاضر کی شیشہ گری کی سیاست میں رنگا ہوا ہے اور کسی بھی جابر اور سامراجی قوت پرمنطبق ہو سکتا ہے، اور اپنی سیاسی بازی گری کے ایک ماہر جن کو اپنی تیسری آنکھ سے اسلامی دنیا میں بنیاد پرست بھی نظر آتے ہیں اور دہشت گرد بھی دکھائی دیتے ہیں، اُن پر تو بالکل چسپاں ہوتا ہے،شعر سنئے۔
ظلم کا خوگر نئے بہروپ میں
دندناتا پھر رہا ہے بے خطر
مذہبی یا دینی شاعری کسی بھی شاعر کا امتحان ہوتی ہے۔دِین میں حقیقت اور اظہارِ عقیدت کے علاوہ شاعری کی گنجائش کم سے کمتر ہوتی ہے۔ لیکن جو شاعرمذہبی حقیقت و عقیدت کو شاعری کے سانچے میں بھی ڈھال دیتا ہے وہ خواجہ الطاف حسین حالی بن جاتا ہے، محسن کاکوروی ہو جاتا ہے یا پھر علامہ اقبال کہلاتا ہے۔۔ ہمارے
صادق باجوہ صاحب نے بھی اپنے جذبہء عقیدت کے بحر بے کنار کی گہرائی سے یہ گہرِ آبدار برآمد کئے ہیں۔
احمدؐ مجتبیٰ کی امت کو
کچھ تو اب نیک نام کرمولا
سب گناہوں کو بھول جا میرے
اک یہ بخشش ہی دان کرمولا
صادق صاحب کی دعا کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ اِن کے دوسرے شعر میںعرقِ انفعال کے ساتھ اعترافِ گناہ پر عفو و در گذر کی دلسوزی اور درد مند آرزو مندی بھی ہے۔اِن دو دعائیہ اشعار کے علاوہ یہ نعتیہ شعر بھی سنئے۔
گناہوں میں گھرا ہوں اک ذرا چشمِ کرم مجھ پر
مرے حامی‘ مرے آقا‘ مری سرکار ہو جائے
چلے کچھ بھیگتے اشکوں کا نذرانہ لئے صادق
اگر ہو بخت یارائی تو بیڑا پار ہو جائے
عقیدت کے ان گلہائے تر کے بعداب چندایسے اشعار سنئے جن میں صادق باجوہ صاحب عروسِ غزل کی حنا بندی کرتے نظر آتے ہیں جن میں جذبہ و خیال کی فراوانی کے ساتھ زخمِ تمنا کی گلابی لہریںاپنے ساتھ قاری کو بہا لے جانے کی قوت رکھتی ہیں۔
بھٹک گیا ہوں مگر راستہ نہ پوچھوں گا
عجیب ضد ہے کہ دل میں بٹھائے بیٹھا ہوں
اِس شعر میں ضد کو عجیب کہہ کر خود اعتمادی کو خضر بنا دیا ہے۔ اب جس شعر کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اُس میں غمِ دوراں پر اظہارِ تاسف کے ساتھ ایک عجیب انداز میں حسرتِ داد خواہی کا رنگ نظر آتا ہے۔ع
تلاش و فکر و امید و رِجا‘ رہی صادق
بسر جو چین سے ہو جائے وہ حیات کہاں
اور اب آخر میں یہ شعر دیکھئے۔
آنکھیں خوشیوں سے بھیگتی ہیں ضرور
جب کوئی بھولا غمگسار آئے
مذکورہ شعر میں جذبہ و شعور کی رو نہایت دل گداختگی کے ساتھ رچی بسی ہے اور ذاتی واردات کو اِس خوبی سے ادا کیا گیا ہے کہ باطنی کیفیت اپنے پورے تعلق ِ خاطر کے ساتھ اُجاگرہوکے جذبِ دروں کی دل سوز حسی ترجمانی کرتی ہے۔جناب صادق باجوہ ، میرے مشفق و مہربان دوست اور مشہور و معروف شاعر و ادیب حیدر قریشی کے عمِ محترم ہیں طبعاََ شہرت سے گریزاں، عزلت پسنداور گوشہ نشیں ہیں۔ اِس خلوت پسندی اور نمود و نمائش کے عہد میںرہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی شعری خصوصیات کے چراغ کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیا اور اب اُن کے شعری سرمائے کا ایک حصہ ’’ میزانِ شناسائی‘‘ کے خوبصورت عنوان سے اہلِ ذوق اور اہلِ نقد و نظر کے سامنے آرہا ہے۔۔۔ دیکھیں اِس کتاب نا شناس عہد میںایک شہرت نا شناس شاعر کے مجموعہء کلام پر کیا گزرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔