نازؔ مظفر آبادی کی شاعری میں نفسیاتی شعور
مرحلے بیچ میں کئی آئے، ہم کلامی سے ہم نوائی تک
نازؔ اک عمر کی مسافت ہے، حرف سے حرف آشنائی تک
کسی بھی نثری فن پارے پر تحقیقی نقطہ نظرسے کوئی رائیقائم کرنا شاید اتنا مشکل نہیں ہوتا ،جتنا کہ کسی شعری مجموعے پر اپنے خیالات کا اظہار دقیق معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ نثری تحاریر عموماً کسی خاص موضوع پر لکھی جاتی ہیں اور ان پر کوئی محقق نسبتاًآسانی سے اپنی تحقیق مکمل کر لیتا ہے۔مگر شاعری چونکہ مختلف موضوعات ،خیالات ،احساسات ، جذبات ،مشاہدات اور تجربات کے گرد گھومتی ہے لہذا محقق کو اپنا راستہ تلاش کرنے اور پھر اس راستے پر درست سمت میں مسلسل گامزن رہنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس مختصر سی تمہید کی روشنی میں اگر ہم ڈاکٹر راحیلہ خورشید صاحبہ کی تحقیقی کتاب "ناز مظفرآبادی کی شاعری میں نفسیاتی شعور " جیسے مشکل موضوع کے انتخاب پر نظر ڈالیں تو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ نفسیات کاتعلق انسان کی شخصیت کے اندرونی معاملات سے ہوتا ہے۔جو اسکے قول و فعل ،رویوں اور مختلف صورت حالات میں اس کے ردعمل سے جانچا جاتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہی ناز مظفر آبادی کا شعر ان کی شاعری کے ذائقے کا بہترین عکاس ہے:
یہ صرف مجھ پہ ہی کیوں انگلیاں اٹھاتے ہیں
میں نفسیات سمجھتا ہوں شہر والوں کی
کسی شاعر کے نفسیاتی شعور کو اس کے شاعرانہ ذریعہ اظہار سے جانچنا اور اس جانچ کو قابلِ قبول ِعام بنا کر پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کسی شاعر کی چھ کتابوں کی عرق ریزی سے ورق گردانی کرتے ہوئے ان میں سے نفسیاتی شعور کی جانچ اور اس کا ممکنہ پس منظر پیش کرنا الگ مشکل امر ہے۔کتابی صورت میں ڈاکٹر راحیلہ خورشید کے اس تحقیقی مقالے کے منظر عام پر آنے سے اردوادب کے دامن میں ایک خوبصورت اضافے کا احساس ہوتا ہے۔ اس کتاب کے شروع سے آخر تک اتنی محنت اور جانفشانی سے کام کیا گیا ہے کہ بلا خوف تردید داد وتحسین دینی پڑتی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کے تحقیقی کام میں جو عنصرنمایاں ہے اسے جزیات بینی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی تحقیق کی ابتدا ہی ناز مظفر آبادی کے شعری مجموعوں کے عنوانات میں چھپے نفسیاتی عوامل سے کی ہے۔اس کے فوراً بعد انہوں نے انتساب پر اپنی تحقیقی نگاہ مرکوز کی اور مختلف رشتوں سے انسانی نفسیاتی وابستگی کو اپنے مقالے کا ایک خوبصورت حوالہ بنا دیا۔ جبکہ عموماً یہ دونوں پہلو یعنی کسی کتاب کا نام اور انتساب یا تو
چھیڑے ہی نہیں جاتے اور یا پھر سر سری طور پر جائزے میں آتے ہیں۔مگر ڈاکٹر راحیلہ صاحبہ نے جس اہتمام سے ان دونوں پہلوؤں کے نفسیاتی محرکات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جزیات سے کل کی طرف جانیوالی چشم رسا کی حامل ہیں۔ڈاکٹر راحیلہ نے بڑی مہارت سے ناز مظفر آبادی کی شاعری کے مندرجات میں سے نفسیاتی شعور کو ڈھونڈ نکالا اور بڑی خوش اسلوبی سے اسے اپنی تحقیق کا حصہ بنایا۔ناز مظفر آبادی کی شاعری میں موجود رجائیت،قنوطیت،ماضی پرستی،نرگسیت اور احساس برتری جیسے نفسیاتی عوامل کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔شاعری میں موجود علامتوں کے نفسیاتی حوالوں کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ناز مظفر آبادی نے اپنی شاعری میں علامتوں کے استعمال سے انفرادیت کا رنگ قائم کیا ہے اور نفسیاتی آہنگ کو بڑے سلیقے سے اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ قیامت خیز زلزلہ کے بعد مظفر آباد میں جو صورت ِحال سامنے آئی ان حالات ،عوامل اور نفسیاتی الجھنوں کا بھرپور تجزیہ کیا گیا ہے۔
بھوک ،بیماری، ہلاکت ،نفرتوں کی زد میں ہے
آدمی کی ذات کتنے زلزلوں کی زد میں ہے
آگے چل کر دیکھیں تو ناز صاحب کی دیگر کتب پر کی گئی تحقیق کا بھی یہی اسلوب نظر آتا ہے۔پھر اس مقالے کی واضح خوبی یہ بھی ہیکہ ڈاکٹر صاحبہ نے اردو ادب کے ساتھ نفسیات کا تعلق بھی ایک پورے باب کی حیثیت سے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے ،جس سے اِس عنوان کی اہمیت اور اس پر تحقیق کی غرض و غایت کا پتہ چل جاتا ہے۔ پھر انھوں نے تمام مجموعہ ہائے شعر سے مختلف شعری علامات کا نفسیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ جو ان کی تحقیق کا ایک خوبصورت حوالہ بن کر سامنے آتا ہے۔ مجموعی طور پر اس مقالے کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر راحیلہ صاحبہ کے تحقیقی کام پر مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔