دلِ ناداں کی وکالت نہیں ہونے والی
اب محبت کی حمایت نہیں ہونے والی
وہ چلا آئے ترے خواب کی تعبیر لیے
اب کوئی ایسی کرامت نہیں ہونے والی
زیست اس موڑ پہ ٹھہری ہوئی ہے مدت سے
ختم اب میری مسافت نہیں ہونے والی
مجھ کو دکھلائے تیرے ہجر نے کتنے ہی رنگ
ایک پر اب تو قناعت نہیں ہونے والی
ایک چہرے کے سوا یاد نہیں ہے کچھ بھی
تیری سوچوں سے فراغت نہیں ہونے والی
دل کسی طور کسی شے سے بہلتا ہی نہیں
اچھی بیمار کی حالت نہیں ہونے والی
چارہ گر جو بھی تجھے کرنا ہے وہ سوچ کے کر
اب یہاں تیری اعانت نہیں ہونے والی
ٹھیک ہے تجھ کو بھلانے میں مجھے وقت لگا
اب یہ پختہ میری عادت نہیں ہونے والی
میرے کاسے میں یہی چند ہیں آنسو باقی
تیری یادوں کی حفاظت نہیں ہونے. والی
جانے والے تْو بصد شوق نگر چھوڑ کے جا
جانے والوں کی سماجت نہیں ہونے والی
لمحہ لمحہ ترے اس درد نے تحلیل کیا
مجھ سے اب اور کفالت نہیں ہونے والی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔