وہ ایک سرکاری دفتر کے اکائونٹ سیکشن میں کلرک تھا۔ پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ ہیڈ کلرک بن گیا تھا۔وہ بہت خوش تھا کہ بیٹی کی پیدائش کے بعد اسکی ترقی ہو گئی ۔ بیٹی کی پیدایش اسکے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد، وہ مزیدترقی پاکر سیکشن آفیسر بن گیا تھا۔ اب جس ڈپارٹمینٹ میں اسکی تقرری ہوئی تھی ، وہاں، پہلے سے کہیں زیادہ اضافی آمدنی کے مواقع میسر تھے۔ وہ یہ سوچ کر بہت خوش تھا کہ اب وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو کسی بڑے کالج میں پڑھائے گا۔ وہ خوش تھا کہ وہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا، وہ خوش تھاکہ مالی اعتبار سے اسکا اور اسکے بچوں کا معیارِ زندگی بہتر سے بہترین ہوگا۔ وہ خوش تھا کہ وہ اب اپنی دونوں بیٹیوں کو بڑا افسر بنائے گا۔
وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ مختلف طریقوں سے اپنے اور اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے بچانے لگا اور اضافی آمدنی سے اپنے گھر کے لیے مہنگی اشیا جُٹانے لگا۔کچھ دنوں کے بعد اس نے ایک کار اور پھر گھر بھی خرید لیا۔ اب اسکی زندگی آسودہ ہونے لگی تھی۔ آسودگی تو حاصل تھی لیکن ا طمینان اور سکون نداردتھا۔پہلے وہ آفس سے وقت پر سیدھے اپنے گھر پہونچتاتھا۔پہلی بیٹی کی پیدایش کے بعد تو وہ چار بجے کے بعد سے ہی بے قرار ہو نے لگتا ۔ وہ بار بار دیوار پر آویزاں گھڑی پر نظر ڈالتا او ر آفس کا وقت پورا ہونے پر، سیدھے اپنے گھر پہونچ کر سب سے پہلے اپنی بیٹی کو اپنی گود میں لیتا ، اسکے ساتھ کھیلتا او اس طرح اسکی ساری تھکان دور ہوجاتی۔مگر اب افسر بننے کے بعد، آہستہ آہستہ اسکی زندگی کا طرزِ عمل بدل گیا تھا۔ اب وہ آفس ٹائم کے بعد اپنے چند خاص ساتھیوں کے ساتھ دیر تک بیٹھنے لگا۔ اسکے ساتھی خصوصی قسم کی شراب کے ساتھ اعلیٰ قسم کے بھنے کاجو اور بہترین قسم کے مختلف نمکین کا اہتمام کرتے۔ دھیرے دھیرے یہ محفل تاش اور قماش بازی میں تبدیل ہو جاتی۔اس محفل میں کوئی اپنی بیوی کا، تو کوئی اپنی سسرال کا، تو کوئی اپنے بچوں کا، تو کوئی اپنی بہو کا، تو کوئی اپنے داماد کے قصے سناتا۔ان قصوں میں درد، کرب ، مایوسی، محرومی، شکایت، خواہش، آرزو ا ور امیدکی تڑپ ہوتی !
اسی طرح وقت بہت تیزی سے گذر رہا تھا۔ اسکی بیٹیاں جوانی کی دہلیز پر قدم بڑھا رہی تھیں۔اب کمار بھی اپنی بیٹیوں کی شادی کی فکر اور مستقبل میں تنہائی کے بارے سوچنے لگا تھا۔ وہ کہتا کہ ماں باپ اپنی پوری زندگی اپنی بیٹی کے لیے جیتے ، انکو اعلیٰ تعلیم دلواتے، افسر بنانے کا خواب پورا کرتے اور کسی اچھے گھر، اچھے شوہر کے لیے فکر مند رہتے۔ایک وقت ایسا آتا کہ بیٹی اپنے گھر کی ہو جاتی اورماں باپ اکیلے رہ جاتے۔ ایسے میں ایک بیٹے کی کمی محسوس ہوتی ہے جو اسکے ساتھ رہے ، اسکے بڑھاپے میں اسکاساتھ دے۔وہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ خوش گوار بڑھاپا گذارے۔
ایسے موقع پر اسکے ساتھی مشورہ دیتے کہ ابھی بھی بیٹے کے لیے کوشش کر سکتے ہو۔ اس پر وہ اپنا مشاہدہ ساجھا کر تے ہوئے بتاتا کہ میں نے ایسے کئی گھر دیکھے ہیں ،جہاں بیٹے کی چاہت میں چار،چار بیٹیاں پیدا ہو گئیں اور ماں باپ کسی کے ساتھ بھی وہ انصاف نہ کر سکے ،جوانکا حق تھا۔یہ سن کر ، اسکا دوسرا ساتھی تسلی دیتے ہوئے کہتا کہ آج کل بیٹی۔بیٹے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے ۔ بیٹی بھی نام کماتی ہے اور کسی بیٹے کی طرح ہی ، بیٹی بھی خیال رکھتی ہے۔ کمار’’ ہوں‘‘ کہتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کرتا:
لیکن میں اپنی بیٹی کے گھر میں دخل نہیں دینا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بار بار اپنا گھر چھوڑ کر ہماری سیواکے لیے آئے اور وہ دو گھروں کے درمیان، کسی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پستی رہے۔
اس کا تیسرا ساتھی اسے یاد دلاتا کہ بوڑھے ہونے میں ابھی کافی وقت ہے۔کمار کسی فلسفی کی طرح اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرتا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وقت بہت تیزی سے گذر گیا۔ ہمارے بڑھاپے کا وقت بھی بہت جلد آجائے گا۔میں نے کئی بڑے بڑے ا فسروں کو دیکھا کہ انکا بڑھاپا گھور تنہائی میں گذر رہا ہے۔ دھیرے دھیرے انکی یہ تنہائی نفسیاتی بیماری میں بدل گئی۔
میں یہ سوچ کر خوف زدہ ہو جاتا ہوں کہ اگر میری بیوی مجھ سے پہلے اس دنیا سے چلی گئی تو میرا کیا ہوگا۔ میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ میں اپنی بیٹی ، اپنے داماد کے گھر میں بھی نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورت میں میرا کیا ہوگا ؟ ۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ سنبھل کراٹھتا، اپنی کار کی طرف بہکے قدموں کو جما کر رکھتا، کار چلاتے وقت سڑک کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا اور آہستہ آہستہ اپنے گھر کے دروازہ تک پہونچتا۔یہ اسکا روز کا معمول ل بن گیا تھا۔ در حقیقت، اب اسکی سوچ کا یہ کرب، اسکی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا تھا ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔