ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی ادبی زندگی کا سنہرا دور جو ان کی 30 سے زیادہ کتابوں پر مشتمل ہے جن میں ان کا حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی شامل ہے، سفرنامہ اور کالمز بھی شامل ہیں نظم اور غزلیں بھی شامل ہیں، ریسرچ پبلیکیشن بھی شامل ہیں، ان کی بائیو گرافی بھی شامل ہے اور ان سب سے بڑھ کر ان کی کلیات بھی حال ہی میں شامل چکی ہیں جن کا ایک حصہ منتہائے عشق کے نام سے غزلیات پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ ندائے عشق کے نام سے ہے، آپ اس پوسٹ میں نظموں کے حصے کا ٹائٹل بھی دیکھ سکتے ہیں۔
سفر ابھی ختم نہیں ہوا اوپر والا تمام کام اپنی جگہ اہم ہے مگر جو کام نور فرقان کے نام سے قران کے منظوم مفہوم ترجمہ کی صورت میں سامنے لائی ہیں اس کی مثال دور حاضر میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ بغیر عشق اور جنون کے اس طرح کے تحفے کسی پر عنائیت نہیں ہو سکتے۔
اگر ان کی زندگی کے گذشتہ 15 سالوں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر شہناز مزمل نہ تھکتی ہیں، نہ رکتی ہیں اور نہ ہی اپنے مصروف کا اظہار کرتی ہیں اپنے کام کے علاوہ یہ ادبی اور سماجی طور پر بھی اسی طرح محرک ہیں جیسے وہ اس سے پہلے محرک تھیں۔
ڈاکٹر شہناز مزمل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم اکثر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں مگر وہ نہ خود تھکتی ہیں اور نہ ہمیں پیچھے رہنے دیتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر پھر ہمت بندھ جاتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی سے ہم پھر چلنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز مزمل ایک شخصیت نہیں ایک کارواں کا نام ہے اور اس کارواں کی آبیاری میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پوری زندگی کی مسلسل محنت اور بے لوث محبت سے کی ہے۔ ڈا کٹر شہناز مزمل اپنے اس ادبی کارواں کی تا حیات روح رواں ہیں اور ان کے کارواں کا ہر فرد اپنے سینے میں ایک ایسا دل لیئے پھرتا ہے جس میں ادب کے تمام پودے ڈاکٹر شہناز مزمل کے لگائے ہوئے ہیں۔ رشتوں میں اگر خلوص نہ ہو تو خون کے رشتے بھی پانی ہو جاتے ہیں اور اگر رشتوں میں خلوص ہو تو وہ خون کے رشتوں سے بھی گہرے ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز مزمل نے جو رشتے اپنے خلوص سے گہرے کیئے ہیں ایسے گہرے رشتے تو آج خون کے رشتوں میں بھی کم نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز مزمل کی مثال ایک ایسی شمع کی مانند ہے جو خود جلتی بھی رہی اور پگھلتی بھی رہی مگر اپنی روشنی سے اپنے اطراف کو ہمیشہ منور رکھا اور جہاں گئیں روشنیاں بکھیرتی گئیں۔ اور ان کے پروانے جہاں بھی ہوں جس حال میں بھی ہوں ان کی نظریں انہیں کی طرف جمی رہتی ہیں اور ان سے مزید روشنیاں سمیٹنے کی خواہاں بھی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر شہناز مزمل کو اللہ نے جو مقام عطا کیا ہے وہ بہت کم لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ اللہ انہیں مزید کامیابیوں سے ہم کنار کرے اور انہیں روشنیوں پر روشنیاں بکھیرنے کے لیئے مزید ہمت، طاقت اور صحت عطا کرے۔
………………………