فرحت نواز انگریزی ادب کی استاد ہیں اور اردو کی بہترین شاعرہ ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک شعری مجموعہ ’’ استعارہ مری ذات کا ‘‘ ،2015 ء میںعکاس انٹر نیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔ یہ شعری مجموعہ در اصل فرحت نواز کی کل شعری کائنات ہے جس میں انہوں نے اپنی کل کائناتِ سخن کو یکجا کر دیا ہے۔ اس لئے اس مجموعۂ کلام میں حمد و نعت سے لے کر غزلیں نظمیں اور دیگر اصناف بھی شامل ہیں۔
فرحت نواز کی شاعری کو پڑھ کر سب سے پہلا تاثر جو ابھرتا ہے وہ ان کی محبت کی شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں محبت کے رنگ گھول دیئے ہیں اور اس امرت کو انھوں نے خود گھول کر پیا ہے۔ فرحت نواز کی چاہتوں اور محبتوں کی کھیتیاں ہر سو شاداب اور لہلہاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت اور نسوانیت کا ایک حسین امتزاج بھی سامنے آتا ہے۔ بلکہ اس مجموعہ کلام میں یہ دو زاویے محبت اور نسوانیت نمایاں ہیں۔ وہ اپنے جذبوں اور تخیلاتی اڑانوں سے اپنا ایک تاج محل تعمیر کرتی ہیں اور اس تاج محل میں محبت اور پیارکے جذبات کا روغن کر کے خود کو اور قارئین کو مسحور کر دیتی ہیں۔ لیکن وہ خود کو ایک کچا گھر کہتی ہیں مگر اس کی چاہتوں کی گھٹا اس گھر کو رعنائی عطا کرتی ہے۔
کچا سا ایک گھر ہوں فقط جسم و جان کا
تو اپنی چاہتوں کی گھٹا کو سمیٹ لے
‘‘ یاد ‘‘ فرحت نواز کی شاعری کا ایک روشن استعارہ ہے۔ یہ یاد ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یاد کایہ مرکز و محور خود اس کا دل ہے جو کبھی سلگتا ہے اور کبھی شام و سحر کی سوچوں میں اس کو محو کر دیتا ہے۔ مٹی گارے کے بنے ہوئے ایک شخص کی یاد اس کی شعری کائنات کا اثاثہ ہے جس کے پیار اور یاد سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ یادوں کے سیپ ان کے ہاں نمایاں ہیں۔
آنکھ کھلی تو تنہا بیٹھ کے رویا ہو گا
میری خوشبو اوڑھ کے کب تک سویا ہو گا
آج ہے دل افسردہ کیوں معمول سے زیادہ
آج وہ شاید میری یاد میں کھویا ہو گا
ان کے کلام میں یاد کی یہ میٹھی میٹھی چبھن دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہوتی ہے۔ وقت کی گرد اس یاد کو دھندلا تو دیتی ہے مگر ختم نہیں کر سکتی۔
نہ وہ زمانے رہے یاد ، نہ کوئی صورت
مگر وہ یاد ہے دھندلے سے اک نشاں کی طرح
عورت کے باطنی جذبات کا اظہار متنوع انداز میں ان کی شاعری میں ملتا ہے مثلاً وہ کبھی ایک ماں کے روپ میں، کبھی بیٹی کے روپ میں اور کبھی بیوی کے روپ میں مختلف کرداروں کو فرداً فرداً زندگی کی آنکھ سے دیکھتی ہیں۔ فرحت نواز ان تمام رشتوں میں ایک حقیقی روپ میں سامنے آتی ہیں اور ہر روپ اور کردار کو انہوں نے اچھوتے انداز میں نبھایا ہے۔ یہ ان کا جینئو ئن طرز انداز ہے۔ وہ دعا کی مالا میں اپنی معصومیت کو پرو کر اپنی ماں کو لفظوں کا خراج بھی دیتی ہیں۔ اور با بل کی یاد میں چپ کی چادر بھی تان لیتی ہیں۔ یہ خالص جذبے ہیں جن کا اظہار بڑی معصومیت سے فرحت نواز نے کیا ہے۔ وہ لفظوں کے خواب بھی بُنتی ہیں مگر رستہ تکتی ان کی اداس آنکھوں کا روگ بچھڑے لمحوں میں ایک شکایت کرتا ہے۔
غم نہ میرا سمجھ سکیں دونوں
اک سہیلی تھی، ایک ماں جائی
وہ شکایت اسی سے تھی فرحت
جو زمانے کو میں نے سنوائی
فرحت کے دل میں امیدوں کے دیئے کبھی کبھی بجھنے لگتے ہیں اور رقصِ وحشت میں ایک سوال کرتی ہیں جو وصیت کا وپ دھار لیتا ہے۔ ہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مَنت کے دھاکوں کو بھی باندھتی ہیں مگر ان کے سانسوں سے محبت کی خوشبو نہیں جاتی ہے۔
’’ امن کی فاختہ کے نام ‘‘ فر حت نواز کی شعری کائنات کا انوکھا حوالہ ہے ۔ اسی طرح ویمن ڈے پر لگھی گئی نظمیں بھی گہری معنویت کی حامل ہیں۔ ماہیے لکھنے کا گُر بھی فرحت کے ہا ں نمایاں ہے۔ فطرت کے ساتھ ان کی ہم جولیاں بھی نمایاں ہیں۔ چاند کا نکلنا، بارشوں کا موسم اور تیز ہوائیں ان کو اچھی لگتی ہیں۔ اس شعری کائنات میں سبھی موسم اور ہر موسم میں محبتوں کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ سماجی، تہذیبی اور دیگر متنوع رنگوں کے باوجود محبت کے اس شوخ رنگ نے فرحت نواز کے شعری گھروندے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان کے سارے راستے اور خوشبوؤں کے سارے موسم محبتوں کے دیس میں جا کر گم ہو جاتے ہیں اور وہ اس محبت نگر میں جگنوؤں کی مانند ٹمٹماتی نظر آتی ہیں۔ فرحت نواز نے وفاؤں کے صحیفوں کو اپنے لیے ہر دم مقدم جانا ہے۔
گر محبت کا ہنر پاس نہ میرے ہوتا
میں نے کیسے یہ شب و روز گزارے ہوتے
مفلسی ہجر زدہ رات کی کیسے کٹتی تیری یادوں کے جو سکے نہ ادھارے ہوتے
اس کے افسانوں میں اپنی شاعری کو دیکھنا
اپنے شعروں میں کبھی اس کی کہانی سوچنا
فرحت نواز کی شعری کتھا اس کی ساری زندگی کا حاصل ہے جس میں محبت کا رنگ چڑھا ہے اور فطرت کی مہک اس میں رچی ہے۔ نسائی لب و لہجہ کی کھنک بھی سنائی دیتی ہے مگر فرحت نواز نے اپنے خوابوں کے گھروندے روشن انداز میں سجا اور بسا رکھے ہیں۔ ٭٭٭٭٭