اپنے ہمراہ لئے کتنے ہی غم آتے ہیں
شام کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں
ان کو بھی نام و نمائش کی بڑی جلدی ہے
اپنے ہی نام کے ہجے جنہیں کم آتے ہیں
لوگ کیوں جاتے ہیں اس طرح کی محفل جس سے
لوٹتے ہیں تو لئے دیدئہ نم آتے ہیں
تندیٔ ظلمتِ شب ہوکہ اندھیرا کوئی
بند مٹھی میں لئے روشنی ہم آتے ہیں
منزلیں ان کا مقدر کبھی ہوتیں ہی نہیں
جبرِ آفات سے جو لوگ سہم آتے ہیں
جانے کس موڑ پہ ہم آکے رکے ہیں یارو
یاد ظالم کے ہی اب رنگِ ستم آتے ہیں
وقت نے منظرِ رفتہ کو کیا یوں دھندلا
یاد کے جگنو بھی اب ذہن میں کم آتے ہیں
قریہ و شہر پہ یلغارِ ستم ہے اصغرؔ
دیکھیں کس سمت سے اب ابرِ کرم آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔