پاپا۔ یہ لمحے امر کردو۔ کوئی ایسی بات جو آپ کے دل میں ہو۔۔۔ کہہ دیں ممی بھی آپ کے سامنے ہیں۔ ان سے کوئی بات۔۔۔ ہاں جولی ۔ دونوں کا خیال رکھنا۔ میرے بیٹے میرے وارث ہیں۔ مگر مجھے یقین نہیں آتا ۔ نہ جانے کیوں۔ شاید ان میں مجھے میرا عکس نظر نہیں آتا ہے۔لیکن یہ جو بے بی ہے۔ یہ شاید میرے کارواں کو آگے بڑھائے۔
بس مجھے تم سے یہی کہنا ہے۔ اور بے بی تم سنو۔ زندگی میں سخت مرحلے آتے ہیں۔ اوران کا مقابلہ کرنا۔ ہی ۔ہی تم سمجھ رہی ہو۔ مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ میں نے بھی مقابلہ کیا ہے۔ بڑ ا زبردست مقابلہ۔ اکیلی جان اور ۔۔۔ نہ جانے کتنے دماغ۔ شطرنج سی بڑی بازی۔ جس کی لہروں کا انت نہیں ہے۔ یہ مہرے عجیب ہوتے ہیں۔ سوشل ، مہذب، بہروپیے، وفادار، غدار، غلام، محکوم، افسر، کارکن، ساتھی، ہمدرد، دوست، مہربان، میزبان، دانا، نادان، اور اس کے علاوہ اربوں کھربوں کا سرمایہ۔۔۔۔ تم جان جائوگی ۔ جب میں موجود نہیں ہونگا۔ یہ اشارے ذہن میں رکھنا۔ قانون۔ حکم، جنگ، میدان، زندگی ، خوشی، نفرت، محبت، جھوٹ اور سچ ۔ اور سنو جھوٹ سچ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ زہربن کر کام دکھاتا ہے۔ بے بی یہ مجھے زہر بھی پلا سکتے ہیں مگر یہ جھوٹ کاسہارا لیں گے۔ نقارچی نقارے پر چوٹ مار کر کہیں گے۔ بزدل اور کمینے اپنے پائوں چل کر دار تک نہیں آتے ۔۔۔ راستے ہی میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ۔۔ یہ لمحہ موجود۔۔۔ جس میں میں اور تم ہم کلام ہیں۔ تاریخ کی امانت ہیں۔ یہ باتیں ذہن میں بٹھالو۔۔ سوچو۔۔۔ جب ان کے بنائے ہوئے سارے نقشے ریت کی دیوار بن جائیں۔ عیش پرست، مطلبی ، ابن الوقت اکٹھ کر لیں۔ تو کیا یہ خسارے کا سود ا ہے؟؟ میں نے بہت سے نقشوں پر اپنی ذہانت اور تدبر سے پانی ڈال ہی دیاہے۔ ملیا میٹ کردیا ہے ان کے مکروہ عزائم کو ۔۔۔
پاپا۔۔۔۔ تم ایک بات بھول رہے ہو۔۔۔ روبوٹ کے ہاتھوں سے کون بچ سکتا ہے۔۔ صرف وہی۔۔۔ جس کی قوت ارادی روبوٹ سے زیادہ ہو۔۔۔ بظاہر اس کا جسم جھولتا نظر آتا ہے ۔ مگر تاریخ اسے حیات نو بخشتی ہے۔ یہ حیات نو کیسے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ دار کو چومنے والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔ میں نے ساری زندگی کام ہی دار کی طرف جانے والے کیے ہیں۔
وقت کم ہے پہرہ کڑا ہے۔۔ بہت دور بیٹھے ہوئے لوگ ہمارے جذبوں کی پیمائش کر رہے ہیں۔ ہمیں بڑے حوصلے کے ساتھ یہ سب دکھ جھیلنے ہوں گے۔ پاپا۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ بے بی ۔ بے بی۔ ہمت سے کام لو۔۔۔ میں تمہیں جاگیرداری نہیں سکھا رہا ہوں۔ دنیا داری کے پیچ و خم سے آگاہ کر رہا ہوں۔ سنو میں نے تمہارا انتخاب کیوں کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس خطے میں عورت کو کمزور اور بزدل سمجھا جاتا ہے۔ میں دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہوںکہ مرد کو جلد زیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر عورت اس معاملے میں خاصی جاندار ثابت ہوتی ہے تمہاری ماں۔ صرف ماں ہے۔ وہ ممتا سے مجبور ہو سکتی ہے۔ مگر تم میری بیٹی ہو۔۔ میری ۔۔۔میں فخر سے یہ کہتا ہوں کہ تم وہ کام کروگی کہ۔۔۔ لوگ کہیں گے۔۔۔ یہ ہماری ماں ہے۔۔ بہن ہے۔۔ ہمارے قائد کی تصویر ہے۔۔ اور میں جانتا ہوں کہ تم اس سلسلے کو جوڑ دوگی۔ جسے لوگوں نے منقطع کر دیا ہے۔ تمہارے لیے بھی نقشے بنیں گے۔ تدبر سے سب کچھ ملیا میٹ کر دینا۔ میری طرح۔ ادھر آئو کان قریب لائو۔ ساری زندگی میری بیٹی ہی رہنا۔ کسی کی ماں مت بننا۔ یہ ممتا بہت دکھ دیتی ہے۔ آج اگر میری ماں ہوتی تو روتی زیادہ بولتی کم ۔ دیکھتی زیادہ تولتی کم۔ ماں۔۔ ماں۔۔ ہوتی ہے۔ میں نے بڑے فخر سے دار کا انتخاب کیا ہے۔ وہ مجھے اذیت سے ماریں گے۔ مجھے مرنا ہے۔ میرا سرکاری جرم بڑا ہے۔ میں نے امیروں کی طرح غریبوں سے محبت کی ہے ۔ کاش میں غریب بن کے غریبوں سے محبت کرتا۔ کاش نظام سقے کی طرح سے چام کے سکے چلاتا۔ خیر میں اب بھی مطمئن ہوں ۔ میںنے ان کو بتلا دیا ہے کہ تمہارا سسٹم تمہارا آرڈر۔ تمہارا طریقہ اور اربوں کھربوں کی دولت بیکار۔ فرسودہ اور شرمندہ کرنے والی چیز ہے۔ پاپا وہ دیکھو کچھ لوگ آرہے ہیں۔ ہمیں لمحہ بھر میں جدا کر دیں گے۔ بے بی مت بھولو۔ وہ ہمارا کیا بگاڑیں گے۔ سنو۔ تمہاری ماں مجھ سے اپنے بیٹوں کے بارے میں معلوم کرنا چاہتی ہے۔ یہ ممتا کی ماری ہے۔ مگر بے بی تمہیں مجھ سے آگے نکلنا ہوگا۔ سارے مہرے پیٹنے ہونگے ۔ بوڑھے گدھوں سے چھٹکارا پالینا۔ غریب اور مفلوک الحال لوگوں کو قریب رکھنا۔ منزل دور نہیں ہوگی۔ جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے ہوشیار۔ الاٹ منٹ اور پلاٹ مافیا۔ سے پرہیز کرنا۔ قبضہ گروپ سے
دور رہنا۔ اور سب سے آخری بات۔ ان آباد بنگلوں کے حسن سے مرعوب نہ ہونا۔ یہاں مطلب براری کے لئے بہت سے بنگلوں کے در کھلتے ہیں۔ یکدم۔ بہت سے ہوشیار۔۔۔۔ پاپا۔ وہ قریب آرہے ہیں۔ ہاں بے بی وہ بہت قریب آرہے ہیں۔ وہ ہمار ی باتیںدور بیٹھے سن رہے ہیںاور سوچ رہے ہیںکہ پھانسی پانے والا شخص اس حوصلے سے گفتگو کیسے کر سکتا ہے۔۔۔ بالکل افلاطون اور سقراط بنا ہوا ہے۔
بے بی۔۔۔ چھوٹے سے گائوں آکسفورڈ میں پڑھنے والوں کا حوصلہ کیسا ہوتا ہے یہ لوگ ہمت کر کے تاریخ کا حصہ بنتے رہتے ہیں ۔ تاریخ ایسے جواں مردوں سے بھری پڑی ہے۔ پاپا وہ لوگ بہت قریب ہو گئے
ہیں۔ میں ان سے آپ کی معافی کی درخواست کروں۔ بے بی پگلی مت بنو۔ فیصلہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں میل دور ۔۔۔ اب سنو! اس غلام سے کہنا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے ۔ کیسے کوئی ٹال سکتا ہے۔۔۔۔
بے بی۔ تم گواہ رہنا۔ پاپا لو وہ آگئے۔ آگئے ۔۔۔ آئیے جیلر صاحب۔ آپ بھی سن لیں بے بی جائو اور میرے عوام سے کہنا۔۔۔ بد طنیت غلاموں نے وہ کالی زبان بند کر دی ہے جس نے غریب کے لئے روٹی مانگی تھی۔ روٹی چاند کی طرح گول۔ ملاقات کا وقت ختم ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔