اشفاق حسین کینیڈا کے متحرک و فعال شاعروں اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔فیض احمد فیض سے ان کی محبت اور عقیدت کو ایک دنیا جانتی ہے۔۱۹۷۴ء میں اشفاق حسین کے ایم اے اردو کے مقالہ کا موضوع تھا’’فیض ایک جائزہ‘‘۔تب سے علمی و ادبی محبت کا جو سلسلہ چلا تھا وہ آج تک قائم ہے۔اس دوران انہوں نے فیض کے حوالے سے مزید کام بھی کیا۔اور فیض صدی تک آتے آتے انہیں موقعہ مل گیا کہ ایک طرف اپنے سارے پرانے لکھے ہوئے کو یک جا کریں،دوسری طرف پرانی یادوںاور باتوں کے ذریعے فیض صاحب پر کچھ نیا بھی لکھا جائے۔چنانچہ انہوں نے اپنی نئی پرانی پانچ کتابوں کو ایک جلد میں جمع کرکے اس کا نام رکھا’’شیشوں کا مسیحا فیض‘‘ اور یوںفیض صاحب کی صدی منا لی۔1207 صفحات پر مشتمل یہ علمی و ادبی محبت نامہ ان پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔
فیض شخصیت اور فن،فیض حبیب عنبر دست،فیض کے مغربی حوالے،فیض ایک جائزہ،فیض تنقید کی میزان پر۔
کتاب’’فیض کے مغربی حوالے‘‘پہلی بار جنگ والوں نے شائع کی تھی اور یہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔یہاں اس کی تلخیص کرکے اس کو صرف 360 صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔اس کے باوجود کتاب مجموعی طور پر1207 صفحات پر محیط ہو گئی ہے۔اس کتاب کے دو اثرات تو مجھے بالکل سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔اشفاق حسین اور فیض صاحب کے تعلق کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے فیض صاحب کے ساتھ اپنے رابطہ کی کوئی ایک آدھ کڑی لے کر اس پراپنے تعلقات کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔جس مقامِِ ملاقات پر فیض صاحب جس کاز کو تقویت پہنچانے گئے تھے،وہ کیا تھا اور اس حوالے سے ان کی کارکردگی کیا تھی؟اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔بس مصنف موصوف سے فیض صاحب کی تعلق داری ہی کتاب کا حاصل نکلتا ہے۔دوسرے ’’شیشوں کا مسیحا فیض‘‘کی ضخامت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے فیض فہمی کے لیے کتاب کی فربہی کو ہی اہم سمجھ لیا،چنانچہ انہوں نے پھر سارا زور اس پر لگا دیا کہ جیسے تیسے ہو کتاب کی ضخامت ہیبت ناک ہونی چاہیے۔اس نوعیت کی آنے والی بعض فربہ کتابوں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں فیض صاحب کے حوالے سے صرف پہلے سے کہی گئی باتوں کو ہی دہرایا گیا ہے۔
اشفاق حسین نے’’شیشوں کا مسیحا فیض‘‘میں فیض سے ایک بھرپور ملاقات کرا دی ہے۔تاہم اس ملاقات میں بعض باتیں کھٹکتی بھی ہیں۔’’فیض کے مغربی حوالے‘‘کے نام سے احساس ہوتا ہے کہ مغربی دنیا نے فیض صاحب کا بھرپور اعتراف کیا ہوگا۔لیکن یہاں ایک برطانوی(جو متحدہ ہندوستان کے زمانے سے شناسا تھا)اور ایک امریکی لیڈی کے علاوہ باقی سارے لکھنے والے سابق سوویت یونین سے تعلق رکھتے ہیں۔’’فیض تنقید کی میزان پر‘‘میں وزیر آغا،شمس الرحمن فاروقی اور اسی طرح بعض دیگر ناقدین کے بنیادی اختلافی نکات کو ابھارے بغیر فیض کا دفاع کیا گیا ہے،لیکن اگر ان نقادوں کے اختلافی نکات کو پورے پس منظر کے ساتھ دیکھا جائے تو ان کا موقف بے حد مضبوط اور جاندار ہے۔پنڈی سازش کیس کے حوالے سے میں تمام ترقی پسند دوستوں سے گزارش کر رہا ہوں کہ وہ مطالبہ کریں کہ سرکاری سطح پر اس کیس کی تمام خفیہ اور غیر خفیہ فائلیں اب قوم کے لیے کھول دی جائیں ۔ہو سکتا ہے اس سے ’’پنڈی سازش کیس‘‘میں ملوث ہمارے سارے ترقی پسند احباب مکمل بے قصور ثابت ہو جائیں۔پاکستانی سرکار کی دستاویزات میں جو بھی حقائق ہیں وہ اب سامنے لائے جانا چاہئیں۔
مجموعی طور پر’’ شیشوں کا مسیحا فیض‘‘اشفاق حسین کی فیض کے لیے محبت کی ادبی روداد ہے۔ایسی محبت جو کسی وقتی ضرورت کا نتیجہ نہیں بلکہ جو چالیس برسوں سے بھی زائدکے ادبی تعلق پر محیط ہے۔اشفاق حسین سے کتنا ہی اختلاف کرلیا جائے لیکن فیض کے تئیںان کی ادبی محبت کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشائیے
منشا یاد اردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ان کے نو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔پنجابی کتب اور مرتب کردہ کتب کی تعداد الگ سے ہے۔ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں نے لکھنے کے ساتھ پڑھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ان کا مطالعہ ادب اور ادیب ہردو سطح پر جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بعض ادیبوں کے خاکے لکھے ،بعض کتابوں کے ادبی جائزے لکھے،مضامین لکھے۔یوں مضامین کا مجموعہ ’’منشائیے‘‘تیار ہو گیا۔
میں ادب میں تنقید کا قائل ہوں،نظری تنقیدکی اہمیت کامعترف ہوں،تاہم مجھے وہ تنقید اورنظری مباحث کھلتے ہیں جن میں پوری بحث کے آخر تک قاری کو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا سمجھایا جا رہا ہے۔ایسی یبوست زدہ تنقید کے مقابلہ میںادب کے قاری کی سیدھی سی رائے،اور کھلا تاثر زیادہ معتبر ہو جاتا ہے۔منشا یاد نے ادبی شخصیات کا جائزہ لیا ہے یا ادبی کتابوں کا، ہر دو قسم کے جائزوں میں انہوں نے ادب اور قاری کے رشتے کو صرف عام فہم نہیں بنایا بلکہ دل میں اتر جانے والا بھی بنا دیا ہے۔ ممتاز مفتی،عصمت چغتائی،ضمیر جعفری،احمد ندیم قاسمی،قدرت اللہ شہاب،لطیف کاشمیری،اعجاز راہی،ضیا جالندھری، ملک مقبول احمد،اکبر حمیدی ،رشید امجد،احمد فراز،اور متعدد دیگر معروف اور غیر معروف ادیبوں سے لے کر پروین عاطف اور فریدہ حفیظ تک منشا یاد نے کسی کی کتاب کا جائزہ لیا ہے تو ساتھ ہی اس کی شخصیت کو بھی نمایاں کر دیا ہے اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے تو اس کے ادبی قدو قامت کو بھی پیش کر دیا ہے۔
’’منشائیے‘‘منشا یادکے ذاتی تاثرات پر مبنی مضامین ہیں۔اس لحاظ سے کتاب کا نام بہت با معنی اور دلچسپ ہوجاتا ہے۔کتاب کے تمام مضامین میں منشا یاد کا رویہ محبت آمیز رہا ہے،انہوں نے زیادہ تر وہ ادب پارے منتخب کیے ہیں جن سے وہ اپنی ادبی محبت کے اظہار میں کوئی الجھن محسوس نہ کر سکیں۔ اپنے ایماندارانہ اظہار کی وجہ سے منشا یاد کی تحریربہت زیادہ دلچسپ ہو گئی ہے۔ اس میں جن شخصیات سے تعارف ہوتا ہے وہ آپ کی جانی پہچانی شخصیات ہوں تب بھی ان کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں جو ایک طرح سے انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں۔اسی طرح جن کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے اس سے متعلقہ کتب کو خود پڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔’’ منشائیے‘‘روایتی تنقید کے مضامین کا مجموعہ نہیں ہے لیکن اپنے اندازِ بیان کی وجہ سے ہماری روایتی تنقیدکی رہنمائی کرتا ہے۔ان مضامین سے ہمارے ناقدین کرام سیکھنا چاہیں تو یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کسی ادب پارے کے مطالعہ کا طریق کار کیا ہونا چاہیے۔قاری کو ادب سے قریب کرنا مستحسن ہے یا ایسا علم بگھارنا جو صرف یبوست زدہ اور جارحانہ تنقید کو سامنے لائے۔تنقید کے نام پر قاری کو ادب سے دور کرنے والے نقادوں کو ’’منشائیے‘‘ کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے۔مجھے امید ہے کہ ایسے نقاد پھر اپنے لیے بہتر راہیں تراش سکیں گے۔ذاتی طور پر مجھے ’’منشائیے‘‘ نے بہت ادبی مزہ دیا ہے۔میں ابھی تک منشا یاد کے مضامین کی خوشبومیں گھرا ہوا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔