کھلا جو رات وہ حیرت کا باب دوسرا ہے
یہ آنکھ اور ہے اس میں یہ خواب دوسرا ہے
نہ جانے کون سی رہ پر کوئی چھڑا لے ہاتھ
سفر میں ہوں یہ مِرا ہم رکاب دوسرا ہے
کفِ بہار جو میرے لبوں نے سینچ دیا
وہ شاخ اور ہے اس پر گلاب دوسرا ہے
ترے سوال کا پہلے بھی دے چکا ہوں جواب
وہی سوال سہی پر جواب دوسرا ہے
وہ پہلا عشق بھی برباد کرنے والا تھا
مگر یہ عشق بھی خانہ خراب دوسرا ہے
سراب اور ہے فاروق بر کفِ صحرا
جو پانیوں کے ہے اندر سراب دوسرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔