یہ نازک سی مِرے اندر کی لڑکی
عجب جذبے عجب تیور کی لڑکی
یونہی زخمی نہیں ہیں ہاتھ میرے
تراشی میں نے اک پتھر کی لڑکی
کھڑی ہے فکر کے آذر کدے میں
بریدہ دست پھر آذر کی لڑکی
انا کھوئی تو کُڑھ کر مر گئی وہ
بڑی حساس تھی اندر کی لڑکی
سزاوارِ ہنر مجھ کو نہ ٹھہرا
یہ فن میرا، نہ میں آذر کی لڑکی
بکھر کر شیشہ شیشہ ریزہ ریزہ
سمٹ کر پھول سے پیکر کی لڑکی
حویلی کے مکیں تو چاہتے تھے
کہ گھر ہی میں رہے یہ گھر کی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔