سوچ کے پنچھی کا خالد اب حوالہ رہ گیا
جیسے کمرے میں تنا مکڑی کا جالا رہ گیا
اس کو صحرا میں میسر ہر طرح کی رونقیں
میں بھرے اس شہر میں ہو کر بھی تنہا رہ گیا
اس قدر تھی تیز آندھی ظلم و استبداد کی
آ شیانہ میرا ہو کر تنکا تنکا رہ گیا
ہرطرف سے ہو رہی تھی پتھروں کی بارشیں
کرچیوں میں بٹ کے خالدؔ دل کا شیشہ رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔