پارک کے داخلی دروازے پراس کا والہانہ پن اور تجسس آنکھوں کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگا۔ یہ پڑھ کرخوشگوار حیرت اس سے بغل گیر ہو گئی کہ پارک کے ساتھ ساتھ جھولے بھی بچوں کے لیے بلامعاوضہ کر دیے گئے ہیں۔ یہ وہی پارک تھا جہاں اس کا بچپن گلہریوں کی طرح چھلانگیں لگاتا اور چڑیوں کی طرح چہچہاتا پھرتا۔ بچپن کی حسین یادیں اس کے دل میں اٹکھیلیاں کرنے لگیں۔وہ والدین کے ہمراہ پارک میں داخل ہوتا اور اسے احساس تک نہ ہوتا کہ شب نے روشنی کو اپنے سینے میں دبانا شروع کر دیا ہے۔وہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیلتا رہتا اور اس کے والدین بنچ پر بیٹھے زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں کو چکھتے رہتے۔وہ کھیل کود میں اس قدر محو ہو جاتا کہ اس کی ماں کی صدا اس کے نرم وملائم کانوں کے پردوں میں دھیرے سے داخل ہو جاتی،’’چلو بچے !بہت دیر ہو گئی اب گھر بھی پہنچنا ہے۔‘‘
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی والدین کی طرف لپکتا اوران گنت مسرتیں اس کے قلب و ذہن میں اپنے ننھے منے گھونسلے بنا چکی ہوتیں۔داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے لمبی آہ بھری جیسے وہ وقت کے پہیے کو ماضی میں گھما کر لے جانا چاہتا ہو۔بچپن سے پچپن کا دور اس کے ذہن میں بجلی کی مانند کوند گیا۔فرقت محبوب کی ہو یا مادرِوطن کی ،خلش برابر ہی ہوتی ہے۔اسے احساس ہی نہ ہوا تھا کہ اس کی زندگی کی کئی دہائیاں دیارِغیر کی خاک چھانتے غبارآلود ہو گئی ہیں۔وہ پارک کے درمیان رکھے ایک بنچ پر بیٹھ گیا اور سرد موسم میں ماں کی آغوش جیسی دھوپ کو جذب کرنے لگا۔اس نے پارک کا جائزہ لیا۔بہت سے بنچوں پر عمررسیدہ جوڑے وقت کے ستم پر بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔کچھ بنچوں پر نوجوان لڑکے خوش گپیوں میں مگن تھے۔نوجوان لڑکیوں کے قہقہے ہلکے سبزی مائل گھاس سے بلند ہو رہے تھے۔اس نے جھولوں کی طرف دیکھا جو ماضی کے مقابلے میں جدید اور دلکش تھے۔یہ بات اس کے لیے حیرت انگیز تھی کہ چند ہی بچے جھولوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
’’اب موبائل گیمز کا دور ہے بچے شاید گھروں میں ہی رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہوں‘‘
چند بچے بھاگ بھاگ کر تمام جھولوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش میں مگن تھے جیسے وہ تمام مسرتیں چند ساعتوں میں ہی سمیٹ لینا چاہتے ہوں۔بچپن کی مسرتیں پہلے ہی کب کم ہوتی ہیں مگر مزید سمیٹنے کی آرزو کبھی ختم نہیں ہوتی چاہے وہ بچپن کی خوشیاں ہوں یا بڑوں کی مال ودولت کی ہوس۔پارک فلک شگاف درختوں سے بھرا ہوتا تھا مگر اب چند ہی ایسے درخت ماضی کی روداد سنانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔اسے یاد آیا کہ کس طرح گلہریاں ان درختوں کے پھل توڑتیں تھیں اور خوشی سے نہال چیختی چلاتی تھیں۔وہ بھاگ بھاگ کر ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتیں۔بچوں کو اپنے پیچھے بھگاتیں اور انھیں قریب پاکر درخت پر چڑھ جاتیں۔مصور نے کائنات میں کیا کیا رنگ بھرے ہیں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ کافی دیر ادھر ادھر تجسس آمیز نظروں سے دیکھتا رہا اسے کوئی گلہری نظر نہ آئی۔اسی لمحے ایک عمر رسیدہ شخص ٹانگیں گھسیٹتا اس کے پہلو میں آ بیٹھا۔اس نے بوڑھے کی طرف دیکھا تواس نے مسکراہٹ کو دل کے نہاں خانوں سے گھسیٹ کر لانے کی کوشش کی۔
’’پارک میں بچے بہت کم ہیں۔ہمارے بچپن میں تو پارک بچوں سے بھرا ہوتا تھا‘‘
’’ہاں !لگتا ہے کافی عرصے بعدیہاں آئے ہو؟‘‘
’’جی !بچے کیوں کم ہو گئے ہیں؟‘‘
’’وہ دیکھو لڑکیوں کی آپس میں شرارتیں اور لڑکوں کی آپس میں خوش گپیاں‘‘
’’تم شاید نہیں جانتے یہاں کے گائنی وارڈز بند ہو گئے ہیں۔گائناکالوجسٹس بیروزگار ہو گئے ہیں۔بچوں کے کھلونے اب کہیں بکتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ہم جنس شادیاں ہوں گی، روبوٹس کو جیون ساتھی بنایا جائے گا تو بچے کہاں سے ہوں گے۔نوجوانوں کی بڑی تعداد تو تنہا زندگی گزانے میں عافیت سمجھنے لگی ہے۔‘‘
’’اوہ افسوس! گلہریاں کہاں چلی گئیں ؟‘‘
’’جہاں چڑیاں چلی گئیں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’بس مطلب کی بھینٹ چڑھ گئیں۔‘‘
’’کیا فطرت مرنے کو ہے ؟‘‘
’’دعا کرو ایسا نہ ہو۔‘‘
وہ خیالوں کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا۔بوڑھا اٹھا اور اپنی جگہ آنکھوں سے گرنے والے موٹے موٹے آنسوؤں کو بٹھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔