میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا۔اس وقت میرے دماغ میں سقراط کا ایک خیال چکر لگا رہا تھا۔قدرت نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور دو آنکھیں، مگر زبان صرف ایک تاکہ ہم بہت زیادہ سنیں اور بولیں کم، بہت کم ۔
میں نے کہا ’’ آج کوئی افسانہ سناؤ دوست!‘‘
وہ بولا، تو آؤ آج تمہیں ایک عظیم الشان افسانہ سناؤں:
دو بھیڑیں ایک جوہڑ کے کنارے پانی پی رہی تھیں۔پانی پیتے ہوئے چھوٹی بھیڑ نے کہا:میں اکثر سنتی ہوں اس گاؤں کے لوگ سندر،من موہنی پریوں کی باتیں کیا کرتے ہیں!
بڑی بھیڑ پانی پیتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے رک گئی اور آہستہ سے بولی:چپ چپ بہن! یہ لوگ دراصل ہماری ہی باتیں کرتے ہیں۔
(دیویندر ستیارتھی کے 1942 میں مطبوعہ افسانوں کے مجموعہ’’نئے دیوتا‘‘میں شامل منی کہانی جسے اردو کا پہلاافسانچہ قراردیا جا سکتا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔