دنیا نے شطرنج سکھائی، سیکھی اک اک چال
ہاتھ میں تب جا کر آیا ہے مستقبل اور حال
تو نے اپنے ہاتھ سے کل تھا کانچ کیا پیوست
دل کی آج منڈیر پہ چاہے لاکھ کمندیں ڈال
ہر شہکار ستارا دودھیا رستوں پر نکلا
میرے چاند کی خاطر بھر گیا آسمان کا تھال
باقی جتنا خون بچا ہے میرے خون کا ہے
جس نے جتنا کرنا تھا کر بیٹھا استعمال
آنکھوں کے کشکول میں اجڑے خوابوں کی تعبیر
خاک کا بستر خاک ہے اوپر ان دیکھی اک شال
پھنسے بنا نہ چین ملے اور پھنس کر جان سے جائے
ریشم ہاتھوں سے ریشم کا وہ بنتا ہے جال
پھر اس نے ہر شخص کو اک اک پتھر پیش کیا
پہلے اس نے روح پہ کاڑھے کانچ سے خد و خال
کنویں میں پھر تقدیر اپنی تدبیر دکھائے گی
جانتا ہوں میں پھینک دیا جاوں گا پھر امسال
زخم پرانے بھر گئے یارو سل گیا ہر اک چاک
سنگ لئے آؤ کرنے طاہرؔ کا استقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔