اظہارِ ذات کے جذبے میں بڑی طاقت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو منوانے کے لیے نت نئے روپ دھارتا رہتا ہے ، اس جذبے نے جس دل میں بھی گھر کیا ہے وہاں سے لفظوں کی پوشاک پہن کر قرطاس ِ زیست پر کبھی تو سنہری کرنوں کی طرح بکھرا ہے اور کبھی چاندنی کے ٹھنڈے نور کی مہربان روشنی کی طرح چشمِ شوق کا منظر بنا ہے۔خدا نے اپنے اظہار کے لیے ،اپنی محبت کے لیے ،اس دنیا کی تخلیق کی ، زندگی کی حسین، پُر فکر کتاب لکھی ۔اظہارِ ذات کاجذبہ اور لکھنے کا عمل خدائی صفات ہیں ،جو عزیزالرحمن سلفی صاحب کو وراثت میں ملی ہیں۔ یوں تو ہر شخص اس دنیا کا اور ان صفات کا وارث ہے مگر اپنی وراثت کو کون کس طرح سے آگے لے کر بڑھتا ہے اس کا اندازِ عمل ہی اس کو بہت سے عام لوگوں سے جدا کرتا ہے۔
عزیز صاحب کو بھی اظہار کے اس جذبے نے عام لوگوں سے منفرد کر دیا ہے جو خدا سے بے پناہ محبت پر مبنی ہے ، ان کی حمدیہ شاعری کا محرک جو قوت ہے وہ محبت کے اظہار کا یہی انمول جذبہ ہے جو اُنھیں اپنے تخلیق کار سے ہے، اپنے خدا سے ہے۔ جب محبت کا جذبہ حد سے بڑھ جائے تو وہ بے حد وحساب ہوجاتا ہے، جیسے دریائوں کے کناروںمیں بہتے ہوئے پانی جب بپھرنے لگتے ہیں تو اپنے من مانے راستوں پر رواں دواں ہو جاتے ہیں، کسی باندھ کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی کنارے کو ، کچھ یہی حال خدا سے محبت کے اظہار میں عزیز الرحمن سلفی صاحب کا بھی ہے ۔ ان کے سخن کی ندیا دھیرے دھیرے عقیدتوں کے کناروں میں بہتے بہتے محبت کے انتہائی موسموں میں کبھی کبھی اور کہیں کہیں بہکتی ہوئی بے کنار ہونے لگتی ہے، یہ محبت ہی تو ہے جو کسی بحر کسی قاعدے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتی مگر پھر بھی محبت ہی رہتی ہے۔
عزیز الرحمن سلفی صاحب کی شاعری کی یہ خوبی ہر مصرعے میں ہے کہ وہ کسی ڈھنگ میں بھی سر زمینِ سخن پر بکھرتی ہے ،خدا سے بے انتہا محبت کا معصوم اور روپہلا روپ برقرار رکھتی ہے، محبت، جو زندگی کو جنم دیتی ہے ،جو کائنات ہے جو اس دنیا کے وجود کا موجب ہے، جو دیوانگی کا روپ دھارتی ہے تو اس بات کی پرواہ نہیں کرتی کہ اسے کون کیا کہتا ہے اُسے تو بس اپنے محبوب کی خبر رکھنی ہوتی ہے اسی کی سننی ہوتی ہے اسی سے کہنی ہوتی ہے۔باقی سب لوگ عدم ہوتے ہیں، بس اک وہی تو وجود ہوتی ہے ہزاروں رنگ لیے کئی ڈھنگ لیے ،اور اب اس نے شاعری کا روپ دھارتے ہوئے عزیزالرحمن سلفی صاحب کے دل کو اپنا مسکن بنایا ہے اور اپنی خوشبو گلابِ سخن کو سونپ کر سر زمینِ دل سے کائنات کے پُر شوق سفر پر روانہ ہوئی ہے سو میںعزیزالرحمن سلفی صاحب کو اس ہمسفری کی پہلی ’’پرواز‘‘ پر مبارک باد دیتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔