جھوٹا سچا، اُلٹا سیدھا بول دیا
اُس نے میرے منہ پہ کیا کیا بول دیا
رات گئے چپ چاپ ہمارے خوابوں پر
یادوں کے لشکر نے ہلّا بول دیا
تجھ سے اتنی ہمت کی امید نہ تھی
تو نے اس بے مہر کو اپنا بول دیا
اِدھراُدھر کی باتوں سے تو بہتر ہے
جس کو جو کچھ یاد نہیں تھا ،بول دیا
شہر کا شہر بنا ہے جان کا دشمن کیوں
میں نے آخر ایسا بھی کیا بول دیا
آخر میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے
پھر جو میرے منہ میں آیا،بول دیا
نجمیؔ سب کی اپنی اپنی فطرت ہے
آئینے نے بھی جو دیکھا،بول دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔