باپ نے اپنا تعارف ثنا اللہ کے نام سے کروایا تھا ، شناختی کارڈ بھی اس نے پیش کیا۔ اس کا بیٹا صمد یہی کوئی آٹھ برس کا ہوگا۔ صمد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ، جب کہ ثنا اللہ نے کھانے پینے کا سامان اور چھاگل اٹھا رکھی تھی۔ ان کی تلاشی مکمل ہو چکی تو دم لینے کو وہ سپاہیوں کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ حوالدار کے حکم پہ انھیں چائے پیش کی گئی۔ثنا اللہ نے سرگوشی کی، ’’ گزشتہ ماہ صمد کی والدہ اچانک فوت ہو گئی۔ تب سے اسے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہوں کہ ماں کو یاد نہ کرے۔ اس نے کہیں سنا کہ آماچ کی چوٹی آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ ضد کر رہا تھا کہ پہاڑ پہ جا کے پہاڑ کی باتیں سنے گا۔‘‘
حوالدار نے ایک محبت بھری نظر اس محروم بچے پر ڈالی۔
’’ اس کی ماں آسمانوں میں رہتی ہے ، شاید وہ سمجھتا ہو پہاڑ کے ذریعے ماں سے باتیں کرے گا۔ میرا بیٹا بھی اسی عمر کا ہے۔ پنڈ داد خان میں پڑھتا ہے۔چھ ماہ سے اس کی شکل نہیں دیکھی۔‘‘
’’ کب سے ان پہاڑوں میں پڑے ہو۔ تم تو اجنبی لگتے ہوں گے۔‘‘
’’ بس کیا کریں روزی جو یہیں لکھی ہے ، جہاں دانہ پانی ہو کھینچ کے لے جاتا ہے۔‘‘ لہجے کی مایوسی مردانگی کے پردے سے چھلک اٹھی۔
باپ بیٹا رخصت ہونے لگے تو حوالدار نے نصیحت کی ،’’ خیال رکھنا اوپر سے فائر بھی آتا ہے ، بہتر تو یہی ہے واپس چلے جاؤ۔ ‘‘
’’میری بھی مجبوری ہے ،صمد پہاڑ کی باتیں سننا چاہتا ہے۔ کیوں صمد ؟‘‘
’’ہاں‘‘ صمد نے اثبات میں سر ہلایا۔
حوالدار کو بچے پر پیار آ رہا تھا۔ بالکل اس کے اپنے ہی بیٹے کا ہم عمر تھا۔ اس نے صمد کے گال تھپتھپائے۔ اور پدرانہ شفقت سے بولا ’’زیادہ آگے نہ جانا بیٹا۔ واپس چلے آنا یہ پہاڑ شاید پہلے کبھی بولتے ہوں۔ اب تو گونگے ہو چکے ہیں یا شاید انھیں فالج ہو گیا ہے۔‘‘
باپ بیٹا گفتگو کرتے ہوئے درے کی جانب بڑھنے لگے۔ زیادہ چڑھائی نہیں تھی ، انھیں دشواری پیش نہ آئی۔
’’ بابا یہ پہاڑ گونگا ہو چکا ہے کیا ؟‘‘ صمد کے معصوم ذہن سے سوال ابھرا۔
’’پہلے تو نہیں تھا۔ شاید اب ہو چکا ہے۔ دیکھو کیسی خاموشی ہے۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی زبان کاٹ کے رکھ دیتے ہیں۔ شاید اس کی زبان بھی کٹ چکی ہے۔ چلو واپس چلتے ہیں۔ گونگا کیا بولے گا!‘‘
’’ بابا تھوڑی دْور چلیں، کیا پتہ بول بھی پڑے اور اگر ہمارے پہاڑ کی زبان کوئی کاٹنے آیا تو میں اسے ماروں گا۔‘‘ صمد نے چھڑی فضا میں لہرائی۔
یہاں چڑھائی شروع ہو رہی تھی۔ ان کے ماتھے پہ پسینہ آنے لگا۔ صمد اب تک پہاڑ کے گونگے پن میں کھویا ہوا تھا۔’’ بابا !اتنا بڑا پہاڑ خود کسی کی زبان نہیں کاٹ سکتا؟‘‘
ثنا اللہ ہنس دیا، ’’ واہ بیٹا! میرے ذہن میں اب آیا پہاڑ بھی تو جواباً زبان کاٹ سکتا ہے۔ ‘‘
باپ بیٹا ہنستے مسکراتے بلندی کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچانک اوپر سے تڑ تڑ کی آوازیں آنے لگیں۔
’’ بابا! سنو پہاڑ بول رہا ہے ، یہ میرے لیے بول رہے ہیں۔‘‘ صمد خوشی سے قہقہے لگانے لگا۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ لیکن تڑ تڑ اور دھماکوں کی آوازیں اس اْترائی سے بلند ہوئیں جہاں انھوں نے دم لینے کو رک کر چائے پی تھی۔ثنا اللہ کانپ کے رہ گیا۔ اس نے کھانے پینے کے سامان کا بوجھ کندھوں سے نوچ پھینکا۔ جھپٹ کر صمد کو دبوچ لیا۔ اتفاقاً وہ ایک ایسے مقام پر تھے جہاں چھپنے کی جگہ ہی نہ تھی۔
’’ صمد بیٹا ہم کراس فائر میں آ گئے ہیں۔ تمھیں کلمہ آتا ہے ؟‘‘
’’ ہاں ہاں پورا پورا آتا ہے۔‘‘ صمد نے فخریہ انداز میں اعلان کیا۔
’’ اچھا میرے ساتھ آواز ملا کر کلمہ پڑھو۔‘‘ثنا اللہ بہ آواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگا۔اس نے صمد کو مضبوط گرفت میں یوں جکڑ رکھا تھا کہ اس کا جسم صمد کے گرد ڈھال بن چکا تھا۔
پہاڑ بولتا رہا ، بولتا ہی چلا گیا۔صمد اپنے باپ کے ساتھ ساتھ کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہا۔ پھر پہاڑ خاموش ہو گیا۔باپ کا ورد جاری رہا۔البتہ آواز کسی گہرے کنویں سے آ رہی تھی۔ بہت ہی نقاہت تھی۔ پھر پہاڑ کی مانند ثنا اللہ بھی گونگا ہو گیا۔ سپاہیوں نے دیکھا کہ چیختا چلاّتا بچہ ان کی جانب دوڑا چلا آ رہا ہے۔ چھڑی کہیں گر چکی تھی۔ قمیص خون میں بھیگی ہوئی تھی۔
انھوں نے چابکدستی سے بچے کا جسم ٹٹولا۔ جسم پہ زخم کا نشان نہ تھا۔ لباس پہ لگا خون اس کے باپ کا تھا۔
’’میرے باپ کو بچا لو۔‘‘ صمد التجائیں کرنے لگا۔
’’ کیا ہوا ہے اسے؟‘‘ سپاہی پیش قدمی سے گریزاں تھے۔
’’بابا کچھ نہیں بولتا، اس کے منہ سے خون نکل رہا ہے، پہاڑ نے اس کی زبان کاٹ ڈالی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔