جب اُس نے خاک اُڑانے کا ارادہ کر لیا ہے
تو ہم نے دل کے صحرا کو کشادہ کر لیا ہے
حدیں وہ کر گیا ہے پار سب جورو ستم کی
سو ہم نے صبر پہلے سے زیادہ کر لیا ہے
نہیں، اس جیسی عیاری تو ممکن ہی نہیں تھی
زمانے سے ذرا بس استفادہ کر لیا ہے
کچھ ایسا ہے کسی کی سر زمینِ دل کا جادو
محبت کا سفر اب پا پیادہ کر لیا ہے
چلو حیدرؔ غنیمت ہے یہ صندل کی مہک بھی
کہ یاروں نے تو لکڑی کا برادہ کر لیا ہے
٭٭٭