ڈاکٹر رضیہ حامد تک میری رسائی اس وقت ہوئی جب وہ غیر معمولی شہرت کی مالک تھیں ، سہ ماہی فکر و آگہی کی ایڈیٹر تھیں۔ ایک پردہ نشین خاتون کا معیاری ادبی رسالہ نکالنا اپنے آپ میں بہت قابلِ قدر کارنامہ تھا۔ کوئی ادبی محفل چاہے وہ تنقید کی ہو یا غزل کی ان کو مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بلایا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں کوشش کرکے ان تک پہنچا تو مجھے حیرت بھی ہوئی کہ وہ چھوٹے چھوٹے لوگوں کے بھی حالاتِ زندگی سے ایسے ہی واقفیت رکھتی ہیں جتنا کہ وہ سرسید احمد خاں یا نواب سلطان جہاں بیگم کے متعلق معلومات رکھتی ہیں ۔ دراصل ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایسے شہر سے پیدائشی تعلق ہے جہاں کی خواتین تعلیم کے میدان میں بہت سے کمالات دکھا چکی ہیں۔یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال میں اگر کوئی خاتون تعلیم و ادب کے لئے کوشاں ہے اور جو دہلی نوئڈا میں بھی سرگرم عمل رہیں تو وہ ڈاکٹر رضیہ حامد ہیں۔ انہوں نے اپنے زیرِ نگرانی فکروآگہی کے بڑے نمبر نکالے جس میں فکر وآگہی بشیربدر نمبر ان کا خاص نمبر نکالنے کا پہلا قدم تھا اس کے بعد کئی اور نمبر مثلاً علی گڑھ نمبر، بھوپال نمبر، رفعت سروش نمبر، بیکل اتساہی نمبر، اوپیرا نمبر وغیرہ۔
غرضیکہ جب میں ڈاکٹر رضیہ حامد تک پہنچا ، اس وقت شاستری نگر میرٹھ میں آگ لگی ہوئی تھی اور میں اپنے ان دوستوں کے گھر وقت گزار رہا تھا جو رضیہ حامد صاحبہ کی تنقیدی نظر کے بڑے مداح تھے۔ یہ پردہ نشینی کی حالت میں ملیں۔ انہوں نے تو مجھے خوب جی بھر کے دیکھا ہوگا لیکن میںرضیہ صاحبہ کو نہیں دیکھ پایا تھا۔ اس وقت وہ میرا نمبر نکالنے کا پروگرام بنا چکی تھیں اورکام کی ابتدأ کرچکی تھیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد نے میری تمام بے تر تیبیوں کو جس ترتیب سے فکروآگہی کا نمبر نکال کر یکجا کیا وہ اپنی جگہ بہت بڑا کارنامہ ہے اور صرف انہیں کا کارنامہ ہے۔ کیوں کہ ہندوستان اورپاکستان کے رسائل پر ان کی گہری نظر تھی اور وہ یہ جانتی تھیں کہ نقوش لاہور ، سویرا لاہور، ادبِ لطیف لاہور، فنون کراچی، شاعر بمبئی جیسے مستند پرچوں میں بشیر بدر کا کلام بہت اہمیت کے ساتھ چھپتا ہے۔ وہ محنت سے کبھی نہیں گھبرائیں غالباً آج بھی وہی ہمت اور استقلال ان میں موجود ہے ۔ ان کا یہ خاص نمبر ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں ڈپلیکیٹ چھپ کر خوب مقبولیت پارہا ہے۔
یہ باتیں تقریباً پچیس تیس سال پرانی ہیں تب سے ان کے فکر و فن میں غیر معمولی پختگی اور تبدیلی ضرور آئی ہے اور انہوں نے ہندوستان کے کئی شاعروں ، ادیبوں کو اردو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر رضیہ حامد تنقید کی پوری تاریخ میں جو خواتین نقاد اب تک اللہ کی عطا ہیں ان میں زندہ جاوید رہیں گی۔ ان کے فکر و فن اورکارناموں کے ذکر کے بغیر تنقید کا کوئی تذکرہ مکمل نہیں ہوگا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر رضیہ حامد کے پائے کی نقاد خاتون ہندوستان سے لیکر پاکستان تک مجھے نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر رضیہ حامد سخن فہم تو ہیں ہی اس کے علاوہ اعلیٰ دماغ کے ساتھ ایک نرم و نازک پاکیزہ دل رکھتی ہیں۔ انہوں نے صرف مجھی کو نہیں بلکہ اور ادبی دوستوں کو بھی اپنے فکروفن سے سرفراز کیا۔ اردو ادب میں عالمی شہرت حاصل کرنے میں جن لوگوں نے ان کے لئے ایثار کیا اس میں ان کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد اور ان کے چاروں بچے عامر، عاصم، عاطف اور بیٹی صالحہ حامد ہیں۔ اللہ نے ڈاکٹر رضیہ حامد کو جس علمی قابلیت سے نوازا اس سے بڑھ کر ان کو انعام سعادت مند اور ہونہار بیٹوں کی شکل میں دیا۔ ڈاکٹر رضیہ حامد اسلامی تہذیب کے دائرے میں رہتی ہیں۔انہوں نے پردہ نشینی اختیار کرتے ہوئے حیات و کائنات کے ہر لمحہ کو اورآنے والی تبدیلیوں کو نظر میں رکھا۔ رضیہ حامد روایتوں پر نظر رکھتے ہوئے جدیدیت پر بھی نظر رکھتی ہیں،اورجو لوگ جدید برائے جدید لکھتے ہیں ان کو وہ قبول نہیں کرتیں اور اس سلسلے میں ان کی نظر قابلِ تعریف ہے کہ وہ نئے خیالات اورپرانی روایات کے خوب صورت امتزاج کو بڑی خوبی سے پرکھتی ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ایسے لکھنے پڑھنے والوں کو ادبی حلقوں میں نمایاں ہونے میں مدد کرتی ہیں جو ادبی سیاست کا شکار ہورہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کئی طلباء اور طالبات کو تعلیم کی طرف رغبت دلائی اور تعلیم حاصل کروانے میں ان کی بھرپور مدد کی۔
بلاشبہ ہندوستان اور پاکستان کے تنقید نگاروں میں ان کا اپنی کاوشوں سے پیدا کیا ہوا ایک منفرد مقام ہے۔ اللّٰھمّ زد فزد
٭٭٭