اردو کے ادبی منظر نامے میں شمس الرحمن فاروقی کا نام تابندہ و پائندہ ہے۔ ۲۵دسمبر ۰۲۰۲ دنیائے فانی کو الودہ کہنے والے اردو وزبان و ادب کے مایہ ناز ادیب،نقاد،شاعر،مترجم شمس الرحمن فاروقی دنیائے ادب میں بحیثیت نقاد اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ لیکن شاعری میں بھی ان کی خدمات کچھ کم نہیں ہیں۔اردو میں شعوری سطح پر جس ادبی انقلاب کے خدوخال سن ساٹھ کے بعد نمایاں ہوئے اسے تحریک کی شکل دینے میں فاروقی کی شاعری نے اہم رول ادا کیا ہے۔بطور شاعر انھوں نے غزل، نظم اور رباعی میں شعری تجربے کیے ہیں۔ ان کے شعری مجموعے سوختہ، سبزاندرسبز، چار سمت کا دریا، آسماں محراب کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں۔ فاروقی صاحب نے شاعری میں نئے انداز و فکر وخیال کی قوت اور جذبہ و احساس کی شدت کے ملاپ سے اپنے لیے شاعرانہ اظہارکی راہ ہموار کی۔ انھوں نے زبان کو نئی روح نیا جسم دیا۔زبان کی نئی بازیافت کی اور نئی فکری جہت کو شاعری میں ڈھالا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پژمردہ اور پامال نظر نہیں آتی۔شمس الرحمن فاروقی نے نئی تخلیقی روایت کی دریافت اور نئے طرز فکر کی مدد سے جدید شعری زبان،جدید استعاروں اور جدید لہجوں کے ساتھ خارجی و داخلی کیفیات و واردات کو بیان کیا اہم بات یہ ہے کہ بیان کی یہ خوبی ان کے معاصر ین میںکہیں نہیں ملتی ۔اس کی وجہ صاف ہے کہ انھوں نے اردوجدید اردو تنقید سے تخلیق شناسی سے جو کچھ حاصل کیا اسے اپنی شاعری میں برتا ۔دراصل ان کے شعری کارناموں سے نئی شعری تاریخ،نئی شعری روایت کی دریافت ہوتی ہے۔ہر شاعر وادیب کی تخلیق اپنے عہد کا عکاس ہوتی ہے۔فاروقی صاحب کی شاعری میں بھی ان کے عہد کے آشوب نظر آتے ہیں۔کیونکہ انھوں نے اس آشوب میں فن کی معنویت کوایک رخ دیا۔ان کا یہ فن شاعری کسی نہ کسی صورت میں انسانی تقدیر کے مسائل سے الجھتا رہا ہے۔دراصل ان کانامعتبر حرف تسلی سے گریز کرتاہے اور ان کی شاعری میں ہمیں خود اعترافی،خودکلامی،ہزار رخی زندگی کی تفسیر وتعبیر نظر آتی ہے۔بقو ل احمد محفوظ :
’’شاعر کی یہ نمایاں خوبی ہے کہ وہ ہمیںایسی دنیا کی سیر کراتاہے جو خوفناک ہوتے ہوئے بھی دلکش نظر آتی ہے۔فاروقی صاحب شہر اشوب ہی نہیں ،جہاں آشوب کی بھی آگہی رکھتے ہیں۔انھوں نے دنیا کی ہولناکی کو اپنے دل کی گہرایئوں میں محسوس کیا ہے۔مثلا
مسل کر پھینک دوں آنکھیں تو کچھ تنویر ہو پیدا
جو دل کا خون کر ڈالوں تو کچھ تاثیر ہو پیدا
۔
میں نے خود زہر ندامت میں بجھائی ہیں رگیں
ورنہ کیا درد ہے جو حیطہ درماں میں نہیں
(شمس الرحمن فاروقی:شخصیت اور ادبی خدمات)
شمس الرحمن فاروقی کی غزلوں کی بات کریں تو انھیںدو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلے حصے میں مشکل پسند ی نظر آتی ہے۔ان غزلوں کے مشکل پسند ہونے کی وجہ موضوعات کے اظہار میں ان استعاروں ،علامتوں او ر تمثالوں کااستعمال ہے جسے عام قاری کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔شعری مجموعہ گنج سوختہ میں شامل غالب کی زمین میں چار غزلیں موجود ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب غالب کی مشکل پسندی سے متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں یہ مشکل پسندی ان کے کلام میں جابجا نظر آتی ہے۔مثلا
قدم ٹھہرتے نہیںقصر پست وبالا میں
زمیں ہے فرش تو ہے قوس آسماں محراب
۔
شمس ونجوم بے کراں ہفت فلک نبرد گاہ
روشنیوں کی دوڑ میں پاے فرار کس کو تھا
۔
دل ہے زندانی برف اس کو روانی سے
تشنہ لب کشتی کو بہتے ہوئے پانی سے
دوسرے حصہ میں سہل زبان اور آسان الفاظ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔جسے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔بعـض لوگوں نے فاروقی کی شاعری کو بے حد مشکل قرار دیا ہے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان کے کلام میں ایسے اشعاربھی موجود ہیں جس میںسہل پسندی ہے۔مثلا
دل کے کنویں میں گرتے ہیں
ساتھ سمندر سنتا ہوں
وہم وخیال سے نازک تر
تانے بانے بنتا ہوں
جہاں تک غزل کے موضوعات کی بات ہے شمس الرحمن فاروقی نے انسانی زندگی اور اس کے مسائل کو تمثالوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔مثلا مٹی ،آگ ،پانی،بارش ،آسمان ،روشنی،شہر ،دریا ،صبح، شام ،موسم،بدن،کاغذ ،چہرہ اور خواب کو انسانی زندگی کی سفاک حقیقتوں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے عام الفاظ کو بھی منفرد انداز میں استعمال کیا ہے۔لفظ کے استعمال میں معنی کی جہت کو پیش نظر رکھا ہے۔موضوعات کے اظہار کے لیے جن مرکب تمثالوں کا استعمال کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔’خارافسوس کے بستر،درد کی بے خواب سوئیاں،بازوطیورخواب کے،رینگتے لمحوں کا ہجوم،ہنسی کے ہفت رنگ آغوش،دل دریاسے زردشب،زندانی برف،خواہشوں کے طائر وحشی،فرخندہ چراغوں کا ہجوم وغیرہ ۔
دراصل فاروقی پیچیدہ اسلوب کے شاعر ہیں۔اس پیچیدگی میںہمیں بے شمار معنی کے امکانات نظر آتے ہیں۔ان کی غزلوں میں شاعر داخلی دنیا میں سانس لیتا نظر آتا ہے۔ان کے شعری مجموعے گنج سوختہ اور سبز اندر سبزکے بجائے مجموعہ آسماں محراب کی زبان زیادہ رواں او ربرجستہ نظر آتی ہے۔لیکن ان غزلوں میںبھی پیچیدہ اسلوب ہی استعمال کیا گیا ہے۔نئے او رتازہ استعاروں کا استعمال ان غزلوں میں بھی نظر آتا ہے۔علاوہ ازیں ان کے کلام میں ذات ،سانپ،خواب،جسم مکمل علامتی اظہار بن کر پیش ہوئے ہیں۔یہ علامتیںایک دوسرے سے مربوط ہوکر نئے منظر کو جنم دیتی ہیں۔یہ منظرزندگی کے اسرارو رموز سے جڑے نظر آتے ہیں۔تہذیبی لاشعور،جنس کی ماہیت ونفسیات،تخلیق کی سائنسی دریافتیںسب ان منظروں میں نظر آتی ہیں۔مثلا
گذشتہ رات مجھے پڑھتے وقت وہم ہوا
ورق پہ حرف نہیں ہیں یہ ہیں کتاب میں سانپ
۔
بس ایک رشتہ ہے جس میں پرو گئی ہوگی
وہ اشک خوا ب سے چہروں کو دھو گئی ہوگی
فاروقی صاحب کی شاعری میں داخلیت کا پہلو بھی کارفرما ہے ۔داخلیت کی ایک موسیقی آمیز،دھیمی اور پرسوزآواز ان کے کلام میں بلخصوص انداز میں ملتی ہے۔وہ زندگی کو متعدد زاویے سے دیکھنے کے قائل ہیں۔جس سے شاعری میں علائم و رموزکا نیا قرینہ پیدا ہوتا ہے۔گردوپیش کی زندگی سے نادریافت استعارے ،لفظوں کی کفایت اور خیال کی گہرائی جیسی کئی مثالیں ان کے یہاں موجود ہیں۔مثلا
اچھا ہے کہ ہے جلد بدن کانٹوں سے مانوس
مجھ سے یہ قبا ورنہ اترنی تو نہیں تھی
۔
آنکھ کو پانی کیا اوردل کو پتھر کر لیا
میں نے خود کو بھولنے میںبھی ہنر ور کرلیا
جہاں تک شمس الرحمن فاروقی کی نظموں کی بات ہے تو ان کی نظمیں بھی قاری کے انتہائی توجہ کی متقاضی ہیں ۔کیونکہ اس میں معنی کی پیچیدگی ملتی ہے ۔ان کی نظموں کی تہہ میں جانے کے لیے معنویت کی تلاش لازمی جزبن جاتا ہے۔لیکن باوجود اس کے ان کی نظمیں مختلف النوع سوالات اٹھاتی ہیں اور قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ جب قاری ان نظموں کی تہداریت اور ان کے معنویت پر غور کرتا ہے تو خود کو مختلف احساس سے گزرتا محسوس کرتا ہے۔ ایک احسا س جواسے لفظوں کی لذت میں مبتلا کرتا ہے اور دوسرا وہ جو اسے لمحہ فکریہ میںمبتلا کرتا ہے ۔ان احساس سے طمانیت پیدا ہوتی ہے جو ان نظموں کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ان کی نظمیں مسلسل سوال کرتی ہوئی ملتی ہیں الفاظ کی ترکیب اور استعاروں کے استعمال سے جو کیفیات پیدا ہوتی ہے وہ ایک سوال کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے۔مثلا
وہ جو چلے گئے انہیں تو اختتامیے کے سبب سیاہ منظروں کا علم تھا
وہ پہلے آئے تھے اسی لیے وہ عقل مندتھے تمہیں
تو صبح کا پتہ نہ شام کی خبر تمہیں تو
اتنا بھی پتہ نہیں کہ کھیل ختم ہو تو اس کو شام
کہتے ہیں اے ننھے شائقان رقص
اب گھروں کو جائو
(آخری تماشہ)
ایک دوسری مثال
تسبیح سے ٹوٹتا ہے دانہ
میں نقطہ حقیر آسمانی
بے فصل ہے بے زماں ہے تو بھی
کہتی ہے یہ فلسفہ طرازی
لیکن یہ سنسناتی وسعت
اتنی بے حرف و بے مروت
آمادہ حرب لازمانی
دشمن کی اجنبی نشانی
(شورتھمنے کے بعد)
ان کی نظموں میں ذات و کائنات کی گفتگوبھی ملتی ہے ۔مظاہر فطرت کے حوالے سے انسانی مسائل کا بیان،جانوروں او رپرندوں کے استعارتی اظہار اور معاشرتی زوال کی نوحہ گری ملتی ہے۔سیاسی اور معاشی صورتحال میں انسانی تقدیر کی عارفانہ آگہی کی کمی کا شکوہ ملتا ہے ۔ان کی ایک نظم رات ،شہر اور اس کے بچے سے چند لائین:
سرد میدانوں پہ شبنم سخت
سکڑی شاہ راہوں منجمد گلیوں میں
جالا نیند کا
مصروف لوگوںبے ارادہ گھومتے آوارہ
کا ہجوم بے دماغ اب تھم گیا ہے
رنڈیوں زنخوں اچکوں جیب کتروں لوطیوں
کی فوج استعمال کردہجسم کے مانند ڈھیلی
پڑ گئی ہے
ان کی نظموں میں انسانی تجربوں کی آواز گونجتی ہے ۔یہ تجربے مختلف زاویوں سے رہنمائی کرتے ہیںکیونکہ ان کی نظموں کی اساس شعور وتجربات پر ہے۔ یہی خارجی عوامل ان کی نظموں کے موضوعات میں ڈھل جاتے ہیں۔ان کی نظموں میں فکرو خیال کے پس منظر میں جن ٹھوس پیکروں اور استعاروں کا استعمال کیاگیا ہے وہ قدیم وجدید اسلوب اظہار سے پوری واقفیت ہونے کی وجہ سے ترتیب پایا ہے۔یہ نظمیں علامتی طریقہ کار کی وجہ سے معنی خیز اور وسیع ترمفاہیم کی حامل بن گئی ہیں۔مختصر یہ کہ شمس الرحمن فاروقی کی شاعری ایک منفرد لب ولہجہ رکھتی ہیں۔ان کاکلام خارجی و داخلی دونوں سطح پر نمایاں ہے۔ان کا فکرو تخیل مختلف النوع تجربات سے آگاہ کرتا ہے۔ان کی زبان واسلوب میں ایک نیاپن کا احساس ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا محاسبہ کرنا آسان نہیں ہے ۔باوجود اس کے میں نے اپنے ناقص علم کے ذریعے ان کی شاعری کے بعض اہم گوشوں کو بیان کرنے کی جسارت کی ہے ۔لہذا شمس الرحمن فاروقی نے جس طور ادبی تنقید کو نئی جہت سے آشنا کیا اور نئی تنقیدی روایت قائم کی اسی طرح شاعری کے حوالے سے بھی ایک نئی شعری روایت قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ شکریہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔