تعارفِ کتب
یہ کتاب بنیادی طور پر ادب اور نفسیات کے باہمی رشتوں کو تنقید کے جدید اور مابعد جدید تناظرات میں دیکھنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔انتل ضیاء نے جہاں ناسٹلجیا کے اصطلاحی مفہوم کے نئے اور پوشیدہ گوشوں کو منور کیا وہاں فن افسانہ نگاری اور ناسٹلجیا کے مباحث پر بھی قلم اٹھایا جس کی وجہ سے یہ کتاب علم و ادب کے تازہ فکری پہلوؤں کا بلیغ اشاریہ مرتب کرتی نظر آتی ہے۔خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ فاضل ناقد نے صرف نظری مباحث تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ اردو ادب کے اہم افسانہ نگاروں کو بنیاد بناتے ہوئے قابل قدر اطلاقی نمونے بھی فراہم کیے ییں جس نے اس کتاب کو ہر اعتبار سے مکمل کر دیا ہے۔کتاب کا وہ حصہ خصوصی توجہ چاہتا ہے جس میں اردو افسانے کی روایت میں ناسٹلجیا کی فکریات پر سیر حاصل مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔انتل ضیاء نے فکشن اور ناسٹلجیا کے باہمی موضوعات کو جس عرق ریزی اور ادبی بصیرت کے ساتھ منکشف کیا اس کی وجہ سے یہ کتاب ادبی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جس سے نئے آنے والے ناقدین اور محققین روشنی حاصل کریں گے۔ کتاب کا ابتدائیہ ہمارے ملک کی مایہ ناز ادب شناس اور نقاد ڈاکٹر روبینہ شاہین کا لکھا ہوا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بہت اچھا لکھا ہے۔ ان کے لکھنے کا اپنا ایک خاص اور منفرد انداز ہے۔ان کا اسلوب ایسا ہے جیسے کوئی لکھنے والا تتلی کے پروں سے رنگ مستعار لے کر گلاب کے پھولوں کو سجا رہا ہو۔مجھے ڈاکٹر روبینہ شاہین کا اسلوب ہمیشہ سے بہت اچھا لگتا ہے۔اس اہم ادبی کام کا ایک فلیپ میں نے لکھا جب کہ بیک فلیپ سلمان باسط نے لکھا اور ایسا لکھا کہ کتاب اور صاحب کتاب کا حق ادا کر دیا ہے۔ڈاکٹر انتل ضیاء بذات خود سلجھے ہوئے تنقیدی اسلوب کی مالک ہیں جس کی وجہ سے قاری کو کتاب کے مندرجات کے علاوہ اچھے تنقیدی اسلوب سے روشناس ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔فکشن میں کرداری مطالعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ ایک کردار اپنے اندر جہان معنی کا جو طلسم رکھتا ہے اس کی کلید جہاں تخلیق کار کے پاس بطور امانت محفوظ ہوتی ہے وہاں قاری بھی اس گرہ کشائی کے عمل میں مصنف سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔یہ کتاب قاری کی تربیت بھی کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان
اس وقت اردو زبان و ادب میں تقریبا ایک جیسے تنقیدی مباحث یعنی یکسانیت سے بھرے اوراق نظر آتے ہیں۔اردو میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ہر کچھ عرصے بعد ادبی تنقیدی جمود اس انداز سے عفریت کے طرح پھیلا نظر آتا ہے۔اگر اس صورت حال میں کوئی متوازی یا متضاد تنقیدی فکر سامنے نہ آئے تو عوام و خواص اسی اندھے کی لاٹھی کو سہارا مان کراپنا اپنا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔میں اسے اردو زبان و ادب کی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ فرحت عباس شاہ جیسے صاحب نظر نقاد اور تخلیق کار نے اس تنقیدی جمود کو توڑنے کی پہلی بھرپور کوشش کر دی ہے جو کچھ دنوں تک کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہو گی۔اس وقت تھیوری والی تنقید اور سماجیات سے لدی تنقید نے جس طرح ادبی تنقید کا چہرہ مسخ کر رکھا ہے یہ کتاب اس اثر کو زائل کرنے کا فریضہ بھی انجام دے گی۔فرحت عباس شاہ کا کمال یہ ہے کہ وہ ادبی بطل پرستی کو خالص علمی اور منطقی دلائل کے ساتھ نیز ادبی اور ذوقی پیمانوں کی بنیاد پر رد کرتے ہیں۔اس وقت ایک ایسے ہی نقاد کی ضرورت تھی جو ادبی تنقید کی کھوئی ساکھ کو بحال کرے۔ادب کے ہر سچے قاری کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔