( معروف شاعر عدیم ہاشمی کی زندگی میں ان کے اعزاز میں برمنگھم میں ہونے والی ایک تقریب میں اسماعیل اعظم نے یہ مضمون پڑھا تھا)
خواتین و حضرات !میں ’’آگہی‘‘کا مشکور ہوں کہ ایک مداح کی حیثیت سے اُنہوں نے مجھے یہ عزت بخشی کہ میں عدیم ہاشمی صاحب کے بارے میں کچھ کہوں۔جہاں تک ادب اور شاعری کے حوالے سے عدیم صاحب کا مقام ہے وہ ان شعبوں کے ماہرین بڑی خوبی سے بیان کرچکے ہیں اور جو اِن ماہرین کا حق بھی بنتا ہے۔میرے پاس تو ان کے ساتھ نیاز مندی کی چند یادوں کا سرمایہ ہے اور ان یادوں کا سرمایہ بھی کوئی لمبے چوڑے عرصے پر محیط نہیں ہے۔پچھلے سال تقریباً ان ہی دنوں میں عدیم صاحب سے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی اور پھرمیری طرف سے نیازمندی اور ان کی طرف سے شفقت اور محبت کا اظہار بڑھتاگیا۔میں دل کی گہرائیوں سے ان کی عزت کرتا ہوں اور یہ ہمیشہ میرے ساتھ مروت سے کام لیتے ہیں اور یہ تعلق اُس ہلکی سی برقی رو کی طرح قائم ہے جو بالوں میں کنگھی کرنے سے پیدا تو اکثر ہوتی ہے لیکن اس سے جھٹکا کبھی نہیں لگتا۔
عدیم صاحب کو پہلی مرتبہ مشاعرے میں سننے کے بعد اور ان سے ملاقات کے بعد میرا سب سے پہلا تاثر یہی تھا کہ یہ شاعر اپنے لفظ و احساس اور اپنے شعر کا احترام کرنا جانتا ہے۔زندگی کا اتنا گہرا مشاہدہ اور اُس مشاہدے کو اس روانی ‘سادگی اور سلاست سے بیان کرنا ‘بس سننے والا یہی کہتا ہے کہ یہ تو اس کی اپنی کہانی ہے۔عدیم صاحب زندگی کی تکریم اور زندہ لفظوں کی تکریم کا عمیق شعور رکھتے ہیںاور دوسروں سے بھی اسی تکریم اور توقیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔عدیم صاحب کے دوست ان سے بڑے ہیں کیونکہ وہ عدیم صاحب کے دوست ہیں اور یہ کوئی کمتر چیز اپنے دوست سے منسوب کر ہی نہیں سکتے۔اپنے دوستوں پر یقین و اعتماد کا یہ عالَم ہے کہ ان کے دوست ان کے گلے پر خنجر چلادیں تو یہ بڑے دبدبے اور رعب سے ان سے باز پرس کریں گے کہ میاں یہ کیا حرکت ہے؟ذرا سا روہانسہ ہو کر جواب دیدیجئے کہ عدیم صاحب میں سخت شرمندہ ہوں۔آپ کے آنسو دیکھ کرباقاعدہ گریہ شروع کردیں گے اور آپ کو گلے لگا کر تسلی دیں گے :چلو کوئی بات نہیں‘آئندہ خیال رکھنااور چھری ذرا تیز رکھنا۔دوست کو دیکھ کر کھِل اٹھنا انہی کی طبیعت اور شخصیت کا حصہ ہے۔باقی سب کچھ چلا جائے لیکن دوست نہ جائے یہی ان کا ایمان ہے۔اب اگر ایک طرف یہ دوست نواز ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے دشمن نہیں ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے دشمنوں کی تعداد خود ان کو ملا کر بھی کچھ زیادہ نہیں بنتی ہے۔دشمنوں سے دشمنوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور بڑی عرق ریزی کے بعد ان کے اوصاف تلاش کرتے ہیں۔زیادہ مشکل پڑے تو اپنے تخیل کو مہمیز لگا کر اس کے خدو خال بھی وضع کر لیتے ہیں اور اپنے دیباچوں میں ان کا ذکر بھی کر دیتے ہیں۔
عدیم صاحب ہم سے عمر میں بڑے ہیںلیکن یہ اُن بڑوں میں سے ہیں جن کے ساتھ اگر وحدت الوجود کے فلسفے پر گفتگو ہوئی ہے تودوسری طرف زندگی کے رنگین اور بے باک موضوعات پر بھی بات ہو سکتی ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں پیار سے بہلایا پھسلایا جائے تو کسی غیر شرعی محفل میں لے جایا جا سکتا ہے۔بعد میں یہ رشید چوہدری صاحب کو کیسے مطمئن کرتے ہیں اور کیا جواب دیتے ہیں‘یہ اِن کا مسئلہ ہے۔
عدیم صاحب کو بزرگ بننے کا شوق قطعاً نہیں ہے۔یہ بزرگی سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔یہ دوسری بات کہ بزرگی اب خود ان کے تعاقب میں ہے۔جھپٹ کر پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے والی خو ابھی تک موجود ہے۔گفتگو کی ایسی چومکھی لڑتے ہیں کہ مد مقابل خود ہی چاروں شانے چِت ہو جاتا ہے۔جوانوں اور نوجوانوں کے ساتھ کام سے زیادہ خوش ہیں کیونکہ بقول عدیم صاحب انہیں شاہین بچوں نے نہ صرف ادب کو آگے بڑھانا ہے بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ہر کام کو آگے لے کر جانا ہے۔
خواتین و حضرات!یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ تاریخ کے ارتقائی عمل میں ہر عہد اپنے دانشوروں‘فنکاروں اور اہل کمال شخصیتوں کے حوالے سے ہی سانس لیتا ہے ورنہ وقت کا بے رحم سیلِ رواں سبھی کچھ اپنے دامن میں سمیٹ کر گزر جاتا ہے سوائے ان روشن جواہر پاروں کے جو خاک کے تودوں میں تہہ در تہہ اپنے تخلیق کاروں کے حوالے سے ان کے زمانے کی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ مکافات عمل کے اس تسلسل میں جب صدیوں بعد بھی عدیم صاحب کی کوئی نہ کوئی تحریر ‘غزل ہمارے خزینۂ تہذیب سے برآمد ہو گی تو ہمارے تہذیبی وجود ہی کی شہادت دے گی۔آج جب ہم اپنے اردگرد کی تہذیبی فضا کو دن بہ دن بنجر پن کی نذر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔جن میں ہر طرح کی عصبیت ‘تنگ نظری ‘بنیاد پرستی‘خوف و دہشت اور ہلاکت کا زہر سرایت کرتا جا رہا ہے۔قومی اور معا شرتی سطح پر عدل و انصاف ‘رحم و پیار‘درگزرجیسی انسانی اقدار کی بجائے کچھ اور قدریں فوقیت پاتی چلی جا رہی ہیں۔تو اس ماحول میں عدیم ہاشمی صاحب کے فن پاروںاور تحریروںکی معنویت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پیار اور محبت کے اس پیامبر کی شاعری اس دور میں ٹھنڈی چھاؤں ہے۔مجھے یقین ہے کہ کوہِ ندا سے بھی صدا آئی یہی آئے گی ؎
کہا گر پیار کرنا ہے تو کتنا پیار کرنا ہے
جواب آیا بدن سے روح تک سرشار کرنا ہے
اردو ادب کو ڈاکٹر سر محمد اقبال اور فیض احمد فیض کے بعد پنجابیوں کا ایک اور تحفہ قبول ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔