میری اہلیہ مبارکہ حیدر 27 مئی 2019 ء کو فوت ہوئی تھیں۔آج ان کی چوتھی برسی ہے۔گزشتہ سال میں نے مبارکہ کی تیسری برسی پر اپنے خاکوں،مضامین اور یادوں کے منتخب اقتباس یکجا کر کے پیش
کئے تھے جنہیں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ اس باراپنے پانچوں بچوں کے مضامین سے اقتباس جمع کرکے پیش کر رہا ہوں۔ ان اقتباسات سے بھی مبارکہ کے بارے میں ایک واضح تاثر سامنے آتا ہے۔اس طرح
ہم مبارکہ کو یاد کر رہے ہیں۔امید ہے قارئین کرام کو بھی یہ آرٹیکل پسند آئے گا۔اللہ تعالیٰ مبارکہ کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
مبارکہ کے بارے میں ایک بات بتا دوںکہ ان کی زندگی میں ہی ان پر بچوں نے مل کر ایک کتاب شائع کی تھی’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘۔۔ان کی وفات کے بعد میں نے مزید دو کتابیں شائع کی تھیں۔
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ اور’’مبارکہ محل‘‘۔اسی حوالے سے ایک اور خوشخبری آ رہی ہے۔شاید اگلی سہ ماہی تک آ جائے۔تب تک انتظار کریں۔اور اب میرے پانچوں بچوں کی اپنی والدہ کے بارے میں یادوں اور
تاثرات کوملاحظہ فرمائیں،یہ سارے مضامین میری کتاب‘‘حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں شامل ہیں۔(ح۔ق)
رضوانہ کوثر :
امی ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ۱۹۶۷ء میںہماری نانی جان مجیدہ ناصر وفات پا گئی تھیں۔نانا جان پروفیسر ناصر احمد صاحب (موجودہ صوبہ کے پی کے میں) شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ان کی تعیناتی پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان تک تو ٹھیک تھی لیکن جب نوبت قبائلی علاقہ میران شاہ میں تبادلے تک آ گئی تو نانا جان فکر مند ہوئے ۔انہوں نے اپنی سب سے لاڈلی بہن اور ہماری دادی جان سے بات کی اور یوں ۱۹۷۱ء میں پندرہ سال کی عمر میں امی کی ابو سے شادی ہو گئی۔میں اپنے ماں باپ کی پہلی اولاد ہوں۔کچھ امی سے سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر اور کچھ ابو، دادی جان اوردوسرے قریبی عزیزوں سے سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر امی کے بچپن کو یاد کرتی ہوں تو ساڑھے گیارہ سال کی امی کا اپنی ماں سے محرومی کا تصور دل میں ہول پیدا کرنے لگتا ہے۔ابو سے شادی کے بعد امی نے اپنے بچپن اور لڑکپن کا خوب خوب مزہ لیا۔ان کی اس زمانے کی سپورٹس میں رسہ کودنا،اشٹاپو،کوکلا،لکن میٹی اور کھو ،وغیرہ سب شامل تھیں۔پھر بیٹھ کر کھیلنے والی گیمز میں کیرم، لوڈو، بارہ ٹہنی،نوٹہنی،اور گیٹیاں وغیرہ شامل تھیں۔ان ساری گیمز میں امی بہت مشاق تھیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابولوڈو اور بارہ ٹہنی میں ہمیشہ امی سے ہارتے تھے ۔امی کی بچپن،لڑکپن کی ان گیمز کے ساتھ سب سے کمال کی گیم دانتوں سے رومال اُٹھانا تھا۔امی سیدھی لیٹ کر رومال اپنے سر کی طرف رکھتیں۔پھر کسی تجربہ کار سرکس گرل کی طرح ہاتھوں کو ہلائے بغیراپنے جسم کو اوپر اُٹھاتیں،اسی حالت میںسر کو رومال کی طرف لے جاتیں اور دانتوں سے رومال کو اُٹھا کر پھر سیدھی ہو کر اٹھ بیٹھتیں۔کہیں سے کوئی تربیت لیے بغیر یہ گیم امی کی عجیب مہارت تھی۔شاید ان کے جسم میں لچک بہت زیادہ تھی۔
اپنا کوئی عزیزہو،اپنے بچے ہوں یا کوئی پار پرے کا جاننے والا خاندان،جو کوئی بھی ملنے آتا امی سب کی مہمان نوازی کرکے ہمیشہ خوش ہوتیں۔ابو کے دوست شاعر اور ادیب حضرات بھی گاہے بگاہے آجاتے تو ان کی مہمان نوازی بھی دلجمعی کے ساتھ کرتیں لیکن ان کے جانے کے بعد اپنی رائے بھی دیا کرتیں۔چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں امی کی رائے اچھی نہیں رہی۔
ڈایلے سز ہوجانے کے بعد امی کی واپسی پرابو کا امی کو معمول کے مطابق ریسیو کرنا بھی در اصل خاصا غیر معمولی ہوتا تھا۔ایک بار میں نے کہا کہ میں امی کو ریسیو کرکے سنبھالتی ہوں لیکن ابو نے کہا نہیں آپ لوگ اپنی امی کو ٹھیک سے نہیں سنبھال سکتے۔میں ہی انہیں ٹھیک سے سنبھالتا ہوں۔ ایک بات طے ہے کہ زندگی بھر امی نے ابو کو اور ابو نے امی کو جس طرح سنبھالا ہے ہمارے سارے خاندان میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔اسے محبت کی جدید داستان بھی کہا جا سکتا ہے۔(’’جدید داستانِ محبت‘‘ از رضوانہ کوثر سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعیب حیدر:
۱۹۹۹ء میں میری شادی تسنیم سے ہوئی۔یہ بات ابو پہلے لکھ چکے ہیںلیکن میں پھر بھی بیان کرتا ہوں۔جب رخصتی کا وقت ہوا تو دلہن،اس کے گھر والے اور سہیلیاں تو رو رہی تھیںجب ہماری نظر پڑی تو امی بھی جذباتی ہو کر رو رہی تھیں۔تسنیم نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی تھی اور شادی کے بعد دو سال ہسپتال میں سروس بھی کی پھر بچوں کی پیدائش کے بعد گھر کی ذمہ داری سنبھال لی۔میرا بیٹا شہریار پیدا ہوا تو رضوانہ کے بیٹوں مشہود اور مسرور کے بعد پہلا پوتا ہونے کے باعث اسے بہت زیادہ لاڈ پیار ملا۔ابو نے اپنی ادبی دنیا میں شہر یار کی پیدائش کی خبر دی تو ان کے بعض دوستوں نے تہنیتی اشعار بھی کہے تھے۔شہر یار کے بعد ماہ نور پیدا ہوئی تو خاندان کی پہلی لڑکی ہونے کے باعث اسے بھی بہت پیار ملا۔امی اس کے لیے خود کپڑے سی کر دیا کرتی تھیں۔
امی کی بیماری کے باعث تسنیم نے ہی ہسپتال اور ڈاکٹرز کی اپائٹمنٹس کی زیادہ تر ذمہ داری بخوبی نبھائی جو قریباََ امی کی وفات تک جاری رہیں۔اس کے علاوہ بھی کہیں آنا جانا ہوتا تو امی زیادہ تر تسنیم کے ساتھ ہی جاتی تھیں۔اس بہو کے ساتھ ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی بہوؤں سے اچھا تعلق نہیں تھا لیکن اس سے کچھ خاص تھا۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ماں کو ہمیشہ شفیق اور محبت کرنے والا پایا۔’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ اگرچہ ہم پانچوں بھائی بہنوں کی مشترکہ کاوش تھی،پھر اس کا بیشتر مواد خود ابو کا اپنا تحریر کردہ تھا،اس کے باوجود مجھے امی کی زندگی میں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ میں نے یہ کتاب مرتب کی اور امی کی زندگی میں ہی اسے شائع کرکے امی کی خدمت میں پیش کیا۔ادب سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘کے ذریعے مجھے ایسا کام کرنے کی توفیق ملی جسے ادبی دنیا میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ڈاکٹر انور سدید صاحب جیسے اہم نقاد نے تو یہاں تک لکھا کہ:
’’میں کہہ سکتا ہوں کہ’’ہماری امی‘‘اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔‘‘
’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘پر ادبی دنیا میں جس طرح تبصرے کیے گئے،مضامین لکھے اور تاثرات درج کیے گئے وہ سب کچھ اب ابو کی کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں یک جا کیا جا رہا ہے۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکے گا کہ اس کتاب کو ادبی دنیا میں کتنی دلچسپی،حیرانی اور خوشی کے ساتھ دیکھا گیا۔یہ سب کچھ نہایت غیر معمولی ہے۔
امی! آپ بظاہر اب ہم میں نہیں ہیں،لیکن ہم نے آپ کو ،آپ کی یادوں کو اپنے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے،روشن رکھا ہوا ہے۔یادوں کی یہ روشنی ہمارے دلوں کو روشن رکھے گی ۔
(’’امی کی یادیں‘‘ از شعیب حیدر سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان حیدر:
بچپن میں مجھے یہ بیماری تھی کہ روتے روتے دورہ پڑتا تھا اور میں ایک سانس میں چلا جاتا تھا۔ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے۔مجھ سے ایک بہن رضوانہ اور ایک بھائی شعیب بڑے ہیں۔میرے بعد ہونے والا طارق مجھ سے ساڑھے چھ سال چھوٹا ہے۔اس لحاظ سے ساڑھے چھ سال کا عرصہ میں گھر کا سب سے چھوٹا بچہ رہا اور اسی حوالے سے امی کا پیار سب سے زیادہ مجھے ملتا رہا۔بیماری کی وجہ سے زیادہ توجہ بھی مجھے ملتی رہی۔چنانچہ ساڑھے چھ سال تک میں نے امی کی محبت سب سے زیادہ حاصل کر لی۔مجھے یاد ہے سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب سے پہلی روٹی مجھے ملتی تھی اور مجھے چینی والا پراٹھا بہت پسند تھا۔
۱۹ مئی ۱۹۸۲ء کا دن تھا۔صبح جاگنے پر میں نے دادی جان کو بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا دو آنکھوں والا ایک ڈینڈا آپ کے ساتھ آ کر سو گیا ہے۔اسکول سے واپس آیا تو دادی جان نے ایک بچہ گود میں اٹھایا ہوا تھا اور مجھے دیکھ کرمسکرا کر کہنے لگیں یہ تمہارے خواب والا دو آنکھوں والا ڈینڈا آ گیا ہے۔اس دن چھوٹے بھائی طارق کی پیدائش ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ہی میرا سب سے چھوٹا ہونے کا اقتدار جاتا رہا لیکن توجہ اور محبت پھر بھی باقی بھائی بہن جیسی ملتی رہی۔
امی کی ایک بہت اہم خوبی یہ تھی کہ پانچ وقت کی نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں۔کبھی کوئی مجبوری ہوتی تو ظہر،عصر، جمع کر لیتیں۔مغرب ،عشاء جمع کر لیتیں۔لیکن عام طور پر ساری نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھتیں۔یہ باقاعدگی سنگین بیماری کے ایام میں بھی قائم رکھنے کی کو شش کی۔دل کی آخری انجیو پلاسٹی ہوئی تھی اور امی سرجری کے بعدابھی آئی سی یو میں ہی تھیں۔ ایک وقت میں صرف دو افراد کو اندر جانے کی اجازت تھی۔باجی رضوانہ اور حفیظ بھائی اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اپنی انتہائی نازک حالت میں بھی بستر پر لیٹے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھ رہی ہیں۔
فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید لازماََ پڑھتیں۔رمضان کے مہینے میں فجر کے علاوہ عصر اور مغرب کے درمیان بھی قران مجید پڑھا کرتی تھیں۔جب تک سنگین بیماریاں زیادہ سنگین نہیں ہو گئیں تب تک رمضان کے روزے ہمیشہ رکھے۔یہاں اپنی بات یاد آ گئی۔رمضان کے مہینے میں بعض بچوں کو بار بار جگانا پڑتا تھا لیکن میرے بارے میں امی سب کے سامنے برملا کہتی تھیں کہ عثمان کو ہلکی سی آواز میں ’’شازی‘‘ کہتی ہوں اور وہ فوراََ جاگ جاتا ہے اور واش روم میں چلا جاتا ہے۔
۲۶ مئی ۲۰۱۹ء۔۔۔۔امی کی فوتگی سے ایک دن پہلے ہم بہن بھائی کسی دعوت کے بغیر امی کے گھر جمع ہوتے گئے۔امی نے اپنے ہاتھ سے کھانے بنائے۔میری خوش قسمتی کہ آخری وقت میں بھی ماں کے ہاتھ کی پکائی ہوئی روٹیاں میرے حصے میں آئیں،جو شام کو انہوں نے افطاری کے وقت بنائی تھیں۔اگلے دن سوا چار بجے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ ابھی کچھ نیند کروں یا بعد میں۔۔۔کیونکہ جاب پر سوا چھ بجے جانا تھا۔اچانک بیل بجی،دروازہ کھولا تو ابو نہایت پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔بولے جلدی آ جاؤ۔۔۔میں نے پوچھا خیریت؟، بولے نہیں۔۔۔میرا دل دھک سا ہو گیا۔لگا ماں جی کو کچھ ہو گیا ہے۔ننگے پاؤں ہی ابو کے ساتھ ہو لیا۔پھر وہاں جا کر جو دیکھا اس کا حال ابو پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔
میں بھیگی پلکوںکے ساتھ خوش ہوں کہ امی کے آخری سفر کے وقت میں سب سے پہلے ان تک پہنچا اور انہیں سنبھالااور اللہ کے حوالے کیا۔فارسی مجھے بالکل نہیں آتی لیکن خود کو حاصل ہونے والی اس سعادت پر یہ شعر ضرور سمجھ میں آگیا ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
(’’امی کی کچھ یادیں ،کچھ باتیں‘‘ از عثمان حیدر سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق محمود حیدر:
امی کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ابو کی طرف سے ہدایات ملی ہیں کہ بعض مشہور باتوں کی تکرار نہ کی جائے۔مثلاََ ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں،ماں کی عظمت اور مقام، ماں کے قدموں کے نیچے جنت،ماں کی مامتا،ماں کی بے لوث محبت وغیرہ،کیونکہ یہ حقائق اور یہ سچائیاں ساری دنیا بخوبی جانتی ہے۔پھر یہ بھی پابندی کہ امی کی جن یادوں اور باتوں کو کسی اور نے لکھا ہوا ہے،ان کو غیر ضروری طور پر دہرایا نہ جائے۔اس لیے اب مجھے براہِ راست اپنی گزری ہوئی یادوں میں سے ہی بعض باتیں یاد کرنی ہیں۔
ابو جب کبھی کوئی گانا اہتمام سے سن رہے ہوتے تو ان پر امی بڑے مزے کے تبصرے کیا کرتی تھیں۔ان کا کچھ ذکر ابو نے اپنی کتاب’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘میں کر رکھا ہے اور کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘میں بھی وہ اقتباسات شامل ہیں۔میرے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوتا رہا ہے۔بچپن میں پاکستان میں فلم ’’دل‘‘ کا گانا سنا ہوا تھا۔
مجھے نیند نہ آئے،مجھے چَین نہ آئے؍کوئی جائے ذرا ڈھونڈ کے لائے،نہ جانے کہاں دل کھو گیا۔۔۔۔۔
میں اپنی لہر میں فل والیوم کے ساتھ یہ گانا گنگنا رہا تھا۔اچانک امی کی مسکراہٹ بھری آواز سنائی دی۔’’ٹھہر جا!میں تیراچََین لے کے آتی ہوں۔‘‘
ادھر جرمنی میں آ جانے کے بعد لڑکپن میں ایک بار میں اپنے بے سُرے انداز میں مگر فل آواز میں ایک گانا گا رہا تھا۔یہ گانا فلم ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘کا تھا اور اس کے بول تھے۔
تڑپ تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی
دوسرے کمرے سے امی کی مخصوص مسکراتی ہوئی آواز آئی’’اوئے کس نے تمہیں اتنا تڑپا دیا ہے۔‘‘
میرے پاس امی،ابو کے گھر کی ایک اضافی چابی ہوتی ہے۔چند سال پہلے کی بات ہے،میں شام کو گھر میں گیا توعجیب سا منظر محسوس ہوا،گھر روٹین کے مطابق روشن نہیں تھا بس کچھ ہلکی سی روشنی جیسی کوئی چیز ضرور محسوس ہوئی۔میں گلی کی بتی جلا کر اندر کمرے میں آیا تو دیکھا کہ امی، ابو بجلی بند کرکے موم بتیاں جلا کے کھانا کھا رہے ہیں۔میں نے کمرے کی بتی بھی جلا دی اور ساتھ ہی شوخی کے ساتھ کہا ’’آہا۔۔۔کینڈل لائٹ ڈنر ہو رہا ہے۔‘‘
امی مسکراتی رہیں اور کھانا کھاتی رہیں لیکن ابو نے کہا ’’یار! آج پاکستان بہت یاد آرہا تھا۔اس لیے ہم دونوں نے سوچا کہ پاکستان کی لوڈ شیڈنگ کو یاد کرتے ہیں اور موم بتیاں جلا کر مزہ لیتے ہیں۔بس پاکستان کی اسی یاد کے چکر میں کینڈل ڈنر بھی ہو گیا۔‘‘
آخرمیں ایک روایت کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔یہ ماں کے مقام کے بارے میں بیان کردہ مشہور درجات سے ذرا ہٹ کر روایت ہے۔میں صرف مفہوم بیان کر رہا ہوں۔آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺسے حضرت عائشہ ؓنے پوچھا کہ یا رسول اللہ(ﷺ)!کیا آپ ﷺ کے دل میں بھی کوئی حسرت ہے؟حضورﷺ نے فرمایا،ہاں۔میرے دل میں بھی ایک حسرت ہے۔
کاش میری ماں زندہ ہوتی،رات کو میں نماز پڑھ رہا ہوتااور ماں میرا نام پکار کر مجھے بلاتی،میں فوراََ نماز توڑ کر ماں کے پاس جاتا اور پوچھتا کیا حکم ہے میری ماں؟
اس سے آگے کیا لکھوں؟۔۔۔۔۔ میں خود آقاﷺ کی غلامی میں اسی حسرت سے بھر گیا ہوں۔
کیا حکم ہے میری ماں؟
(’’کیا حکم ہے میری ماں!‘‘ از طارق محمود حیدر سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درِ ثمین انور:
امی کو ایک زمانے میں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق رہا۔ہم سب مل کر انڈین فلمیں دیکھتے تھے۔پھر انہوں نے انڈین ڈرامے دیکھنے شروع کیے۔۔۔لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ فلموں اور طویل انڈین ڈراموں سے بیزار ہو گئیںاور انہیںدیکھنا بالکل چھوڑ دیا اور ان کی بجائے پاکستانی ڈرامے دیکھنے لگیں ۔پاکستانی ڈراموں سے ان کی دلچسپی آخر دم تک برقرار رہی۔اس کے نتیجہ میں ہم لوگ بھی پاکستانی ڈراموں میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔پاکستانی ڈراموں کے ساتھ وہ مختلف کوکنگ شو بھی شوق سے دیکھتیں۔یوٹیوب کے آنے کے بعد تو کھانے پکانے کے نئے نئے تجربے کرنے لگیں۔امی کھانا پکانے میں ہمیشہ ماہر رہی ہیں لیکن کوکنگ شوز اور یوٹیوب کی ویڈیوز کے ذریعے انہوں نے بہت عمدہ عمدہ پکوان تیار کرنا شروع کر دئیے۔ان کی سنگین بیماریوں کی وجہ سے ہم دونوں بہنیں انہیں روکتیں کہ آپ کچن کا کام مت کریں ہم خود کر رہی ہیں مگر وہ کسی کی نہیں مانتی تھیں اور ہمیشہ مزے مزے کے کھانے تیار کرتی رہتی تھیں۔
امی کو اچھے کپڑے پہننے،اچھا میک اپ کرنے،میچنگ جیولری اور چوڑیاں پہننے،میچنگ جوتے اور پرس کا بھی شوق رہا۔ یہ سب مختلف تقریبات میںہمیشہ اہتمام کے ساتھ پہنتیں۔ان کی وفات پر آنے والی اور ملنے جلنے والی بہت ساری خواتین نے ان کی اس خوبی کا ذکر کیا۔دراصل امی آن لائن میک اپ کا سامان خریدا کرتی تھیں۔یہ عام مارکیٹوں میں دستیاب میٹریل سے کافی بہتر مٹیریل ہوتا تھا۔ان کی وفات کے بعد یہ میک اپ کا سامان اتنا زیادہ ملا ہے کہ ان کی بہو،بیٹیوں اور نواسی و پوتیوں کے لیے سال بھرکسی اور خریداری کی ضرورت نہیں رہے گی۔میک اپ کا اتنا سامان ہونے کے باوجود امی میں ایک عجیب بات دیکھی کہ ان کے سنگھار میز پر پاکستانی تبت پاؤڈر بھی ہمیشہ موجود رہتا تھا۔اب بھی موجود ہے۔پتہ نہیں وہ اسے استعمال بھی کرتی تھیں یا نہیں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ اس بہانے سے اپنے بچپن اور لڑکپن کو یاد رکھتی تھیں،جب وہ یہی پاؤڈر استعمال کیا کرتی تھیں۔امی کی میت کو غسل دیتے وقت میں نے ان کی ناک کا کوکا اتارتے ہوئے باجی رضوانہ سے کہہ دیا تھا کہ یہ کوکا میں اب اپنے کان میں پہنوں گی۔چنانچہ وہ کوکا اب میرے کان اور میری جان کا حصہ ہے۔چار سال پہلے یہ کوکا میں نے ہی امی کی ناک میں ڈالا تھا۔
میری نانی جان ۳۲ سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھیں جبکہ دادی جان کی وفات ۵۴ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ان کے بر عکس امی نے ان دونوں بزرگوں سے زیادہ عمر پائی۔نہایت سنگین نوعیت کی بیماریوں سے دلیری اوربہادری کے ساتھ نمٹتے ہوئے امی ۶۳ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں فوت ہو ئیں۔مجھے امید ہے کہ اپنی وفات کے بعد میری ساڑھے تریسٹھ سال کی امی، میری ۳۲ سالہ نانی اماں اور ۵۴ سالہ دادی اماں ،یعنی اپنی امی اور ساس کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہوں گی۔(’’امی کی چند یادیں‘‘ از درِ ثمین انور سے اقتباس)
۔۔۔۔۔