اس وسیع اور شاندار کوٹھی کے عالیشان گیٹ کو دیکھتے ہی اس کی پھولی ہوئی سانس مزیدبے ترتیب ہو رہی تھی۔خودپر قابو پانے کے لیے اس نے گہرے گہرے سانس لیے اپنی نئی واسکٹ جو منسٹر صاحب سے ملاقات کے لیے خاص طور پر سلوائی تھی، پر سے گرد جھاڑی۔دونوں ہاتھوں سے کنگھی درست کی اور سنبھل کر چمکتی ہوئی بیل پر انگلی رکھ دی۔ دروازے پر نصب کیمرے نے زوم کر کے اپنی آنکھ اس پر گاڑ دی۔ وہ گھبرا کر کیمرے کے سامنے ساکت سا کھڑا ہوگیا ۔گیٹ پر لگی چھوٹی سی کھڑکی کھلی کلاشنکوف والے چوکیدار نے جھانکا اور کلا شنکوف کی نوک سے اشارہ کرتے ہوئے حیرت سے آنے کی وجہ پوچھی۔
وہ مجھے ۔۔اس کی آواز گلے میںپھنس گئی۔اس نے گلا کھنکار کر صاف کیا اور دوبارہ غیر ضروری سی اونچی آواز میں گویا ہوا۔رات منسٹر صاحب سے فون پر بات ہوئی تھی۔انہوں نے صبح گھر آنے کو کہا تھا۔
صبح کہا تھا نا۔صبح صادق تو نہیں۔چوکیدار نے غرا کر کہا۔
اس نے گھبرا کر گھڑی دیکھی، پھر حیران ہو کر چوکیدار کی طرف دیکھا۔ سات۔ سات۔ سات توبج چکے ہیں۔
چوکیدار کو شاید اس کی معصومیت پر پیار آ گیا تھا۔نرم لہجے میں بولا۔سات بجے ہیں نا یہاں اس وقت صبح صادق ہوتی ہے۔ نوبجے سے پہلے کب ہوتی ہے صبح۔جائو نو بجے آنا۔
لیکن وہ انہوں نے ، نہیں انکے دوست نے ۔۔۔۔۔ وہ گھبرا کر بولا ۔
ہاں کسی نے کہہ دیا پتا دے دیا ،تم منہ اٹھا کر چلے آئے ،بہت آتے رہتے ہیں تم جیسے ، چلو جلدی نہ مچائو ٹھنڈی کر کے کھایا کرتے ہیں۔ کھڑے کیوں ہو اب جائو یہاں سے ۔ صاحب کی سیکورٹی والوں نے پکڑ لیا تو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا ،اسکے زور لگانے پر بھی بند نہ ہوا لیکن کھڑکی زور سے بند ہوچکی تھی۔اسے یوں محسوس ہوا کہ سامنے لگا کیمرہ اس پر ہنس رہا ہے۔شرمندگی چھپانے کے لیے وہ تیزی سے مڑا۔کہاں جا ؤں ۔ اس نے سوچا ۔ وہ گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ وہاں بہت سی سوالیہ نگاہیں چھوڑ کر آیا تھا۔ منسٹر سے میرا گہرا تعلق بن چکا تھا ۔خود اپنے ہی سامنے بے بس ہو جانے سے زیادہ قابلِ رحم حالت کوئی اور نہیں ہوتی۔ وہ بھاری قدموں سے چلنے لگا ۔بڑی سڑک کو پار کر کے وہ پیدل چلتا رہا ۔ دوسرے چوک سے گزر کر بڑے بڑے گھروں سے کافی دور ، جب وہ چھوٹی سڑک پر پہنچا تو وہاں جمیل کھڑا تھا۔ارے عرفان اللہ! یہاں کیسے؟ وہ بھی صبح صبح۔
جمیل تپاک سے اسے گلے لگا رہا تھا اور وہ ایک ٹوٹے پھوٹے پنجر کی طرح اس کی بانہوں میں جھول رہا تھا۔ اس نے مشکل سے خود کو سنبھالا۔ جمیل بے پروائی سے بولے چلے جا رہا تھا۔
کوئی نوکری مل گئی کیا؟
نہیں۔تلاش میں ہوں۔
کوئی چھوٹی موٹی پرائیویٹ بھی نہیں۔
چھوٹی موٹی ملتی رہی مگر کبھی ادارہ ختم کبھی نوکری۔
ہاں یہ سلسلہ تو ہر طرف لگا ہوا ہے۔کیوں آج کوئی انٹرویو ہے کیا؟
ارے نہیں ایسے ہی صبح صبح جھک مارنے نکل آیا ہوں بس۔
سنا ہے کسی منسٹر سے دوستی گاڑھ لی ہے تم نے۔ تمھارے والد بتا رہے تھے آج کل زیادہ تر اسی کی طرف پائے جاتے ہو۔کیاسلسلے ہیں یار۔ کونسا نظریہ اپنا رہے ہو اب۔
کچھ نہیں۔اس کے چہرے پر ایک خجل سے مسکراہٹ لمحے بھر کو نمودار ہوئی جو شرمندگی میں بدل گئی۔
جلسے جلوسوں میں جانا شروع کر دیا ہے کیا تم نے بھی اور بیکاروں کی طرح؟جمیل نے اسے والد صاحب کی طرح جھاڑا ۔
نہیںیار۔محلے والوں نے نالیوں اور صفائی کے حالات سے منسٹر کوآگاہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔تم کو تو معلوم ہے اس قسم کے کاموں میں محلے کے بوڑھے اور ریٹائرڈ لوگ ہی دلچسپی لیتے ہیں۔میں بیکار تھا ان کے لیے بھاگ دوڑ کے کام کردیا کرتا تھا ۔اس لیے ایک دن ان لوگوں کے ساتھ آفس چلاگیا۔منسٹر صاحب نے میرے جذبے کی تعریف کی۔بس تب سے میرا ان کے دفتر میں ہر روز آنا جانا شروع ہوگیا ہے۔ انکے جلسوں اور میٹنگ میںکچھ کام بھی کر دیتا ہوں۔جب بلواتے ہیں حاضر ہوتا ہوں ۔
تم نے نوکری کی درک کیوں نہ لگائی یار۔
اسی لیے تو جاتا ہوں وہاں۔ایک دو بار ان کے پی اے کو درخواست دی۔کئی بار خود ان سے کہا۔انہوں نے ہمیشہ تسلی دی ہے کہ انکی پارٹی بہت سے پروجیکٹ شروع کر رہی ۔ وعدہ کر رکھا ہے۔ کوشش جاری ہے میری طرف سے تو۔۔۔۔اس نے بے چینی سے جوتے سے مٹی کو جھاڑنا شروع کردی ۔
مجھے معلوم ہے اسی منسٹر نے بہت سے لوگوں کو رشوت لے کر نوکری دی ہے ۔
اچھا ۔ عرفان کو ایک اور جھٹکا لگا ۔
تمھارے وہاں آنے جانے کا کیافائدہ؟ایسے وعدے کا فائدہ؟ جمیل نے چڑ کر زور سے ہاتھ ہلا کر کہا۔
عرفان اللہ کو اپنی اوقات کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا ۔جمیل نے مزید جھنجھوڑا۔تمھارے والد سامنے والی دوکان پر شام کو ملتے ہیں ،پریشان رہتے ہیں ۔ گھر کے مالی حالات ۔
گھر کے حالات وہی ہیں یار۔عرفان نے پریشانی سے ہاتھ رگڑتے ہوئے کہا۔
گھر کے، مجھے تو محلے کی حالت بھی وہی لگتی ہے۔کیا کیا ہے تمہارے دوست منسٹرنے سوائے اپنے ورکروں میں اضافے کے۔تم تو اب گھر کا سوداسلف ، بیماری، حادثہ کی صورت میں بھی اپنے گھر والوں کے کسی کام کے نہیں رہے یار۔ دھوکے باز ہیں یہ یار ۔کیوں سیاست دان کی دوستی کے چکر میں پڑ گئے ہو؟
جمیل نے اس سے وہ سوال کر ڈالا جو وہ ہمیشہ خود سے کرنا چاہتا تھا۔امیر غریب کا رشتہ صرف آقا وغلام کا ہے۔عرفان بھلا غریب کا بھی کوئی دوست ہوتا ہے۔امیر جتنا بھی دولت مند ہو اس کو غریب کی دوستی مہنگی پڑتی ہے کیونکہ غریب بہت ہیں انکی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے اتنوں کی ضرورت کیسے پوری کرے ۔تم خود سوچو تم اسکے ووٹر اکھٹے کر تے رہے ۔وہ تم کو صرف ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں ایک ٹھنڈی بوتل اور سیاسی ہاتھ ملائو کرتا رہا۔سوچو یوں تمہاری ماں کی ٹی بی کا علاج ہورہاہے کیا ،بھائی کی تعلیم کا انتظام، بیوی بچوں کی دال روٹی؟ کیا ہے یہ یار ۔
جمیل کی باتیں اس کی طبیعت کو مزید بوجھل بنا رہی تھیں اس نے جمیل سے نجات پانے کے لیے زبردستی ہاتھ ملایا۔اور چل پڑا۔ اسکا دماغ غصے سے کھول رہا تھا ۔گھڑی دیکھی تو ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ اسے نوبجے کا شدت سے انتظار تھا۔وہ وقت گزارنے کے لیے آہستہ آہستہ قدم اٹھانے کی شعوری کوشش کرتا ہی رہا لیکن اس کی بے چینی اس کے لاشعور پر چھا چکی تھی۔ وہ اب تک منسٹر کے گھر کے اردگرد کئی چکر لگا چکا تھا۔اندازاً یہ کوئی دسواں چکر ہوگا کہ عالیشان گیٹ وا ہوا۔زن سے منسٹرکی گاڑی سیکیورٹی کی گاڑی سمیت اس کے قریب سے گرد اڑاتی اور سائرن بجاتی گزر گئی اور وہ ایک حیران بچے کی طرح کبھی گیٹ کو اور کبھی گاڑی کود یکھتارہ گیا۔چوکیدار نے اس کو پہچان لیا ۔ بولا صاحب دفتر چلے گئے ہیں۔ اب وہاں چلے جائو۔اس اطلاع کے ساتھ ہی عالی شان گیٹ بند ہوگیا۔وہ حیرت کے طلسم میں گرفتار اب دفتر پہنچ چکا تھا۔ صبح سے پیدل چل چل کر اسکی حالت خراب ہوچکی تھی ْادھر کمرہ ہرروز کی طرح ضرورت مندوں اور خوشامدیوں سے کھچا کھچ بھراتھا۔وہی کمرہ جہاں خوشامدی بسکٹ اور ضرورت مند دھکے کھا نے آتے ہیں ۔منسٹر صاحب حسب معمول راجہ اِندر بنے بیٹھے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے۔
وہ لوگوں کو دھکیلتا ہوا عین ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔منسٹر صاحب نے بھنوئیں سکیڑیں مگر اسکے اس باغیانہ انداز کو بری طرح نظر انداز کرکے بہت تپاک اور گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔
اس کابجھاہوادل پھر خوش ہوگیا۔اس نے کہنا شروع کیا۔جی سر وہ آج میں آپ کے گھر …مگر بات مکمل ہونے سے پہلے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
اسے خاموش ہونا پڑا۔اتنے میں کوئی پیچھے والا پارٹی کا نمائندہ منسٹرکے سامنے پڑی کرسی پر آن بیٹھا۔وہ با ادب کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ منسٹر صاحب اب دوسرے سے اسی پرتپاک انداز میں مصافحہ کر رہے تھے۔ اس نے انہیں متوجہ کرنے کے لیے گلا کھنکارا۔ مگر ان کی توجہ اپنی ڈائری کی طرف ہو چکی تھی ۔انہوں نے گھڑی دیکھی اور کرسی سے اٹھ گئے۔
سرجی میری بات تو سنیں۔
ہاں ہاں بات کرو۔وہ دروازے کی طرف لپکتے ہوئے بولے۔اب وہ تقریباً ان کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔
جی جناب میری جاب؟ اس نے درد بھرے چڑچڑے لہجے میں کہا ۔
میرا بریف کیس۔وہ تقریر۔ہاں یاد سے فون کر دینا۔منسٹر صاحب نے اپنے دائیں جانب سیکرٹری کو ہدایات دینے میں مصروف ہو گئے۔
وہ پیچھے پیچھے بھاگتا رہا ۔ آج وہ پر عزم تھا ۔ والد ، بھائی ،بیوی کے چہرے اسکے سامنے آکر اسکی ہمت بڑھا رہے تھے ۔ جمیل ہاتھ ہلا ہلا کر اسے بولنے پر مجبور کر رہا تھا ۔
جب وہ گاڑی کا دروازہ کھول چکے تو اس نے اپنی تمام تر ہمت جمع کر کے گاڑی کا دروازہ پکڑ لیا پھر کہا۔سر آپ نے وعدہ کیا تھا، آج گھر آنے کوبھی …اب وہ اور منسٹر صاحب اکیلے تھے ۔ ان کی خوش مزاجی میں بیزاری کے آثار نمایاں تھے۔
سنو ۔ یہ ان باتوں کا وقت نہیں ہے ۔ درازہ چھوڑو ۔ وہ غرائے ۔ مجھے ایک ہفتے کے لیے اسلام آباد جانا پڑ رہا ہے۔تم اپنا مسئلہ سیکرٹری کو بتا دو۔وہ انشاء اللہ کچھ کرے گا۔اللہ مہربانی فرمائے گا ۔
دھڑام سے گاڑی کا دروازہ بند ہوگیا۔اسے ایسے لگا جیسے گاڑی کا نہیں اس کی قسمت کا دروازہ بند ہو گیا ہو۔امید کا وہ غبارہ ، منسٹر سے قربت کا وہ زعم جو آج تک اسے اڑائے پھر رہا تھا، پھس پُھسا ہوکر گر پڑا۔اس کے کانوں میں اپنی ہی ہنسی گونجی۔ قتل یا خود کشی ۔ کھی کھی کھی ۔۔۔۔گاڑی جا چکی تھی ۔
تم کب سے اس صبح کے منتظر تھے؟ہر روز اس صبح کی تلاش میں سورج کے ساتھ سفر پر روانہ ہو جاتے تھے اور شام تمہارا مقدر ہوتی تھی۔ بہت ہوگیا اب اس امید میںوقت ضائع مت کرو، مایوسی کی اُسی شام میں پناہ ڈھونڈو۔امیر تو غریب کو دوستی کا جھانسہ دے کر غریب نواز کہلاتاہے۔ اگر وہ سیاستدان ہے تو ایم این اے یا منسٹر بن جاتا ہے اور ووٹر و سپورٹر بہتری کا منتظر ، جھانسے میں آتا رہتاہے ۔ اسکا دماغ جمیل کی طرح بولنے لگا ۔اس نے دل کی طرف دیکھا جو اسے تسلی دے رہا تھا۔ ’’شاید اگلے ہفتے کچھ ہو جائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔