منور رانا بھائی آج ہم سب کو غم زدہ کرکے وہاں چلے گئے ، جہاں جاکر آج تک کوئی واپس نہیں ہوا ہے۔ مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ میں ان سے آخری مرتبہ کب اور کہاں ملا تھا۔ ہاں مگر یہ یاد ہے کہ منور رانا صاحب سے میں بار بار ملا تھا۔ وہ جب کبھی پٹنہ آتے تھے تو میری ان سے ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ وہ ایک مرتبہ خاکسار کے غریب خانے پر بھی تشریف لائے تھے۔ بہت محبت سے ملے تھے میرے بچوں کے لیے میٹھائیا ں بھی لائے تھے اور خوب خوب دعائیں بھی دی تھیں۔ ہم لوگ پٹنہ کے "رحمانیہ ہوٹل " اور اجو بھائی کی گھڑی کی دکان پر گھنٹوں بیٹھ کر شعرو ادب کی باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ پٹنہ اس وقت تک آتے جاتے رہے تھے جب تک ان کی صحت اس لائق تھی۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب " بغیر نقشے کا مکان " میں مجھ سے پہلی ملاقات کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ غالباً 1984 ء کی بات ہے جب پٹنہ کے "بک امپوریم " کے نزدیک میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کی خدمت میں اپنے افسانوں کا مجموعہ " سلگتے خیموں کا شہر " پیش کیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ اس وقت تک منور رانا کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ لیکن منور رانا ایک مشہور شاعر کی حیثیت سے ملک بھر میں اپنی شناخت قائم کرچکے تھے اور اپنے منفرد انداز اور لہجے کے لیے معروف و مقبول تھے۔ میں نے شاعر تو بہت دیکھے ہیں۔ درجنوں بڑے شعرا سے میرے اچھے اور ذاتی مراسم بھی رہے ہیں۔ ان کے متعدد خطوط بھی میرے پاس فائل میں آج بھی موجود ہیں۔ مثلاً معین احسن جذبی ، مجروح سلطان پوری ، جگن ناتھ آزاد ، مخمور سعیدی ، کمار پاشی ، پرکاش فکری ، صدیق مجیبی ، وہاب دانش ، مظہر امام ، نازش پرتاپ گڑھی ، سلام مچھلی شہری ، ندا فاضلی ، بشیر بدر ، بیکل اتساہی ، افتخار امام صدیقی ، سلطان اختر ، حسن نعیم ، علقمہ شبلی ، ظہیر صدیقی ، پروفیسر علیم اللہ حالی ، بدنام نظر ، رمز عظیم آبادی ، مظفر حنفی ، پروفیسر عنوان چشتی ، جمیل مظہری ، علامہ فضل امام واقف عظیم آبادی ، رمز عظیم آبادی ، کیف عظیم آبادی ، رضا نقوی واہی اور کلیم عاجز ، اسلم آزاد ، ارمان نجمی وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ لیکن ان میں مخمور سعیدی ، ندا فاضلی ، بشیر بدر اور منور رانا بھائی سے میں بہت زیادہ قریب اور متاثر رہا ہوں۔ منور رانا بھائی سے مگر بہت زیادہ متاثر رہا ہوں۔ ڈاکٹر بشیر بدر بھی میرے ایک پسندیدہ شاعر ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھّے۔ آمین ! ۔۔۔۔سب آہستہ آہستہ کرکے رخصت ہوتے چلے جارہے ہیں "ایوان غزل " اداس اور سونا ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ دنیا کا کیسا قانون ہے۔ کاش ہم فنا نہ ہوتے۔ تاکہ یہ سچ لگتا کہ ہم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ اگر موت حقیقت نہ ہوتی تو شاید دنیا مزید ترقی کرتی یا بصورت دیگر جتنی ترقی ہوئی ہے وہ بھی نہ ہوتی۔۔۔۔۔ منور رانا اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اس بات کا یقین دل کو نہیں ہورہا ہے۔ لیکن یقین تو کرنا ہی ہوگا۔ غالب نے کہا تھا کہ :
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
لیکن منور رانا کی وفات ایک ایسا سخت واقعہ ہے کہ جان عزیز جیسی شئے بھی بے حقیقت ہوکر رہ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔