طاہرہ شمیم حسین کا ناول’’جہنم کے اس پار‘‘برادرم نصر ملک کے توسط سے ملا تو میں کچھ دیر کے لیے الجھن میں پڑ گیا۔کسی خاتون کا لکھا ہوا ناول ہے اور خواتین کے مقبول ناولوں کے انداز میں ہی لکھا گیا ہوگا۔اسی تاثر کے ساتھ میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا۔اور ہر آن میرے اس تاثرکی توثیق ہوتی گئی۔خواتین کے مقبول رسائل میں چھپنے والے خواتین کے افسانوں اور ناولوں والے اندازِ بیان کو اختیار کرتے ہوئے طاہرہ شمیم حسین نے شمونہ کی دکھ بھری اور جذباتی داستان بیان کرنا شروع کی۔ مشرقی مرد کی سفاک بالا دستی اور عورت کی مظلومیت کی داستان کو طاہرہ شمیم حسین نے اپنے آنسوؤں سے گوندھ کر لکھا ہے۔کہیں کہیں جب آنسوؤں کا پانی زیادہ ہوجاتا ہے تو کہانی کوئی واضح نقش و نگار ظاہر کرنے کی بجائے اصلاحی مضمون کا انداز اختیار کر لیتی ہے۔لیکن پھر اسی مضمون نگاری میں سے زندگی کی کرب ناک داستان نمودار ہوتی ہے اور زندگی آگے کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔
ڈنمارک جیسے مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں آکر بھی جو لوگ اپنی روایات اور ثقافت کے نام پر گھریلو تشدد پر قائم رہنا چاہتے ہیں،ان کے کردار اور شخصیت پر افسوس ہوتا ہے۔
شمونہ ایسی لڑکی ہے جو لگ بھگ بیس برس کی عمر میں بیاہ دی گئی۔پھر قسمت نے یاوری کی اور اپنے شوہر کے ساتھ ڈنمارک آگئی۔خدا نے ان کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔شوہر عام دنیا کے لیے بہت مہذب اور شائستہ انسان تھا۔اس کی سماجی سرگرمیاں بھی لائقِ تحسین تھیں لیکن بیوی کے معاملہ میں وہ اول روز سے ہی ایک ظالم شوہر رہا۔بات بات پر بیوی کی اہانت کرنا،گالی گلوچ سے لے کر مار پیٹ تک،ہر زیادتی کر گزرنا۔شمونہ یہ سب کچھ سہتی رہی اور زندگی سے نباہ کرتی رہی۔خاوند کی طرف سے جاہل ہونے کی گالی کا اس نے یہ جواب دیا کہ ڈنمارک جیسے ملک میں اسکول ٹیچر کی جاب حاصل کرکے دکھا دی۔اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ گھر کے تکلیف دہ ماحول کے باوجود بچوں کی زندگیوں میں ایک توازن قائم کر دیا۔سب کی تعلیم بھی مکمل کرائی اور انہیں اپنے پیروں پر بھی کھڑا کر دیا۔جس گھر سے شمونہ کو نکلنا پڑا تھا،اسے بھی قانونی اور باوقار طریقے سے حاصل کر دکھایا۔
لیکن شمونہ کی کہانی اتنی مختصر اور اتنی سادہ نہیں ہے۔ازدواجی زندگی کے تیس برسوں میں اور ڈنمارک جیسے ملک میں رہتے ہوئے شمونہ نے شوہر کے ظلم و ستم اور تشدد کو نہایت صبرو استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ڈنمارک جیسے ملک میں جہاں پولیس کو ایک کال کرنے سے ایسے شوہر کو حوالات کی سیر کرانا بے حد آسان ہے،شمونہ کا مسلسل صبر اور قوت برداشت حیران کن ہے۔اس دوران مختلف اوقات میں جب شوہر کی طرف سے زیادتی میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہوجاتا شمونہ نے تین بار ناراض ہو کر گھر چھوڑا لیکن ہر بار بچوں کی خاطر واپس چلی آئی۔لیکن آخری بار گھر چھوڑنے کا فیصلہ حتمی بن گیا۔شمونہ نے سرکاری تحفظ گاہ’’عورت گھر‘‘میں قیام اختیار کیا۔تینوں بچے جو اَب بالغ ہو چکے تھے،پوری طرح اپنی والدہ کے ساتھ تھے۔بچے روزانہ اپنی والدہ سے ملنے کے لیے ’’عورت گھر ‘‘جاتے۔یہ ایک جملہ شمونہ اور اس کے نوجوان بچوں کی نفسی کیفیات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔اس مقام تک آتے آتے طاہرہ شمیم حسین کے قلم میں سچ مچ درد انگیز جادو پیدا ہو گیا ہے۔ شمونہ نے ’’عورت گھر‘‘میں پہلی رات کیسے گزاری؟اور پھر پورا سال کیسے گزرا؟بچوں کی نفسی کیفیات کیا تھیں؟ماں کا ساتھ دینے کے باوجود ماں کاگھر ٹوٹنے اور ماں کی حالت پر پریشان اور سراسیمہ بچوں کی نفسیات ہر طرح کے قاری کو اداس اور بے چین کردیتی ہے۔ میں خود اس حصہ سے اختتام تک اتنا محو ہو کر رہ گیا کہ شمونہ اور اس کے سارے بچوں کاکرب جیسے میرے اپنے اندردرد بھر گیا۔پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ رات کو نیند آجانے سے پہلے تک میں اپنی بیوی کے ساتھ اس ناول کو اور بالخصوص شمونہ کے’’عورت گھر‘‘میں قیام کے دورانیہ والے احساسات اوربچوں کی نفسی کیفیات کو ڈسکس کرتا رہا۔اس کرب انگیز حصہ میں ایک دو بار تو مجھے اپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اس حصہ میں طاہرہ شمیم حسین واقعتاََ ایک عمدہ اور شاندار ادیبہ دکھائی دینے لگتی ہیں۔
یہاں ناول کے مختلف مقامات سے چنداقتباس اس لیے پیش کر دیتا ہوں کہ ان کے ذریعے طاہرہ شمیم حسین کے طرزِ نگارش اور ناول کی عمومی فضا کابخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’وہ رات اس پر بہت ہی بھاری تھی۔ اس کا بیٹا اپنے بستر پر نہیں سویا تھا۔ اس رات وہ ایک دفعہ پھر مر گئی۔ اپنی شادی شدہ زندگی میں نہ جانے وہ کتنی دفعہ مری تھی اور اب نجانے یہ کونسی باری تھی۔‘‘(صفحہ نمبر ۱۱)
’’اب شمونہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ اُسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے سامنے اُس کی ڈاکٹر کے بجائے اماں جی بیٹھی ہیں اُس کی ماں جو شمونہ کو پانی کا لوٹا اٹھائے ہوئے بھی دیکھتیں تو سوچتیں کہ کیا یہ بوجھ شمونہ اٹھا سکے گی۔ یہ تو اس سے کیسے اٹھے گا۔ وہ اسے کیسے اٹھائے گی۔ اُس نے اپنی بیٹی کو اتنے لاڈوں سے پالا تھا۔‘‘(صفحہ نمبر ۱۶۹)
اور یہ’’ عورت گھر‘‘ میں پہلی بارماں، بیٹے کے پہنچنے کا منظرہے۔
’’ابھی شمونہ بیڈ پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ فہد نے بے اختیار ماں کو گلے سے لگا کر بے اختیار رونا شروع کر دیا اور اپنی ماںکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں لیتے ہوئے کہنے لگا ’’امی میں آپ کو زیادہ دیر یہاں رہنے نہیں دوں گا… امی … آپ یہاں … یہاں اس اتنے چھوٹے سے ویران کمرے میں … اکیلی …نہیں امی … میرے ایک دوست کے پاس بڑا گھر ہے … میں کل ہی اُس سے بات کروں گا۔ میں کل ہی آپ کو یہاں سے لے جائوں گا … میری ماں … میری پیاری ماں …یہ جگہ آپ کے رہنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘ …اُس نے ماںکے ہاتھوں کو بے اختیار چومنا شروع کر دیا…شمونہ بھی اب اپنی دھاڑوں پر قابو نہ پا سکی۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ اپنے سینے میں گھٹی ہوئی چیخوں کو نہ روک سکی۔‘‘(صفحہ نمبر۱۷۵)
اور پھر’’عورت گھر‘‘سے بیٹے کے چلے جانے کے بعد شمونہ کی پہلی رات کی حالت دیکھیں:
’’شمونہ کو ایسے لگا جیسے یک لخت کسی نے اُس کے پائوں تلے کی زمین کھینچ لی ہو اور وہ نیچے ہی نیچے گہری اندھی کھائی میں گرتی چلی جا رہی ہو۔ ایسی کھائی جس کا کوئی پیندا نہیں۔ ایک ایسی اندھی غار جس کی تہہ ہی نہیں۔ وہ نیچے اور نیچے لڑکھڑائی چلی جا رہی ہے۔ اُسے اپنا وجود ہوا میں معلق گہرائی کی طرف گرتاہوا محسوس ہو رہا تھا اور وہ ہوا میں ہاتھ پاؤں مارتی جا رہی تھی ۔ اب بھی وہ ہوا میں ہاتھ پائوں مارتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو ہر حال میں نیچے گرنے سے بچانے کی جدوجہد میں تھی۔۔۔‘‘(صفحہ نمبر ۱۷۷)
تیس سالہ تکلیف دہ زندگی گزارنے کے بعد میاں بیوی میں علیحدگی کی یہ داستان ایسے شوہروں کے لیے عبرت کا باعث بن سکتی ہے،جو اپنی نام نہاد مشرقی روایات اور ثقافت کی آڑ لے کر بیویوں پر ظلم، زیادتی اور تشدد کرتے ہیں۔بہت سے مرد حضرات شمونہ کے شوہر کے انجام سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔اسی طرح بہت سی خواتین اپنی ازدواجی زندگی کے تیس سال ضائع کیے بغیر شمونہ کی زندگی کی کہانی کو مشعلِ راہ بنا سکتی ہیں۔
یہ ناول قلم برداشتہ لکھا گیا ہے اور عجلت میں شائع کیا گیا ہے۔اس لیے اس میں کمپوزنگ کی بہت ساری اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ان اغلاط کو ٹھیک کر لیا جائے ،اسی طرح شروع کے حصہ میں اگر کچھ ایڈیٹنگ کر لی جائے اور اس ناول کا نیا ایڈیشن شائع کیا جائے تو یہ محض خواتین کے لیے لکھنے والے رسالوں کا ناول نہیں رہے گا بلکہ ایک عمدہ ادبی فن پارہ بھی بن جائے گا۔فی الحال بھی نصر ملک کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈنمارک سے کسی خاتون کااردوکا پہلا ناول ہے۔طاہرہ شمیم حسین نے اسکنڈے نیویاکی اردو دنیا میں اردو فکشن کی خواتین پر ،ناول نگاری کے حوالے سے پہلے ہلے میں ہی اپنی بالا دستی قائم کر لی ہے۔ یورپ بھر میں خواتین کے اردو کے جو گنتی کے چند ناول آئے ہیں،ان میں بھی یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے دوسرے ناولوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے۔
طاہرہ شمیم حسین اس کے لیے مبارک باد کی مستحق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔