دشمنوں سے دوستی کا تجربہ کیسا رہا
بد گمانی میں گماں کا ذائقہ کیسا رہا
زلزلے تو ذات کی دہلیز پر آ تے رہے
ناقہء خاہش ہوا سے رابطہ کیسا رہا
فصلِ گل میں خوشبوؤں کی قید میں جکڑے رہے
پتھروں سے زخم تک کا فاصلہ کیسا رہا
آ بلہ پا ہمسفر گردِ سفر میں کھو گئے
کیا بتاؤں ہجرتوں کا سلسلہ کیسا رہا
شدتِ غم کچھ ذرا کم ہو تو بتلانا مجھے
جبر موسم میں انا کا تجزیہ کیسا رہا
یہ مری وحشت مری دیوانگی بتلائے گی
کاتبِ تقدیر تیرا فیصلہ کیسا رہا