سفر ملال کا ہے اور چل رہی ہوں مَیں
غبارِشب کی اداسی میں ڈھل رہی ہوں مَیں
عجیب برف کی بارش بدن پہ اُتری ہے
کہ جس کی آگ میں چُپ چاپ جل رہی ہوں مَیں
پھر اِک چراغ جلا شام کی حویلی میں
پھر ایک درد سے آخرسنبھل رہی ہوں مَیں
یہ رکھ رکھاؤ اسے جاننے نہیں دے گا
کہ اپنے آپ میں کیسے پگھل رہی ہوں مَیں
یہ عشق سچ سے جدا کیسے ہو گیا جاناں
اب اس سوال سے باہر نکل رہی ہوں مَیں
بس ایک عشق مِری ذات پر صحیفہ ہو
مِرے خدا یہ عقیدہ بدل رہی ہوں مَیں