اس کی باتوں سے دیپ جلتے ہیں
اور اسکی ہنسی رباب سے ہے
اس کی قربت میں اک نشہ سا ہے
اس کی تاثیر ہی شراب سے ہے
بام ہے اور ایک چہرہ ہے
چاند ہے اور آب و تاب سے ہے
یوں مکمل ہے اسکا ہر پہلو
وہ حقیقت نہیں کتاب سے ہے
اسکی ہر قوس فارمولا ہے
اسکا ہر زاویہ حساب سے ہے
اسکے سب رنگ تتلیوں جیسے
اسکی سب تازگی گلاب سے ہے
__ اور حیدر قریشی صاحب گزارش ہے کہ ۔۔۔
لفظ شعروں میں گوندھنا سیکھا
جو بھی کچھ ہے یہ آنجناب سے ہے