قارئین ادب کی خدمت میں اپنے ادبی و تنقیدی مضامین کامجموعہ’’ تنقیدی جائزے‘‘پیش کرتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہورہی ہے۔ درحقیقت قلم پکڑناآسان ہے لیکن قلم کو صحیح سمت چلانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔خاص طور پر جب ادبی وتخلیقی دنیا میں پہلا قدم رکھنا ہوتو یہ امر اور بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ قلم ہمیشہ علم و ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے شہ رگ کا کام کرتا ہے ساتھ ہی ذہنی خوراک بھی مہیا کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہلکی رفتار میں ہی سہی مگر قلم کو چلتے رہنا چاہیے تا کہ انسانی ذہن ودل بھی چلتا رہے۔ لہذا اسی مقصد کے تحت یہ کاوش سر انجام دی گئی ہے۔
کتاب میں شامل مختلف موضوعات پر ادبی و تنقیدی کل تیرہ مضامین اور ایک انٹرویو شامل ہیں۔یہ مضامین تنقیدی ،تجزیاتی اور تاثراتی ہئیت کے ہیں۔ان مضامین کو دو حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔پہلا حصہ ’ادب اور ادیب ‘جس میںکل ۷ مضامین شامل ہیں ۔ان مضامین کوبراہ راست متن کے سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تخلیق کا رکی ذاتی زندگی کے بجائے ادب و تخلیق کے حوالے سے تجزیاتی وتنقیدی نقطہ نظر پیش کیا گیاہے۔ ابتدائی دو مضامین اردو کے دو اہم نقاد شمس الرحمن فاروقی اور حامدی کاشمیری کی شعری ادبی خدمات کے حوالے سے ہے ۔پہلا مضمون بعنوان’’ شمس الرحمن فاروقی کی شعری حسیت ‘ ‘ اوردوسرا’ ’حامدی کاشمیری کی شعری کائنات ‘‘ کے عنوان سے ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے شعری سرمائے کے پیش نظر بالخصوص ان کی غزلوں اور نظموں کی انفرادیت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے شعری لوازمات اختصار اور جامیعت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرامضمون حامدی کاشمیری کے مکمل شعری آہنگ کے تجزیے پر مبنی ہے۔جس میں ان کی شاعری کا عروضی تجزیہ کیا گیا ہے۔کتاب میں شامل تیسرا مضمون’’ گلزار کی تروینی اور تقی عابدی‘‘ ہے ۔اردو میں تین مصروں پرمشتمل اہم شعری صنف’ تروینی‘جسے گلزار نے اردو میں خاص صنف کی حیثیت عطا کی ہے ۔تروینی پر تقی عابدی کی تنقیدی و تحقیقی نظر کا اجمالی جائزہ لیا گیاہے۔چوتھا مضمون’’ غم دوراں کا شاعر :کلیم عاجز‘‘ ہے۔کلیم عاجزکی شاعری میںغم دوراںکی منفرد آواز ، سیاسی وملی شعور ،اسلوب اور انداز بیان پرتحقیقی و تنقیدیروشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پانچواں مضمون ’’مجاہد اردو:راج بہادر گوڑ‘‘ ہے۔ حیدرآباد میں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں راج بہادر گوڑ کی ادبی خدمات پیش کیے گئے ہیں ۔ چھٹا مضمون ’’اردو کی غیر روایتی تانیثی آواز:فہمیدہ ریاض ‘ ‘ ہے۔یہ مضمون فہمیدہ ریاض کی شاعرانہ عظمت کے پیش نظرشاعری کے ہئیتی تجربات پرمبنی ہے ۔کتاب کا ساتواں مضمون ’’راجستھان اردو تحقیق میں شاہد احمد جمالی کی ادبی خدمات ‘‘ہے۔مضمون میں گذشتہ دس برسوں میں راجستھان اردو تحقیق کے حوالے سے کیے گئے تحقیقی کام میں شاہد احمد جمالی کی ادبی خدمات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کادوسرا حصہ ’’ادب اور تحریکات کی شناخت ‘‘ ہے ۔ اس حصے میںکل چھ مضامین شامل ہیں ۔پہلامضمون ’شعر او رشعریات ‘ کے عنوان سے ہے ۔جس میں شعر کے مختلف معنی ،لوازم اور شعری ہیئت کے ساتھ فارسی ،عربی اور اردو شعریات کا جائزہ لیا گیاہے۔دوسرا مضمون ’’دبستان لکھنو کی انفرادیت(غزل کے حوالے سے )‘‘ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے دبستان لکھنو کے شعری ادب کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔تیسرا مضمون ’’ترقی پسند افسانے کے اہم رجحانات ‘‘ہے۔ ترقی پسند ادبی تحریک ایک ہمہ گیر تحریک رہی ہے اس تحریک سے ادب کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔ اردوافسانے پر اس تحریک کے اثرات، افسانہ نگاراور ان کی تخلیقات کا مختصر مگر جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھا مضمون ’’۱۹۳۰ کے بعد اردو تنقید کا منظر نامہ ‘‘ہے۔یہ مضمون بیسویں صدی میں اردو تنقید کے عروج ، اہم تنقید نگار اورمختلف تنقیدی نظریات پر مبنی ہے۔ اس حصے کا پانچواں مضمون’’غبار خاطرکا تنقیدی جائزہ ‘‘ہے۔جس میں مولانا ابولکلام آزاد کی ادبی تخلیق ’’غبار خاطر ‘‘کے اسلوب اور انداز بیان پر تنقیدی نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب اگلا مضمون ’’اردو صحافت کی مختصر تاریخ‘‘ ہے۔ اس مضمون میںاردو صحافت کی مختصر تاریخ پیش کی گئی ہے۔
کتاب کے آخری حصہ میںرام پور کی معروف ادیبہ خلیق النساء سے براہ راست لیا گیا ایک انٹرویو پیش کیا گیا ہے۔جس میں ان کی ادبی زندگی اور ادب کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے ہیں۔
مذکورہ سبھی مضامین دہلی اوردیگرریاستوںمیںاردوکے موقرادبی جریدوں ،اخبارارت،اورانٹرنیٹ پر موجود ادبی ویب سائٹ پر شائع ہو چکے ہیں۔ مجھے اس بات نے بہت حوصلہ اور خوشی دی کہ ان مضامین کے شائع ہونے پر کئی اہل علم اور صاحب الرائے حضرات نے بذریعہ فون اور کتابیں بطور تحفہ بھیج کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیااورمجھے دادو تحسین سے نوازا۔قارئین کی اس حوصلہ افزائی نے بھی اس ادبی کوشش کو کتابی صورت میں پیش کرنے کا حوصلہ دیا۔ بلا شبہ جو میرے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی ہے۔
کتاب میں شامل خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی قارئین کے صوابد پر منحصر ہے۔میںاپنے نقطہ نظر کو ان مضامین میں کس حد تک واضح کر سکی ہوں اور ادب کی تفہیم میں یہ کوشش کتنی معاون ثابت ہوگی یہ فیصلہ قارئین کا ہے ۔میں توقع کرتی ہوں کہ قارئین اپنے مشورے ، تجاویز اور تنقید سے میری اصلاح اور حوصلہ افزائی کریں گے۔
کتاب کی تکمیل میں اپنے بزرگوں،محترم اساتذہ اور دوستوں کی شکر گزار ہوںجن کی حوصلہ افزائی ،تعاون ،دعائیں او رنیک خواہشات ہمیشہ میرے شامل حال رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔