نِت نیا کوئی فسانہ ہی گھڑا کرتے تھے
ہم ترے ساتھ بہانے سے لڑا کرتے تھے
مکتبِ عشق میں پوچھا گیا جب کوئی سوال
سب سے پہلے تو ہمیں ہاتھ کھڑا کرتے تھے
آج میں ترکِ تعلق پہ بضد ہوں لیکن
بات بے بات پہ تم بھی تو اَڑا کرتے تھے
ساتھ چلتے تھے ترے اور اکڑ کر اکثر
اپنی دانست میں قد اپنا بڑا کرتے تھے
خط بہت پیار سے لکھتے تھے تجھے اور اس میں
جا بجا شعر کے موتی بھی جڑا کرتے تھے
آج قدسیؔ ترے لہجے میں بہت تلخی ہے
تیرے منہ سے تو کبھی پھول جھڑا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔