امرت رائے (1921ء– ستمبر 1996ء ) اردو و ہندی کے مشہور فکشن نگار پریم چند کے بیٹے ہیں۔ ’’قلم کا سپاہی‘‘ کے نام سے پریم چند کی سوانح عمری لکھی۔ ہندی ترقی پسند فکشن کو تقویت دینے والے فکشن نگار ہیں۔ 1935ء سے انھوں نے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور جلد ہی ادبی دنیا میں مشہور ہو گئے۔ دنیا میں نئے تجربے کرنے اور نئی سوچ کے ذریعے سماج کو نیا موڑ دکھانے والے کہانی نگاروں میں امرت رائے کا شمار ہوتا ہے۔ زندگی اور معاشرے کے مختلف مسائل پر انھوں نے گھری نظر ڈالی ہے۔ دھند لکے میں مل جانے والی انسانیت کے لیے ہمدردی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف غم و غصہ، غریبی مفلسی، بے کاری، بٹوارے کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والے مختلف مسائل، برائیوں، کمزوریوں اور اقتصادی ناہمواریوں، ان سب موضوعات کے اردگرد ان کی کہانیاں گھومتی ہیں۔ ان کی ابتدائی کہانیاں جو مجموعہ ’’جیون کے پہلو‘‘ میں شامل ہیں، فنی اعتبار سے کمزور ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کے یہاں پختگی آتی گئی۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت امرت رائے کی کہانیوں کی بنیاد ہے۔ سرمایہ داری کو امرت رائے استحصال کی دوسری شکل مانتے ہیں۔ یہ استحصال کہیں بھی ہو رہا ہو کسی بھی شکل میں ہو رہا ہو امرت رائے اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ امرت رائے کی زیادہ تر کہانیاں سماجی حقیقت نگاری کی کہانیاں ہیں۔ امرت رائے کو کرداروں کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کی مصوری میں بڑا کمال حاصل ہے۔ ’’کوئلی‘‘ ، ’’پھر صبح ہوئی‘‘، ’’پھیکا کاغذ‘‘، ’’ڈاک منشی کی ایک شام’’ ، ’’رام کہانی کے دوہنی‘‘ جیسی کہانیوں میں انھوں نے کرداروں کے اندرونی جذبات کا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ آخر الذکر کہانی ایک طوائف کی بے بسی و مجبوری کی کہانی ہے۔ ’’پھر صبح ہوئی‘‘ میں ایک ادھیڑ عمر کی غیر شادی شدہ نرس کی نفسیات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
تصنیفات: ۔ (1)جیون کے پہلو۔ (2)اتہاس۔ (3)قصبہ کا ایک دن۔ (4)لال دھرتی۔ (5)بھور سے پہلے۔ (6)کٹھگڑے۔ (7)گیلی مٹی۔ (8)چتر پھلک۔ (9)ایک سانولی لڑکی۔ (10)ستیہ میوجیتی۔ (11)شام کی تھکن۔ (12)ایک کامیاب تصویر۔ (13)ترنگے کفنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔